ٹرمپ کا پلان بی

ایران‘چین یا روس کے خلاف اگلے 2 ماہ میں باقاعدہ جنگ چھڑ سکتی ہے

جمعہ 11 دسمبر 2020

trump ka plan b
راوٴ محمد شاہد اقبال
دنیا میں اگر مکافات عمل کا آفاقی و آسمانی قانون ابھی تک رائج ہے پھر یقینا امریکہ کے ساتھ وہی کچھ ہو رہا ہے ،جو کبھی امریکہ دنیا بھر کے ساتھ کیا کرتا تھا۔امریکہ نے ایک مدت تک دنیا کو سیاسی،لسانی،نسلی اور مذہبی بنیادوں پر تقسیم کئے رکھا اور آج وہی تقسیم امریکہ میں صاف ملاحظہ کی جاسکتی ہے۔امریکہ نے کم از کم 5 دہائیوں تک ترقی پذیر ممالک میں حکومتیں بنانے اور حکومتیں گرانے میں اپنا اہم ترین کردار ادا کیا اور آج امریکی ذرائع ابلاغ امریکی انتخابات میں چین اور روس کی مبینہ مداخلت کی چیخ،چیخ کر دہائیاں دے رہا ہے گزشتہ نصف صدی سے امریکہ جس جمہوریت کے حق میں صبح و شام رطب اللسان رہا آج اُسی جمہوری نظام ہائے حکومت میں امریکہ کے اپنے منتخب نمائندے کیڑے نکال رہے ہیں اور تجاویز دے ہیں کہ منقسم امریکہ کو مزید تقسیم در تقسیم ہونے سے بچانے کیلئے ایک نئے حکومتی نظام کی تشکیل پر بحث و تمحیص کا آغاز کیا جائے۔

(جاری ہے)


امریکہ کل تک جس جدید ترین ٹیکنالوجی پر ناز کرتے ہوئے دنیا بھر کو جتلایا کرتا تھا کہ امریکہ کے انتخابی عمل کو دھاندلی جیسے الزامات سے بچانے کے لئے الیکٹرانک ووٹنگ اور آن لائن ووٹنگ جیسی جدید سہولیات استعمال کی جاتی ہیں۔آج اسی امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دعویٰ کیا ہے کہ حالیہ امریکی انتخابات میں الیکٹرانک ووٹنگ اور آن لائن ووٹنگ کو دھاندلی کے ایک موٴثر آلہ کے طور پر بھرپور انداز میں استعمال کیا گیا ہے لطیفہ ملاحظہ ہو کہ جس وقت ہماری اپوزیشن جماعتیں اور حکومتی رہنما انتخابات میں ہونے والی مبینہ دھاندلی کے انسداد کے لئے انتخابی اصطلاحات میں آن لائن ووٹنگ کا طریقہ کار متعارف کروانے کی ترمیم کرنے کا سوچ رہے ہیں عین اسی وقت امریکہ میں آن لائن ووٹنگ کو ترک کرکے پرچی سسٹم کے ذریعے انگوٹھا لگا کر ووٹ ڈالنے کا نظام لائے جانے کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے سب سے بڑا لمحہ فکریہ تو یہ ہے غریب ممالک کے بچے بچے کے ہاتھ میں اسلحہ تھمانے والے امریکہ میں آج اتنا اسلحہ جمع ہو چکا ہے کہ گمان کیا جا رہا ہے کہ ہر امریکی کے گھر میں راشن موجود ہو یہ ضروری نہیں لیکن جدید اسلحہ کی موجودگی لازمی ہے۔


ایک رپورٹ کے مطابق حالیہ انتخابات میں امریکی شہریوں نے جس اشیاء کی سب سے زیادہ خریداری کی ہے،وہ جدید اسلحہ ہے،واضح رہے کہ عام امریکی شہریوں کا بڑے پیمانے پر اسلحہ خرید کر اپنے گھروں میں رکھنا صرف ان کے عدم تحفظ کے احساس کو ہی ظاہر نہیں کرتا بلکہ یہ اس بات کی خطرناک علامت بھی ہے کہ گزشتہ چند برس میں امریکی کی دو بڑی جماعتوں ریپبلکن اور ڈیموکریٹ نے امریکی معاشرے کو سوائے زوال کے کچھ نہیں دیا لمحہ فکریہ تو یہ ہی ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ امریکی معاشرے میں اچانک سے در آنے والے اسی جمہوری و اخلاقی زوال کو اپنا اقتدار برقرار رکھنے کے لئے استعمال کر سکتے ہیں نہیں بلکہ کر بھی رہے ہیں اس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ امریکی انتخابات کا اعلان ہونے کے بعد ایوان اقتدار میں متمکن امریکی صدر کے انتخابی اختیارات سلب کرنے کی بہت پرانی روایت رہی ہے مگر صدر ٹرمپ حالیہ انتخابات کے بعد اپنے انتظامی اختیارات پہلے سے بھی زیادہ بھرپور انداز میں استعمال کر رہے ہیں۔


