وعدہ

ہر چند کہ وبائی امراض کا پھیلاؤ، قدرتی آفات کی آمد کو ہم قدرت کے کھاتے میں ڈال دیتے ہیں اور ہمارے ادارے بھی بری الذمہ ہو جاتے ہیں لیکن اگرگہرائی میں جائزہ لیں تو اس کے پیچھے انسانی ہاتھ واضع دکھائی دے گا،قدرتی حسن کا خاتمہ جس دیدہ دلیری سے جلدی میں ہم کر رہے ہیں

Khalid Mahmood Faisal خالد محمود فیصل پیر 10 فروری 2020

wada
چین کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے، جن کا کوئی سرکاری مذہب نہیں ہے، یہ کیمونسٹ نظریات کے طرف دار ہیں،تاہم دیگر مذاہب کے افراد بھی اس کے شہری ہیں،ا نکو فراہم کردہ مذہبی آزادی کی بابت خبریں عالمی میڈیا کی زینت بنتی رہتی ہیں،ان دنوں بھی چین میڈیا میں ”ان“ ہے اسکی وجہ نوول کرونا وائرس ہے،اسکی اچانک آمد نے حکمرانوں کی نیند حرام کر رکھی ہے،مایوسی اور پریشانی کے عالم میں انکے صدر مسجد جا پہنچے اور مسلمانوں سے استدعا کی کہ وہ اس وائرس سے نجات کی دعا کریں،قادر مطلق ہر دعا سننے اور قبول کرنے پے قدرت رکھتے ہیں،لیکن اس نے کھانے پینے اور حیاتی گزارنے کے کچھ مسلمہ اصول وضع کیے ہیں، ان پے عمل پیرا ہونے سے انسان بہت سی بیماریوں سے بچ ہی جاتا ہے،اہل چین کے بارے میں معروف ہے کہ وہ حرکت کرتی ہر چیز ہڑپ کرنے پے ملکہ رکھتے ہیں، کہا جاتا ہے کہ چمگادڑ میں اس وائرس کے امکانات ہوتے ہیں، امر واقعہ یہ ہے کہ چمگادڑ کو سانپ نے کھایا،پھر وہ سانپ ودہان کی مارکیٹ جا پہنچا چین کا یہ شہر ہمہ قسم کے چرند، پرند فروخت ہونے کا مقام ہے، جس میں یہ سانپ بھی فروخت ہوا جو کسی سٹال والے نے خریدا ،مذکورہ سانپ سٹال والے نے پکایاخود بھی کھایا اور دوستوں کو بھی کھلایا،یوں سانپ سے وائرس انسانوں میں منتقل ہوا، متاثرہ افراد جو سب سے پہلے ہسپتال لائے گئے وہ سٹال والے ہی تھے،بعدازاں اس نے ایسی اڑان بھری کہ دنیا کو خوف میں مبتلا کر ڈالا،سینکڑوں چینی شہری موت کے منہ میں چلے گئے ہزاروں تاحال اس سے متاثر ہیں، دنیا نے اس سے رابطہ منقطع کر لیا،ذرائع نقل و حمل پے قدغن لگا دی،جس کے اثرات اسکی معیشت پے بڑے نمایاں ہیں،اس کے باوجود یہ قوم سخت جانفشانی کے ساتھ اس بحران سے نبرد آزماء ہے، محض سولہ گھنٹے میں نئے ہسپتال میں دو منزل کی تعمیراسکی جفاکشی کی عمدہ مثال ہے، جب تلک اس کا موثر علاج دریافت نہی ہو جاتا اور اس پے قابو نہی پایا جاتا اس سے متاثر ہونے کا بہرحال خدشہ موجود رہے گا، یہ وبائی مرض ہے تاہم ماہرین اسکی کم سے کم احتیاط اپنے ماحول اور ہاتھوں کو صابن سے صاف رکھنے کا مشورہ دیتے ہیں۔

(جاری ہے)


گمان ہے کہ اہل چین آیندہ ہر متحرک چیز کھانے سے پرہیز ہی کریں گے، اطلاعات ہیں کہ چین کے صوبہ سنکیانگ جہاں مسلمانوں کی کثیر تعداد ہے وہاں کے ریسٹورانٹ کے حلال کھانے غیر مسلموں میں بھی ذائقے کے اعتبار سے مقبول ہو رہے ہیں اسکی برانچیں دیگر شہروں میں کھل رہی ہیں۔
بعض ناقدین اس وائرس کے تانے بانے بایئوجیکل وار سے جوڑتے ہیں، ایک زمانے میں انتھراکس وائرس کا بھی شہرہ تھا اس کا الزام اس وقت کی بدنام زمانہ القائدہ پے لگا تھا، وہ قوتیں جنکو معاشی میدان میں چین کا سبقت لے جانا اور مستقبل میں اپنی کرنسی میں عالمی تجارت کرنے کا قصد کرنا قطعی قابل قبول نہی ، پھر ون بلٹ ون روڈ کا منصوبہ بھی انکو ہضم نہی ہو رہا، کہا جاتا ہے کہ2011 میں ” Contagion “نامی ہالی ووڈ کی دکھائے جانے والی فلم میں چمگادڑکے ذریعہ وائرس کے پھیلاؤ کی بڑی مماثلت چین کے حالات پے صادق آتی ہے ا س لئے بعض لوگ ان ہاتھوں کو تلاش کرنے میں مصروف ہیں، جو ” ففتھ وار جنریشن “کے بھی گر جانتے ہیں ،توقع ہے چینی قیادت جس نے ہر جگہ اپنا لوہا منوایا ہے وہ اس سے نجات پاتے ہی اس کا کھوج لگانے میں بھی کامیاب ہوگی ۔

ہر چند کہ وبائی امراض کا پھیلاؤ، قدرتی آفات کی آمد کو ہم قدرت کے کھاتے میں ڈال دیتے ہیں اور ہمارے ادارے بھی بری الذمہ ہو جاتے ہیں لیکن اگرگہرائی میں جائزہ لیں تو اس کے پیچھے انسانی ہاتھ واضع دکھائی دے گا،قدرتی حسن کا خاتمہ جس دیدہ دلیری سے جلدی میں ہم کر رہے ہیں ،تو اس کے” آفٹر شاکس “ہمیں زلزلے، لینڈ سلایڈنگ،سیلاب کی صورت میں ملتے ہیں۔

اس طرح کھانے کی اشیاء بھی ہمارے رحم وکرم پے ہیں ان سے ہمارا سلوک بھی ڈھکا چھپا نہی ہے۔
ابھی کل ہی بات ہے کہ لاہور جیسے کھانوں کے مرکز میں گدھے کے گوشت سے پکوان کا شہرہ رہا تو کراچی میں ”کتا بریانی“ کا چرچا رہا، کبھی مینڈک کے تلنے کی بازگشت سنائی دی، مردہ جانوروں کے گوشت کی بڑے شہروں کو سپلائی کی خبریں تو اکثر میڈیا میں زیرگردش رہتی ہیں، کیمیکل ملے دودھ کا تذکرہ، مرچوں میں ملاوٹ، کوکنگ آئل ،گھی میں زنک کی موجودگی،باسی کھانوں کا شکوہ، ، سیوریج کے پانی میں تیار ہوتی سبزیاں،نجانے کیا کیا اس قوم کا مقدر ہے، ہر چند کہ ہم حلال چیزیں کھانے کے زعم میں مبتلا ہیں لیکن چند مفاد پرست افراد اور ادارے اپنی جیب گرم کرنے کے لئے ہمیں کیا کچھ نہیں کھلا رہے، سر بازار کلیجی بوٹی، تکہ بوٹی جس ناقص گھی اور صفائی کے ماحول میں تیار ہو رہی ہوتی ہے وہ بھی اس مزدور کا لقمہ بنتی ہے جو مہنگے ریستوران کھانا کھانے کی حثیت نہی رکھتا۔

 پنجاب میں ایک اتھارٹی کے فرائض منصبی میں یہ شامل ہے کہ وہ اپنی دسترس میں رہتے ہوئے کھانے میں زیر استعمال اشیاء کے معیار اور صفائی کویقینی بنائے ، اس کاوش کے باوجود سستے دام والے فاسٹ فوڈز میں نیم مردہ مرغیوں کا گوشت شامل ہونے کی شکائت عام ہیں، چین میں وائرس کی موجودگی میں یہ پیغام بڑا واضع ہے، اللہ تعالی نے جو حلال، حرام کی حد مقرر کی ہے اسکو پار مت کریں۔

 ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ وہ افرد جو اس کاروبار سے وابستہ ہیں وہ اپنے فعل اور جلد امیر ہونے کے خبط میں حلال اشیاء کو ملاوٹ کے ذریعہ حرام بنانے کی پوری کاوش میں مصروف ہیں، اگر وہ اس بابت جائز ذرائع اختیار کریں تو بھی خوشحالی پا سکتے ہیں،محتاط اندازے کے مطابق رواں سال حلال فوڈ کی مارکیٹ عالمی سطح پے سات سو پچاس ڈالر کی ہو جائے گی، علاوہ ازیں ہم جس خطہ میں ہیں یہ خود بڑی مارکیٹ ہے، افغانستان، چین، ارو وسطی ریاستوں میں حلال گوشت ،فوڈکی بڑی مانگ ہے، البتہ خدشہ ہے ناقص فوڈ اور ملاوٹ کے لحاظ سے ہماری شہرت ہی کہیں رکاوٹ نہ بن جائے۔

 حلال فوڈز کی برآمد سے معشیت کو سنبھالا دیا جا سکتا ہے، لائیو سٹاک کے کارروبار سے پیسہ کمانے کا شوق پورا ہو سکتا،سرکار اس ضمن میں کسانوں کی مالی معاونت بھی کرے اور انھیں اسکی تربیت بھی دے۔اس میں بڑا پوٹینشل ہے، جو طبقات راتوں رات امیر ہونے کے غم میں مبتلا ہیں اس خوش فہمی میں نہ رہیں کہ وہ غیر معیاری اشیاء کی فراہمی اور ناقص کھانے کھلانے کے نام پے قوم کو دھوکہ دے کر بھی پکڑے نہی جارہے،باالفاظ دیگر یہ خود کو دھوکہ دے رہے ہیں، خدا نخواستہ کوئی آفت انکے اس فعل کی بدولت آئی تو پہلا شکار وہ اور انکے بچے ہی ہوں گے، کیونکہ قادر مطلق اپنے وعدہ کے خلاف کچھ نہی کرتا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

wada is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 10 February 2020 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.