”جہاں بھی گئے داستاں چھوڑ آئے“

پیر 26 اکتوبر 2020

Ahmad Khan Leghari

احمد خان لغاری

ملازمت کے شعبہ میں عموما دو ہی رویے نظر آتے ہیں چند ملازمین انتہائی شفاف اور ایمانداری سے ملازمت کرتے ہیں اور اپنے شاندار ماضی کے ساتھ ریٹائر ہوجاتے ہیں دوسری طرف ایسے ملازمین بھی نظر آتے ہیں جو انتہائی برے،کھانے اور کھلانے کے ماہر اور معاشرے میں ان کے بارے میں ایک کرپٹ ملازم کی شناخت رکھتے ہیں اور وہ خود میں کامیاب انسان سمجھتے ہوئے اسی شناخت کے ساتھ ریٹائر ہوجاتا ہے۔

ایسے لوگ ہی کامیاب سمجھے جاتے ہیں اور اسی زعم میں ہی اپنا زندگی کا سفر طے کرتے ہوئے شہر خموشاں میں جابستے ہیں۔ سرکاری ملازمین کی ایک قسم وہ ہے جو خوب محنت کرتے ہیں۔ اپنے کام کو جانتے ہیں عام طور پر وہ اپنی شہرت ایک نیک نام کے طورپر بناتے ہیں عام آدمی کے کام آتے ہیں مظلوم کا ساتھ دیتے ہیں اور اسی شہرت سے ملک بھر میں ملازمت کرتے ہیں اور ایماندار، نیک نام، غریب کا حامی تصور ہوتا ہے۔

(جاری ہے)

دراصل ایسے لوگ اندر اور باہر سے مختلف ہوتے ہیں۔ عام طور پر کرپشن کا کوئی الزام نہیں ہوتا لیکن وہ اعلیٰ درجے کے کاریگر ہوتے ہیں اور جب ان کے بارے میں پتہ چلتا ہے تو انسان کی حیران و پریشان ہوجاتا ہے کہ آنکھیں تو کچھ اور دیکھ رہی ہوتی ہیں لیکن حقیقت کچھ اور ہوتی ہے ایسے افسران کا ایک منفرد اور دلچسپ رویہ یہ بھی ہوتا ہے کہ جس شہر میں بھی نئی تقرری ہوتی ہے تو اسکی کوشش ہوتی ہے کہ اوپر سے نیچے تک تھر تھلی مچا دی جائے تاکہ پتہ چلے نیا صاحب آگیا ہے اور پھر وہی شہرت آگے سفر کرتی رہتی ہے۔

افغان دور میں کشمیر میں جب گورنر چراغ بیگ آیا تو شہر میں داخل ہوتے وقت اسکے سامنے سے ایک عورت کا جنازہ گزرا۔ اس بدبخت نے عورت کی نعش کی بے حرمتی کی اور اعلان کیا کہ اب لے جاکر اسے دفنا دو کہ زمین کے نیچے بھی سب کو پتہ چلے کہ کشمیر میں چراغ بیگ گورنر بنا ہے۔اس بد بخت کا نام آج بھی کشمیر میں ظالم کے طور پر مشہور ہے CCPOلاہور نے اپنی اس نئی پوسٹنگ پر انہوں نے اپنے کسی سب انسپکٹر کو گدھے کا بچہ کہہ دیا جو اس دفتر کا سوشل میڈیا کا انچارج تھا جس کی وجہ سے انہوں نے استعفیٰ دیکر ثابت کر دیا کہ وہ واقعی انسان کا بچہ ہے کسی انسا کو گدھے کا بچہ کہنا واقعی نہایت بری بات ہے۔

نئے سی سی پی او بھی حسب سابق اپنے ماتحتوں کی کایا کلپ کرکے ان کو اپنی طاقت اور اختیار دکھانا چاہتے ہیں ہمارے ہاں ملازمت میں یس سر کہنے کی بیماری عام ہے تلوے چاٹنے کی بات اسی تناظر میں کی جاتی ہے یہ ہماری افسران اور ماتحت افسران میں سرایت کر چکی ہے اسی واقعہ کے تناظر میں تبصرہ کرتے ہوئے لکھا گیا ہے کہ بے شک سی سی پی او بڑی پوسٹ ہے مگر ماتحتوں کو ایسے الفاظ میں پکارنا کہاں کی دانشمندی ہے کیا وہ بھول رہے ہیں کہ چند روز قبل ایسے ہی جملوں کی وجہ سے انہیں ٹوکریاں بھر بھر کر معافیاں مانگنی پڑیں۔