ٹرمپ نے جوبائیڈن کو امریکی وزارت دفاع کی جانب سے ملنے والی تمام بریفنگ بھی رکوا دی ہیں نیز وہ اہم ترین عہدوں پر تقرر و تبادلے بھی اسی شان سے فرما رہے ہیں جیسے کے وہ انتخابات سے پہلے کیا کرتے تھے بلکہ یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گے کہ امریکی انتخابات کے نتائج آنے کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ نے زیادہ شدت اور بے رحمی کے ساتھ صدارتی اختیارات کو استعمال کرنا شروع کر دیا ہے بعض تجزیہ کاروں کا تو خیال ہے کہ اس بات کا قوی امکان ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ آنے والے دنوں میں اپنی جیت کا سرکاری حکم نامہ وائٹ ہاؤس سے خود بھی جاری کر سکتے ہیں بھلے ہی اس صدارتی حکم نامے کی اہمیت امریکی آئین اور قانون کے نظر میں کچھ بھی نہ لیکن بہرحال اس طرح کا حکم نامہ ٹرمپ کے حامیوں کو سڑکوں پر لانے کے لئے زبردست بہانہ ضرور فراہم کر سکتا ہے یہی وہ نازک وقت ہو گا جب امریکی شہریوں کا خریدا ہوا اسلحہ امریکہ کے خلاف بھی استعمال ہو سکتا ہے،ہماری دعا ہے کہ خدا کرے کہ ایسا وقت کبھی نہ آئے لیکن جس ملک کا صدر ڈونلڈ ٹرمپ ہو کم از کم ایسی ریاست کو توہر متوقع اور غیر متوقع صورتحال کے لئے پوری طرح سے تیار رہنا چاہئے۔


یاد رہے کہ امریکی انتخابات کے نتائج تسلیم نہ کرنے کے امریکی صدر کے بیانیے نے امریکہ بھر میں مظاہروں اور پر تشدد واقعات کے امکانات بڑھا دئیے ہیں،گزشتہ ہفتوں کے دوران انتخابی نتائج کے معاملہ پر امریکی شہروں میں کئی پر تشدد واقعات سامنے آئے اور مسلح مظاہرین نے صدر ٹرمپ کے حق میں ناصرف کھل کر اظہار خیال کیا بلکہ نسلی تعصب کی فضا کو ابھارنے کی بھی کوشش کی۔

اس کا سادہ سا مطلب یہ ہے کہ امریکہ جیسے ملک میں بھی سیاسی تناؤ کے نتیجے میں تشدد و انارکی پھیلنے کے وسیع تر خطرات پائے جاتے ہیں جبکہ خطرہ تو یہ بھی ہے کہ 20 جنوری 2021ء کی شام جب امریکی فوج نئے منتخب امریکی صدر جوبائیڈن کو سلامی پیش کرنے کے لئے وائٹ ہاؤس میں جمع ہوں گے تو عین ممکن ہے کہ اس وقت ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے ڈونلڈ ٹرمپ کو سیلوٹ کرنے کا کہہ دیا جائے تو اس طرح امریکی فوج بھی شدید ترین مشکل صورت حال سے دو چار ہو سکتی ہے مگر صورتحال صرف یہیں تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اگلی مدت کے لئے اپنی صدارت کو محفوظ اور یقینی بنانے کے لئے ایک خطرناک قسم کا پلان بی بھی تیار کیا ہوا جس کے مطابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ اگلے دو ماہ میں ایران،چین یا روس کے خلاف باقاعدہ جنگ بھی چھیڑ سکتے ہیں تاکہ جنگ کے خصوصی حالات کی وجہ سے حالیہ امریکی انتخابات کے نتائج کو پس پشت ڈال کر ”نظریہ ضرورت“ کے تحت ٹرمپ کو عہدہ صدارت پر برقرار رکھنے کے لئے امریکی ریاست کے پاس کوئی دوسرا راستہ ہی باقی نہ بچے۔

اس حوالے سے معروف امریکی اخبار نیویارک ٹائمز میں ایک خصوصی تحقیقاتی رپورٹ بھی شائع ہوئی ہے جس میں 4 موجودہ اور سابق امریکی عہدیداروں کا حوالہ دیتے ہوئے انکشاف کیا گیا ہے کہ ”امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ایران پر حملہ کرنے کے لئے اعلیٰ عسکری حکام سے صلاح و مشورہ بھی کر چکے ہیں اور ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے قومی سلامتی کے سینیئر ترین مشیروں سے پوچھا کہ ایران کی جوہری تنصیبات پر حملے کے کون سے آپشن ہیں اور ان کا کیا جواب دیا جائے“۔


”امریکی افواج کے حملے کا امکان ایران کے افزودگی پروگرام کے مرکز ”نتنز“ پر ہے “ جس کے بارے میں ایرانی حکام کا اصرار ہے کہ یہ صرف پرامن مقاصد کیلئے ہے نیز رپورٹ کے دیگر مندرجات کے مطابق ”امریکی نائب صدر مائیک پینس،سیکریٹری خارجہ مائیک پومپیو، قائم مقام دفاعی سیکریٹری کرسٹو فرملر اور جوائنٹ چیف آف سٹاف کے چیئرمین جنرل مارک میلے سینیئر مشیروں میں شامل تھے اور مذکورہ افراد نے امریکی صدر کو حملے سے دستبردار ہونے پر آمادہ کیا“لیکن اس خفیہ اجلاس کی جان کاری رکھنے والے عہدیداروں نے اخبار کو یہ بھی بتایا ہے کہ ”ٹرمپ،ایران اور اس کے جوہری اثاثوں پر حملہ کرنے کے منصوبوں کے بارے میں ابھی بھی سوچ رہے ہیں“اس طرح کی دستاویز سے بآسانی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ وائٹ ہاؤس میں اپنے قیام کو اگلی مدت کے لئے یقینی بنانے کے لئے کچھ بھی اقدام انتہائی آسانی سے اٹھا سکتے ہیں۔

یاد رہے کہ یہ سکے کا صرف ایک رخ ہے جبکہ حقیقت تو یہ ہے کہ سکے کا دوسرا رخ بھی کچھ خاص مختلف نہیں ہے اور ٹرمپ کی مانند ڈیموکریٹ رہنما جوبائیڈن بھی اقتدار کے حصول کے لئے آخری حد تک جانے پر پوری طرح سے آمادہ دکھائی دیتے ہیں۔
ذرائع کے مطابق جوبائیڈن نے بھی دنیا بھر میں تعینات ریپبلکن سفیروں کو خفیہ ہدایت جاری کر دی ہے کہ وہ ٹرمپ انتظامیہ کی طرف سے جاری ہونے والے سرکاری احکامات کی مختلف حیلے بہانوں سے مزاحمت کرنا شروع کر دیں اور آخری اطلاعات آنے تک انہوں نے جوبائیڈن کی منشاء اور ہدایت کے مطابق ریپبلکن سفیروں نے بھی اپنے رنگ،ڈھنگ چوکھے سیاسی انداز میں دکھانے شروع کر دئیے ہیں یہی وجہ ہے کہ اس وقت ٹرمپ انتظامیہ کو دنیا بھر میں اپنی پالیسیوں کو جاری رکھنے،منوانے یا تبدیل کروانے میں سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے علاوہ ازیں جوبائیڈن کے سیاسی بیانات دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لئے بھلے ہی جتنے خوش کن اور دلفریب محسوس ہو رہے ہوں لیکن اصل میں وہ بھی اپنے حامیوں کو انتخابی نتائج کے دفاع کیلئے ہر ممکن حربہ آزمانے کی کھلی چھوٹ دے چکے ہیں اس لئے اگر امریکہ میں سیاسی حالات ناگفتہ صورت حال سے دوچار ہوتے ہیں تو اس میں صرف ریپبلکن ہی نہیں بلکہ ڈیموکریٹ بھی برابر کے ذمہ دار ہوں گے سب سے بڑھ کر تو چند صفحات کا امریکی آئین بنانے والے وہ عالی دماغ”امریکی فادرز“ ذمہ دار ہوں گے کہ جنہوں نے پورے امریکی آئین میں ایک بھی آئینی شق وضاحت سے لکھنے کی زحمت گوارا نہیں کی اور آئین کو ایسے بنایا کہ جو چاہے اس میں سے اپنی مرضی کا ”آئینی حکم‘ برآمد کرلے،ہمارے خیال میں امریکہ کو بھی 11 ویں، 12 ویں، 18 ویں اور 21 ویں ترمیمات جیسی کسی ترمیم کی شدت سے ضرورت ہے بصورت دیگر دنیا بھر سے ہائے امریکہ کہنے والے ،ہم جیسے لوگ امریکہ کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بائے بھی کہہ سکتے ہیں۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

trump ka plan b is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 11 December 2020 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.