سندھ کا سیاسی بحران

وزیر اعلیٰ کی گرفتاری کے دعوے کرنے والے خود پابند سلاسل ہو گئے

منگل 9 مارچ 2021

Sindh Ka Siyasi Bohraan
راؤ محمد شاہد اقبال
یہ تو سب ہی کو بہت پہلے سے معلوم تھا پی پی کراچی،سانگھڑ اور تھرپارکر میں ہونے والے ضمنی انتخابات با آسانی جیت لے گی لیکن انتخابی سیاست میں”آسانی“کی بھی کچھ”سیاسی اقسام“ہوا کرتی ہیں۔ہمارے خیال میں جس آسانی سے پیپلز پارٹی نے سندھ میں ہونے والے حالیہ ضمنی انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف اور اس کی اتحادی جماعتوں کو شکست فاش دی ہے یقینا”سیاسی آسانی“ کی یہ سب سے بدترین قسم ہی قرار دی جا سکتی ہے،حیران کن بات یہ ہے کہ کسی ایک ضمنی نشست پر بھی تحریک انصاف اور جی ڈی اے کا مشترکہ اُمیدوار پاکستان پیپلز پارٹی کے اُمیدوار کے مقابلے میں اتنے سے ووٹ بھی حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہو سکا کہ جتنے ووٹ کسی انتخابی امیدوار کو کونسلر کی نشست جیتنے کیلئے درکار ہوتے ہیں خاص طور پر انتخابی حلقہ 88 ملیر کے متعلق عوام میں ضمنی انتخابی معرکہ شروع ہونے سے قبل ایک مبہم سی امید ضرور پائی جاتی تھی کہ شاید یہاں کے ضمنی انتخاب میں پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کے امیدواروں کے درمیان کانٹے کا مقابلہ دیکھنے کو میسر آجائے مگر شومئی قسمت کہ اس انتخابی نشست پر بھی نہ تو عمران اسماعیل کی گورنری کا جادو چلا اور نہ ہی حلیم عادل شیخ کی سیاسی پھرتیاں اپنا رنگ جمانے میں کامیاب ہو سکیں اور پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدوار یوسف بلوچ نے 21731 حاصل کرکے بھاری برتری کے ساتھ تحریک انصاف کے امیدوار جان شیر جونیجو کو تاریخی شکست سے دوچار کر دیا۔

(جاری ہے)


یاد رہے کہ اس انتخابی حلقہ میں تحریک انصاف کے امیدوار نے صرف 4753 ووٹ حاصل کئے جبکہ پی ٹی آئی سے لاکھ درجے بہتر انتخابی کارکردگی کا مظاہرہ تو نوزائیدہ سیاسی جماعت تحریک لبیک پاکستان کی جانب سے دیکھنے میں آیا کہ جس کا امیدوار 4476 ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب رہا یعنی اگر تحریک لبیک پاکستان 278 ووٹ مزید حاصل کر لیتی تو تحریک انصاف اس انتخابی حلقہ میں دوسرے درجہ کی سیاسی جماعت بھی نہ رہ پاتی،یکے بعد دیگرے تین ضمنی نشستوں پر واضح کامیابی سے جہاں پیپلز پارٹی کے سیاسی اعتماد میں زبردست ہوا ہے وہیں سندھ حکومت کے انتظامی حوصلے بھی خوب بلند تر ہو چکے ہیں اور یہ ”سیاسی اعتماد“ اور ”انتظامی حوصلے“ کا مشترکہ کرشمہ ہی ہے کہ تحریک انصاف سندھ کے متحرک ترین رہنماء حلیم عادل شیخ کو جیل کی چار دیواری میں قید کر دیا گیا ہے حالانکہ چند ہفتے قبل تک یہی حلیم عادل شیخ لہک لہک کر وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کی ممکنہ گرفتاری کے سیاسی دعوے کر رہے تھے لیکن آج حالات کی ستم ظریقی ملاحظہ ہو کہ مراد علی شاہ پوری تمکنت کے ساتھ وزیر اعلیٰ سندھ کے منصب پر براجمان ہیں جبکہ حلیم عادل شیخ کو تحریک انصاف کی وفاقی حکومت کی موجودگی میں پابند سلاسل کیا جا چکا ہے۔


سندھ حکومت اس بات سے انکاری ہے کہ حلیم عادل شیخ کی گرفتاری میں کسی بھی طرح سے اس کا ”انتظامی عمل دخل“ ہے لیکن جاننے والے بخوبی سمجھتے ہیں کہ حلیم عادل شیخ کی گرفتاری سندھ حکومت کی رضا مندی یا سیاسی منشا کے بغیر کی ہی نہیں جا سکتی تھی دراصل حالیہ ضمنی انتخابات میں غیر معمولی کامیابی سے سندھ حکومت کو سیاسی دباؤ سے باہر نکلنے کا جو موقع ملا ہے اسے بروقت بروئے کار لاتے ہوئے وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے تحریک انصاف سندھ کی قیادت کے خلاف کھل کر سیاسی کھیل کھیلنے کا فیصلہ کیا ہے تاہم بعض سیاسی تجزیہ کاروں کو خدشات لاحق ہیں تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی کے درمیان شروع ہونے والی اس نئی جارحانہ سیاسی چپقلس کے نتیجے میں سندھ کی سیاست آنے والے ایام میں سنگین قسم کے بحرانوں کی زد میں بھی آسکتی ہے،مثال کے طور پر تحریک انصاف کراچی کی قیادت کی جانب سے حلیم عادل شیخ کی گرفتاری کا تمام تر ”سیاسی نزلہ“ سندھ پولیس پر گرانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

ذرائع کے مطابق تحریک انصاف کراچی کی اعلیٰ قیادت نے باضابطہ طور پر وزیراعظم عمران خان کو اپنا پیغام پہنچایا ہے کہ”آئی جی سندھ وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کے سیاسی ایماء پر تحریک انصاف کے ساتھ امتیازی سلوک کے مرتکب ہو رہے ہیں لہٰذا انہیں فوری تبدیل کر دیا جائے“حالانکہ تلخ حقیقت تو یہ ہے کہ تحریک انصاف سندھ کی مقامی قیادت،سیاسی و انتخابی محاذ پر پیپلز پارٹی سے مقابلہ کرنے کی سرے سے اہلیت ہی نہیں رکھتی جسے ہماری اس رائے پر ذرہ برابر بھی شک ہو وہ گزشتہ تین برسوں پر محیط تحریک انصاف کی مقامی قیادت کی صوبہ بھر میں سیاسی و انتظامی کارکردگی ملاحظہ کر سکتا ہے دراصل تحریک انصاف کراچی کی قیادت کا سارا وقت اور توانائی ایک دوسرے کے ساتھ الجھنے میں ہی گزر جاتا ہے۔


 اس لئے تحریک انصاف کے رہنما سوشل میڈیا پر تصاویر میں تو بہت زیادہ دکھائی دیتے ہیں لیکن عوامی حلقوں انہیں تلاش کر پانا،کسی وسیع و عریض صحرا میں ایک سوئی کو ڈھونڈنے سے بھی زیادہ مشکل کام ہے جبکہ پیپلز پارٹی سندھ کی قیادت کو آپ لاکھ برا بھلا کہیں مگر ان میں یہ خوبی بہر صورت پائی جاتی ہے وہ اپنے حلقے کی عوام کے ساتھ ہمہ وقت منسلک و مربوط رہتی ہے یہی وجہ ہے کہ حالیہ ضمنی انتخابات میں پیپلز پارٹی کے حصہ میں فقید المثال کامیابی حصے میں آئی حالیہ سیاسی تناظر میں اگر واقعی پاکستان تحریک انصاف کی قیادت پیپلز پارٹی کو سندھ کے سیاسی میدان کا رزار میں مشکلات سے دوچار کرنے کا ارادہ رکھتی ہے تو پھر یقینا سب سے پہلے تحریک انصاف کے قائدین کو سوشل میڈیا کی ”مصنوعی سیاست“ کے خول سے باہر نکل کر اپنے اپنے عوامی حلقوں میں عوام کی سمت جانا ہو گا خاص طور پر کراچی کے عوامی حلقے جہاں سے گزشتہ قومی انتخابات میں تحریک انصاف کو زبردست انتخابی کامیابی حاصل ہوئی تھی وہاں کے عوام ہنوز تحریک انصاف کے ان سیاسی نمائندوں کے شدت کے ساتھ منتظر ہیں جنہیں انہوں نے ووٹ دے کر ایوان اقتدار تک رسائی دی تھی۔

اہلیان کراچی کے انتظامی مسائل اور سیاسی دکھوں کا مداوا کرنا تحریک انصاف کی عوامی نمائندوں کی اولین ترجیح ہونا چاہئے فقط یہ ایک واحد عوامی شاہراہ ہے جس سے گزر کر تحریک انصاف کی قیادت صوبہ سندھ میں سیاسی مقبولیت حاصل کر سکتی ہے بصورت دیگر آئی سندھ کی تبدیلی حتیٰ کہ وزیر اعلیٰ سندھ کے تبدیل ہو جانے سے بھی صوبہ سندھ میں تحریک انصاف کا تاریک سیاسی مستقبل ،ہر گز روشن اور تابناک ہونے والا نہیں ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Sindh Ka Siyasi Bohraan is a political article, and listed in the articles section of the site. It was published on 09 March 2021 and is famous in political category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.