اب وہ لاکھ کہیں کہ یہ جملہ ان کی زبان سے پھسل گیا مگر کیا یہ قابل قبول ہوگا۔ ابھی گذشتہ ہفتے سٹینڈنگ کمیٹی کے اجلاس میں موصوف کو بلایا گیا تو اپوزیشن کے رکن اسمبلی نے پھر ایسی کلاس لی کہ وہ معافیاں ہی مانگتے رہے اور یہ شرمندگی تمام چینل پر دیکھی گئی کہ وہ کیسے اس اجلاس میں بھیگی بلی بنے بیٹھے رہے۔ ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدن۔ موصوف کو پروموشن کے لئے نظر انداز کر دیا گیا۔

جس پر وہ دلبرداشتہ ہیں اور شاید بار بار زبان پھسل جاتی ہو۔ پروموشن اور وہ بھی اعلیٰ ترقی کے لئے تمام خفیہ اداروں سے کسی بھی افسر کی ہر قسمی شہرت کی رپورت منگوائی جاتی ہیں اور مبینہ طور پر موصوف کے خلاف ایسے الزامات عائد کئے گئے ہیں کہ اسے دبنگ اور دلیرافسر کے طور پر سمجھنے والوں کو نہ صرف مایوسی ہوئی بلکہ حیرت ہوئی کہ قدرت کے کارخانے میں ایسے لوگ بھی ہیں جو اندر اور باہر سے بالکل مختلف ہیں۔

اپنے الزامات اور اعلیٰ ترقی کیخلاف وہ اب سپریم کورٹ جا رہے ہیں تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے۔ ویسے خبر یہ بھی ہے کہ انہوں نے ن لیگ کے لوگوں سے بھی رابطے استوار کر لیے ہیں اور قبضہ مافیا کے نام غریب بے سہارا لوگوں سے زمینیں واگزار کرائیں گے اور ایسے لوگ ہی جیلوں میں جاتے نظر آئیں گے۔
اس ملک کا المیہ یہ ہے کہ سیاستدان اور آفیسر ملکر اپنے مفادات کا تحفظ کرتے ہیں سیاستدان پولیس کے بغیر اپنے آپ کو ادھورا سمجھتا ہے پولیس کے ذریعے ہی سیاستدان ووٹ پکے کرتا ہے اور مخالفین کو راہ راست پر لانے کی تگ و دو کرتا ہے اس طرح دونوں کا میاب رہتے ہیں کیونکہ انہوں نے پھر بھی ایک دوسرے کے منہ متھے لگنا ہوتا ہے۔

سیاستدانوں سے یاد آیا خبر ہے کہ ضلع مظفر گڑھ کی تحصیل علی پور میں دریائے سندھ سے ایک غیر قانونی نہر کھدوائی گئی ہے جو وہاں کے بااثر زمینداروں کے رقبوں کو آباد کرنے کے لئے تھی۔ اس نہر کے لئے مقامی انتظامہ محکمہ مال اور محکمہ انہار کے علم کے بغیر اتنا بڑا معرکہ سر کرنا محض وہاں کے عوامی نمائندوں کا کام نہیں ہوسکتا۔ قادرا کریک کے نام سے ضلع مظفر گڑھ کی تحصیل علی پور کے نقشہ میں ابھرنے والی اس نہر کا ذمہ دار مقامی ایم این اے جسکا تعلق تحریک انصاف سے بتایا گیا ہے۔

انہوں نے اس غیر قانونی نہر سے مقامی زمینداروں کو نوازنے کا الزام عائد کر دیا ہے۔ اور وہ خود بھی اس احتجاج میں شامل ہوگئے ہیں اور ملکر اصل مجرمان کی تلاش شروع کر دی ہے۔ متعلقہ محکمہ جات خاموش ہیں۔ انتظامیہ، مھکمہ مال اور انہار جو ذمہ دار ہیں وہ تاحال اپنا موقف نہیں دے سکے۔ عوامی نمائندے انتظامیہ، پولیس سب کے راستے اور راہیں جدا ہیں۔

دفاتر بے لگام ہیں، محکمہ مال کے اہلکاران سے شکایت کریں تو وہ واپس جانے کا راستہ دکھاتے ہیں اور کہتے ہیں جو کرنا ہے کرلیں۔ یہی حالت ڈی سی کے دفتر میں موجود قومی تعمیرات کے محکموں سے باہمی تعلق کی بنیاد پر اور اوپر سے آنے والے احکامات کی روشنی میں دونوں ہاتھوں سے لوٹ مار کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ ہر جگہ پر بدنامی تونسہ اور بارتھی کے حصہ میں آتی ہے اور وہ ڈھٹائی سے ان کا نام لیتے ہیں غلط اور درست میں تفریق کرنا مشکل ہورہا ہے۔ افسران پھر نئی جگہ ملازمت اور نیا مقام۔
یہ اعجاز ہے حسن آوارگی کا
جہاں بھی گئے داستاں چھوڑ آئے

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :