سانحہ نیوزی لینڈ، سمت درست کرنے کی ضرورت کس کوہے؟

سانحہ کرائسٹ چرچ کے بعد نیوزی لینڈ کی پارلیمنٹ کے پہلے اجلاس کا آغاز تلاوت قرآن مجید سے ہوا‘ممبران نے سانحے کے سوگ میں ایک منٹ خاموشی اختیارکی گئی۔وزیراعظم جیسنڈا ایرڈن نے پارلیمنٹ سے خطاب کا آغاز ”اسلام وعلیکم“ سے کیا اور سانحہ کرائسٹ چرچ کے متاثرین سے یکجہتی کا اظہار کیا ، جو کہ بہت ہی شاندارطرز عمل ہے

Mohammad Waqar Aslam محمد وقار اسلم جمعرات 21 مارچ 2019

sneha new zealand,simt durust karne ki zaroorat kisko hai?
جمعہ کی نماز کے وقت دو مساجد میں لوگوں کو لقمہ اجل بنانے والا ایک جنونی شخص جس نے بربریت کی مثال رقم کردی اس نے لوگوں کے مرنے کے بعد بھی ان کے اجسام پر فائرنگ کی۔یہ شخص ایک نسل پرست شخص ہے جس کا بائیو ڈیٹا یہ ہے کہ الیکشن میں ٹرمپ کو اس لئے سپورٹ کیا کہ وہ گورا ہے اس انتہا پسند کا تعلق اسٹریلیا کے شہر گرافٹن سے ہے اور حیرت انگیز طور پر اس نے اپنے سوشل میڈیا پروفائل پر یہ درج کیا کہ وہ صبح یہ حملہ کرنے جا رہا ہے اگر بچ گیا تو ملیں گے ورنہ گڈ بائے، 
'' See you in Valhalla''“ یہ بات ظاہر کرتی ہے کہ اسٹریلیا سے تعلق رکھنے والا یہ شخص یہ گن مین کس قدرایک ٹورسٹ ہے جو گوروں کی حکمرانی چاہتا ہے اور مسلمانوں سے شدید نفرت رکھتا ہے ۔

ٹرمپ نے گوروں،خصوصا پس ماندہ دیہی علاقوں کے سفید فام ووٹرز کے دلوں میں چھپی نسل پرستی اورتارکین وطن سے نفرت کے جذبات کو ابھار اورانہیں بڑی ہوشیاری سے اپنے حق میں استعمال کر کے بازی جیت لی۔

(جاری ہے)

امریکا کی زیادہ تر شہری آبادی پڑھے لکھے،برسر روزگار،متمول اورمراعات یافتہ طابقات پر مشتمل ہے۔ان میں گورے بھی شامل ہیں کالے بھی اور ایشیا اور افریقا سے ترک وطن کر کے آنے والے باشندے بھی جب کہ دیہی علاقوں میں رہنے والوں کی بھاری اکثریت ناخواندہ غریب یا متوسط طبقے کے سفید فام باشندوں پر مشتمل ہے۔

یہ طبقات دو تہائی امریکا کی نمائندگی کرتے ہیں اوردوسرے ممالک سے نقل مکانی کر کے آنے والے افراد کو اپنی تمام تر محرومیوں کا ذمے دار سمجھتے ہیں۔کہا جاتا ہے کہ 2008ء کی کساد بازاری نے ان محرم طبقات کے لیے روزگار کے مواقع مزید محدود کر دیے اوران کی جگہ زیادہ باصلاحیت اورپڑے لکھے تارکین وطن نے لے لی۔اس صورت حال سے متاثرہ سفید فام فام ووٹرز میں مایوسی پھیلتی چلی گئی۔

جس کا دوسرے سیاست دانوں کو تو ادراک نہ ہوسکا،لیکن ارب پتی ٹرمپ نے اس کا بھر پور فائدہ اٹھایا اوران کی ہم دردیاں حاصل کرنے لے لیے۔امریکا جن کا تھا،وہ اس میں اجبنبی بنتے جا رہے ہیں،جیسا متعصبانہ نعرے کو مزید پرکشش بنانے کے لیے انہوں نے دوسرے ممالک کے شہریوں خصوصاً مسلمانوں،لاطینی اورچینی باشندوں کے خلاف نفرت پھیلانے کی تحریک چلا دی اوراعلان کیا کہ وہ اپنے اقتدار کے پہلے سود نوں میں مجرمانہ پس منظررکھنے والے ایسے 30لاکھ تارکین وطن کو امریکا سے نکال دیں گے کہ جن کے پاس قانونی دستاویزات نہیں اورمزید غیر ملکیوں کی آمد روکنے کے لیے امیگریشن پالیسی سخت کردیں گے جو وہ چاہتے ہوئے بھی نہ کر سکے اور ڈسٹرکٹ جج نے ان کو یہ حرکت کرنے سے روک دیا تھا۔

 یہ بھی واضح کرتا چلوں کہ امریکا نے تاج برطانیہ سے جو آزادی حاصل کی،وہ صرف سفید فاموں کے لیے تھی،ریڈ انڈینز اورسیاہ فام غلاموں کے لیے نہیں اوریہ ہی نسل پرستی کی وبا تھی جو سرائیت کرتی گئی،برینٹن ٹیرنٹ نامی گھٹیا شخص نے نا صرف یہ دلدوز سانحہ رونما کیا بلکہ یہ مناظر فیس بک پر اپنے پروفائل میں بھی لائیو نشر کئے اس بربریت پر اسے قرار واقعی سزا دی جائے، دنیا کے لئے یہ شرم کا مقام ہے کہ وہ سوچے کہ کیا یہ شخص بھی مسلمان تھا؟ یہ مسلمانوں کے لئے حقارت رکھنے والا کٹر یہودی تھا جس نے انسانیت کوپستی میں ڈال دیا اس شخص نے اپنی اس قدر نفرت پر اندھا دھند عمل کیا کہ عینی شاہدین کا کہنا ہے سڑک پر اسے جو بھی مسلم لباس میں نظر آیا اس نے اس پر گولیوں کی بوجھاڑ کی۔

تفصیلات کے مطابق اس دہشتگرد نے اپنے ہیلمٹ میں کیمرہ نصب کر رکھا تھا یہ اندر جا کر گولیاں چلاتا باہر نکلتا گاڑی میں بیٹھتا اگلی مشین گن اٹھاتا اور پھر انسانی جانوں کے قتل پر لگ جاتا اتنی سفاکیت اور بربریت سے اس نے اس قبیح فعل کو انجام دیا اس نے نعشوں پر مزید گولیاں برسا کر انہیں مسخ تک کیا اور ان کی مزید بے حرمتی کی۔ یہ بھی بتاتا چلوں کے گزشتہ برس اس شخص کے پاکستان آنے والی خبروں میں بھی کوئی صداقت نہیں تھی کیونکہ جن ذرائع نے یہ خبر جاری کی ہے ان کا ٹریک ریکارڈ جھوٹ سے سنسنی پھیلانے کا ہے اور وہ سکرین شاٹ بھی فیک معلوم ہوتا ہے۔

دنیا کے ہر ملک میں ایسے واقعات ہوتے رہتے ہیں جب حکومت کے خلاف بھی مظاہرے ہوتے ہیں اور عمالِ حکومت کے خلاف بھی جمہوری حکومتوں میں یہ سب حقوق عام شہری کو حاصل ہوتے ہیں۔ اسی طرح قانون ہاتھ میں لیا جاتا ہے اور توڑا بھی جاتا ہے اور اس چیز کو قابو کرنے کے لیے پولیس اور قانون نافذ کرنے والے ادارے فعال کردار ادا کرتے ہیں ۔
پاکستانی ترجمان دفتر خارجہ ڈاکٹر فیصل نے کہا کہ اس کا سوراغ لگایا جائے گا اورپاکستان اس کی معلومات حاصل کر رہا ہے اور اس کی شدید الفاظ میں مذمت کی اس کے بعد وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بھی اس دلدوز سانحے کی سخت الفاظ میں مذمت کی وزیراعظم عمران خان نے واضح موقف دیتے ہوئے کہا کہ کرائسٹ چرچ (نیوزی لینڈ) میں مسجد پر دہشت گرد حملہ نہایت تکلیف دہ اور قابل مذمت ہے۔

یہ حملہ ہمارے اس مؤقف کی تصدیق کرتا ہے جسے ہم مسلسل دہراتے آئے ہیں کہ: ''دہشت گردی کا کوئی مذہب نہیں''۔ ہماری ہمدردیاں اور دعائیں متاثرین اور انکے اہل خانہ کیساتھ ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ان بڑھتے ہوئے حملوں کے پیچھے 11/ 9کے بعد تیزی سے پھیلنے والا ''اسلاموفوبیا'' کارفرما ہے جس کے تحت دہشت گردی کی ہرواردات کی ذمہ داری مجموعی طور پر اسلام اور سوا ارب مسلمانوں کے سر تھوپنے کا سلسلہ جاری رہا۔

مسلمانوں کی جائز سیاسی جدوجہد کو نقصان پہنچانے کیلئے بھی یہ حربہ آزمایا گیا۔ بلکل اسلام و فوبیا بھی دہشتگردی جیسا بھیانک ہے جس کے نتائج انسانیت کی معراج کے برخلاف ہیں اور یہ نقصان بڑھتا جا رہا ہے۔
 نیوزی لینڈ کی وزیراعظم بھی کہہ چکیں اور اسٹرویلوی وزیراعظم اسکوٹ موریسن بھی بتا چکے کہ وہ بہت مغموم ہیں اور یہ کہنے میں انہیں کوئی قباحت نہیں کہ یہ دہشتگردی ہے، ترک صدر رجب طیب اردوگان نے بھی اس سانحہ کی بھرپور الفاظ میں مذمت کی اور کہا کہ یہ اسلام کے خلاف اس بڑھتی نفرت کا شاخسانہ ہے یہ کوئی اچانک نہیں ہو ا بلکہ اس کے پیچھے لمبی چوڑی پلاننگ تھی یہ وہ مائنڈسیٹ وہ ناسور ہے جو مغربی معاشروں کو کینسر کی طرح کھائے جا رہا ہے۔

سانحہ کرائسٹ چرچ کے بعد نیوزی لینڈ کی پارلیمنٹ کے پہلے اجلاس کا آغاز تلاوت قرآن مجید سے ہوا‘ممبران نے سانحے کے سوگ میں ایک منٹ خاموشی اختیارکی گئی۔وزیراعظم جیسنڈا ایرڈن نے پارلیمنٹ سے خطاب کا آغاز ”اسلام وعلیکم“ سے کیا اور سانحہ کرائسٹ چرچ کے متاثرین سے یکجہتی کا اظہار کیا ، جو کہ بہت ہی شاندارطرز عمل ہے اور ان کی اچھائی ہے جس کو سراہا جانا چاہیے ۔

یہ اسلا م دشمن واقع اس قلعی کو کھول دیتا ہے کہ دہشتگردی کا تعلق کسی بھی صورت کسی مذہب سے نہیں جوڑا جا سکتا یہ ایک سوچ ہے،ایک مائینڈ سیٹ ہے جو دنیا کی بربادی کا موجب ہے،دہشتگردوں کا کوئی مذہب نہیں یہ تباہی اور بربادی پھیلانے پر لگے ہوئے ہیں جس کا نشانہ بن کر سب سے زیادہ نقصان ہمیشہ مسلمانوں نے ہی اٹھایا ہے اور مسلمان ہی قربانیاں دیتے رہے ہیں اور دنیا بلاوجہ ان پر ہی انگلیاں اٹھاتی رہی ہے آنکھوں کو غم سے خیرہ کردینے والی بات یہ ہے کہ عالمی میڈیا اسے حملہ آور تو کہہ رہا ہے مگر دہشتگرد نہیں محض اس لئے کہ وہ سیاہ فام ہے اس کا تعلق اسلام سے نہیں، وہ اسلام جس کی بنیاد ہی امنیت و سلامتی ہے اسے دنیا مشکوک نگاہوں سے دیکھتی ہے تو کیا مسلمانوں کو یخلخت کرتے ان کے گھروں میں صفِ ماتم بچھاتے یہ غیر مسلم اقوامَِ عالم کودکھتے نہیں یا انہوں نے ان سے شرما کر پٹی باندھ رکھی ہے۔

اب تمام ممالک کو یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ اس کشمکش کوکب ختم کر یں اور ڈکلئیر کریں کہ مسلمان دہشتگرد نہیں ہیں اور دہشتگردی کا کسی مذہب سے تعلق نہیں ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

sneha new zealand,simt durust karne ki zaroorat kisko hai? is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 21 March 2019 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.