یہود و ہنود کی سرزمین حجاز پر قبضے کے مذموم ہتھکنڈے

یہودی ریاست کا قیام خطہ عرب و عجم سے مسلم ممالک کے تشخص کا خاتمہ ہی ہے

بدھ 6 جنوری 2021

Yahood o Hanood Ki Sarzameen Hajaz par Qabze K Mazmoom Hathkandey
راؤ محمد شاہد اقبال
”اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم کرنے والے عرب ممالک دراصل مسئلہ فلسطین سے غداری کرتے ہوئے فلسطینیوں کی پیٹھ میں چھرا گھونپ رہے ہیں“یہ الفاظ ترکی کے صدر طیب اردوان کی زبان اقدس سے چند ہفتے قبل ہی ادا ہوئے تھے لیکن حیران کن بات یہ ہے کہ اسرائیل مخالف یہ بیان عالمی ذرائع ابلاغ اور سوشل میڈیا کی ”دیوار گریہ“سے ابھی پوری طرح سے مٹنے بھی نہ پایا تھا کہ بین الاقوامی ذرائع ابلاغ نے یہ خبر دے کر فلسطینیوں پر بجلی گرا دی کہ ترکی کے صدر طیب اردوان نے اسرائیل کے ساتھ گزشتہ 2 برس سے منقطع اپنے سفارتی تعلقات یکطرفہ طور پر بحال کرتے ہوئے اپنے سب سے معتمد اور قریبی رفیق افق التاش کو اسرائیل میں ترکی کا باضابطہ سفیر تعینات کر دیا ہے یقینا ترکی کی وزارت خارجہ اسرائیل میں اپنا سفیر تعینات کرنے کے حوالے سے بہترین اور پرمغز دلائل و براہین پر مشتمل ”سفارتی جواز“ بھی جلد ہی ذرائع ابلاغ کے سامنے پیش کر دے گی لیکن جو سادہ لوح افراد اس خام خیالی میں مبتلا تھے کہ ترکی مستقبل میں پاکستان کے علاوہ وہ دوسرا مسلم ملک ہو گا جو ارض فلسطین کی آزادی کے لئے اسرائیل کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر کھڑا ہو گا افسوس ایسے مثبت نظریات و خیالات رکھنے والوں کی ساری خوش فہمی دور ہو گئی ہے نیز طیب اردوان کے اس فیصلے نے جہاں مظلوم فلسطینیوں کو شدید مایوسی سے دو چار کر دیا ہے،وہیں ترکی کے اسرائیل نواز اس ”سفارتی اقدام“ نے پاکستانیوں کو بھی عجیب مخمصے میں مبتلا کر دیا ہے،یاد رہے کہ پاکستانی سوشل میڈیا میں گزشتہ چند برسوں سے ترکی کو ایک بار پھر سے دنیا کے افق پر ابھرتی ہوئی نئی”سلطنت عثمانیہ“ کے روپ میں پیش کیا جا رہا تھا جبکہ طیب اردگان کا موازنہ سلطنت عثمانیہ کے آخری خلیفہ جناب سلطان عبدالحمید“کی سیاسی و سفارتی بصیرت کے ساتھ کرنے کی کوشش کی جا رہی تھی کہ جنہوں نے”یروشلم“ کے تحفظ کے لئے اپنا سب کچھ قربان کر دیا تھا۔

(جاری ہے)

ترکی اور اسرائیل کے مابین استوار ہونے والے سفارتی تعلقات سے بہت سے خوش عقیدہ لوگوں کا یہ خواب بھی ضرور چکنا چور ہو گیا ہو گا۔دلچسپ بات یہ ہے کہ ترکی کی جانب سے ابھی تک یہ تاثر دینے کی بھرپور کوشش کی جا رہی ہے کہ اسرائیل کے ساتھ یک طرفہ طور پر اپنے سفارتی تعلقات استوار کرنے کی بنیادی وجہ امریکہ کو چیلنج کرنا ہے کیونکہ امریکہ نے روس سے دفاع سازو سامان خریدنے کی پاداش میں ترکی پر سخت ترین تجارتی پابندیاں عائد کرنے کا اعلان کیا ہے۔


ترکی کا یہ دعویٰ کتنا ہی حقیقی ہو مگر ایک عام آدمی کیلئے یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ آخر کس طرح امریکی پابندیوں کے جواب میں اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرکے امریکہ کو ”سفارتی زک“ پہنچائی جا سکتی ہے؟حالانکہ اگر ایسا ہی کوئی”سفارتی فیصلہ“سلطنت عثمانیہ کے آخری حکمران سلطان عبدالحمید بھی کر گزرتے تو بلاشبہ آج بھی سلطنت عثمانیہ پورے آب و تاب کے ساتھ قائم و دائم ہوتی کیونکہ تاریخ کی کتب میں صراحت کے ساتھ درج ہے کہ اس وقت کے معتبر ترین یہودی رہنماؤں نے سلطان عبدالحمید کو پیشکش کی تھی کہ”اگر خلیفہ یہودیوں کو ارض فلسطین میں آباد ہونے کی اجازت دے دے تو پھر وہ سلطنت عثمانیہ کے تحفظ کی ضمانت دیتے ہیں“لیکن سلطان عبدالحمید نے یہ کہہ کر یہودیوں کی ”سیاسی پیشکش“کو رد کر دیا تھا کہ ”ان کے نزدیک ارض فلسطین پر صرف مسلمانوں کا حق ہے اور یروشلم کی سر زمین پر کسی بھی صورت یہودیوں کو آباد نہیں کیا جا سکتا“دراصل دنیا بھر کے مسلمانوں کو امریکہ سے فقط ایک ہی تو دیرینہ شکایت رہی ہے کہ اس نے اسرائیل کو اپنا بغل بچہ بنایا ہوا ہے،اگر امریکہ آج یہودیوں کے بجائے مظلوم فلسطینیوں کی سیاسی حمایت کا اعلان کر دے تو یقین مانیے!کل سے مسلم دنیا امریکہ کے حق میں رطب اللسان نظر آئے گی اور امریکہ سے مسلمانوں کے سارے گلے شکوے ختم ہو جائیں گے کیونکہ ہم اچھی طرح سے جانتے ہیں شام سے لے کر عراق تک اور لیبیا سے لے کر افغانستان تک میں ہونے والی امریکہ کی ہر عسکری کارروائی کے اصل ماسٹر مائنڈ اسرائیلی ہی ہیں جبکہ اگر بہ نظر غائر جائزہ لیا جائے تو منکشف ہو گا کہ ان تمام مسلم ممالک میں ہونے والی عسکری کارروائیوں کے نتیجے میں ہونے والی تباہی و بربادی سے امریکی عوام کو تو ذرہ برابر بھی فائدہ نہیں ہوا،مگر بلاد عرب میں جنگ کی آڑ میں جس ایک ملک نے خوب سیاسی،سفارتی و معاشی استحکام اور فوائد حاصل کئے ہیں اس ملک کا نام اسرائیل ہے لہٰذا ان حقائق کے پیش نظر صاف معلوم ہوتا ہے کہ ترکی اور اسرائیل کے سفارتی تعلقات سے مظلوم فلسطینیوں کی پریشانی اور بے سرو سامانی میں مزید اضافہ ہی ہو گا جبکہ آزاد فلسطین ریاست کا قیام کا خواب بھی ناممکن الحصول ہو جائے گا دوسری جانب اسرائیل کو تسلیم کرنے کیلئے پاکستان پر دباؤ بھی بڑھے گا خاص طور پر ہمارے ملک کا وہ اقلیتی لبرل طبقہ جو ہمیشہ سے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے کا خواہشمند رہا ہے،اسے متحرک ہونے کا سنہری موقع میسر آگیا ہے پس! ان کی جانب سے سننے کو مل رہا ہے کہ ”دیکھو جی اب تو ترکی نے بھی اسرائیل کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات قائم کر لئے ہیں۔

پاکستان کس انتظار میں ہے؟“۔
مسلم ممالک میں ترکی ہی وہ پہلا ملک تھا ،جس نے 1949ء میں اسرائیل کو تسلیم کرکے اس کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات قائم کر لئے تھے اس لئے ترکی اور اسرائیل کا ایک دوسرے کے قریب آنا کوئی اچنبھے کی بات ہر گز نہیں ہے۔لیکن حیرت اس بات پر ضرور ہے کہ اس بار ترکی کے صدر طیب اردوان،اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے جا رہے ہیں حالانکہ طیب اردوان کی پہچان ہمیشہ ہی سے اسرائیل پر سخت کڑی تنقید کرنے والے مسلم حکمران کی رہی ہے ایسے میں ان کی جانب سے اسرائیل کی طرف”سفارتی دوستی“ کا ہاتھ بڑھانا ۔

بلاشبہ حالیہ وقتوں میں اسرائیل کی سب سے بڑی سفارتی و سیاسی کامیابی قرار دی جا سکتی ہے لیکن دوسری جانب کچھ تجزیہ کاروں کا یہ بھی خیال ہے کہ ترکی اسرائیل سے اپنے سفارتی تعلقات بحال کرکے نئی امریکی انتظامیہ کے سامنے اپنے آپ کو ”بہتر چوائس“ کے طور پر پیش کرنا چاہتا ہے تو ساتھ ہی ترکی اپنے اس اقدام سے ”اسرائیل“کو متحدہ عرب امارات اور یونان سے دور کرنا چاہتا ہے اگر تھوڑی دیر کے لئے مان لیا جائے کہ ترکی کی یہ ”سیاسی مجبوری“بالکل درست ہے اور طیب اردوان واقعی امریکہ میں جوبائیڈن کے اقتدار سنبھالنے کے بعد امریکہ سے اپنے تعلقات ٹھیک کرنا چاہتا ہے اور اسی لئے اسرائیل سے سفارتی تعلقات بحا ل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔


تاکہ مستقبل میں عالمی سیاسی منظرنامہ میں اپنے لئے”معاشی گنجائشیں“نکال سکے مگر اصل مصیبت تو یہ ہے کہ آپ کسی بھی سیاسی زاویے یا سفارتی پہلو سے تجزیہ کرکے دیکھ لیں بہرکیف عرب ممالک کے بعد ترکی اور اسرائیل کے مابین سفارتی تعلقات کے احیاء سے جیت اسرائیل کی ہی ہوئی ہے اور ہار ہمیشہ کی طرح اس بار بھی مظلوم فلسطینیوں کے ہی حصہ میں آئی ہے۔

بدقسمتی کی بات تو یہ ہے کہ ایک صدی سے دنیا بھر میں ظلم وستم کا شکار اور خجل خوار ہونے کے باوجود بھی آج تک مسلم حکمرانوں اور رہنماؤں کو سمجھ نہیں آئی کہ اُن کا اصل دشمن کون ہے؟۔ایک وقت تک مسلمان روس کو اپنا حریف خیال کرتے رہے اور آج امریکہ کو اپنا دشمن سمجھ رہے ہیں اور ہو سکتا ہے کہ آنے والے کل میں یہ اچانک سے چین کو اپنا مخالف سمجھنے لگ جائیں حالانکہ قرآن حکیم،فرقان حمید 14 سو سال پہلے پوری صراحت کے ساتھ فرما چکا ہے کہ”اے مسلمانو!یہودی کبھی بھی تمہارے دوست نہیں ہو سکتے“اس فرمان عالیشان کا مطلب تو یہ ہوا کہ ہم مسلمانوں کے اصل مخالف حریف اور دشمن صرف اور صرف یہودی ہی ہیں جبکہ امریکہ ہو یا برطانیہ ان تمام ممالک کی حیثیت یہودیوں کے آلہ کار اور سہولت کار سے زیادہ کچھ نہیں ہے ،واضح رہے کہ حقیقت احوال بھی یہ ہی ہے کہ امریکہ ہو یا برطانیہ حتیٰ کہ یورپ میں سے بھی کوئی ایک ملک ایسا نہیں ہے جسے ہمارے مقدس مقامات مکہ،مدینہ،ارض فلسطین یا حجاز مقدس کے کسی گوشہ پر ملکیت کا دعویٰ یا پھر ان علاقوں پر قبضہ کرنے کا شوق ہو اس کے برعکس اہل یہود ہمیشہ ہی سے مسلمانوں کی سر زمین،حجاز مقدس پر ناصرف دعویٰ ملکیت کرتے رہے ہیں بلکہ وہ تو ان مقامات پر قابض ہونے کا مذموم ارادہ اور نیت بھی پر رکھتے ہیں۔


اسرائیلی ریاست کا قیام بھی یہودی فقط اس لئے ہی چاہتے ہیں کہ بعد ازاں وہ اس کے ذریعے تمام سر زمین حجاز پر قابض ہو سکیں اور غالب امکان یہ ہی ہے کہ اپنے اس دیرینہ مذہبی فریضہ کو پورا کرنے کے بعد وہ خطہ عرب میں کسی ایک مسلم ریاست کا وجود بھی برداشت نہیں کریں گے لہٰذا اسرائیل کا قیام دراصل خطہ عرب و عجم سے مسلم ممالک کے مکمل خاتمے پر جاکر ہی منتج ہو گا لیکن المیہ ملاحظہ ہو کہ مسلمان حکمران اپنے ازلی دشمن اسرائیل کے ساتھ تو دوستی کیلئے تو مچل رہے ہیں مگر اسرائیلیوں کے جو مہرے ہیں انہیں اپنا دشمن جان و ایمان سمجھے بیٹھے ہیں شاید ایسے موقع پر ہی کہتے ہیں کہ”کہیں پر تیر اور کہیں پر نشانہ“اچھی طرح سے ذہن نشین رہے کہ اہل مسلم کی جان و ایمان کو فقط اسرائیلی ریاست کے قیام سے ہی خطرہ ہے یعنی اسرائیل کے نرغے میں فقط فلسطینی ہی نہیں بلکہ پوری مسلم امہ آنے کو ہے لیکن اس خطرے کا ادراک ریاست پاکستان کے علاوہ دنیا کی کسی دوسری مسلم ریاست کو سرے سے ہے ہی نہیں۔

بقول شاعر
”وہی ظالم ہیں شعلہ بار،انسانوں کی بستی پر،
وہ اسرائیل جن پر بارش اکرام ہے ساقی“

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Yahood o Hanood Ki Sarzameen Hajaz par Qabze K Mazmoom Hathkandey is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 06 January 2021 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.