ریاست مدینہ کا خواب

منگل 24 نومبر 2020

Ahmad Khan Leghari

احمد خان لغاری

گلگت بلتستان کے انتخابات دھاندلی اور غیر منصفانہ ہونے کے الزام کے ساتھ اپوزیشن کی طرف سے انہی یکسر مسترد بھی کر دیا ہے۔ انتخابات کو مسترد کرنے کا اعلان صدر پی ڈی ایم مولانا فضل الرحمن سے کرایا گیا جبکہ حصہ لینے والی دو اہم جماعتیں اپنا الگ الگ الاپ رہی ہیں۔ مسلم لیگ ن سے بھاری رقوم جی بی میں استعمال کی ہیں جبکہ سندھ میں غربت ختم نہیں کی جاسکی، صحت اور روزگار کے حالات مخدوش ہیں۔

بات یہی نہیں بلکہ اس سے بھی آگے نکل گئی جب انہوں نے سر عام کہا کہ پی پی پی وعدہ معاف گواہ بننے کی لالچ میں دھوکہ کھا گئی۔ دوسری طرف پی پی پی یہ کہہ رہی ہے کہ ان کی سیٹیں واپس کی جائیں جو رات کے اندھیرے میں دوران گنتی ان سے چھینی گئی ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر ان کو دو سیٹیں دے دی جائیں تو انتخابات کی شفافیت کو تسلیم کیا جاسکتا ہے۔

(جاری ہے)

خبر تو یہ بھی ہے کہ مخلوظ حکومت کے لئے بات آگے بڑھائی جا رہی ہے تاکہ تحریک انصاف اور پی پی پی باہم حکومتی حصہ دار بن جائیں۔

پی پی پی ان تمام خطرات سے بخوبی آگاہ ہے کہ جلد آزاد کشمیر کے انتخابات ہونے والے ہیں اور سندھ حکومت بھی برابر خطرے میں ہے۔ اس طرح مسلم لیگ ن سے مختلف سوچ اپنانے پر مجبور ہیں اور ن لیگ سے پرانے حساب بھی چکانے ہیں انہیں وہ وقت یاد ہونگے جب مسلم لیگ اپنی اس اتحادی جماعت سے کیا سلوک کرتی رہی ہے۔ ان عام انتخابات پر مسلم لیگ ن اور پی پی پی کا ایک دلچسپ تبصرہ بھی قارئین نے پڑھا اور سنا ہوگا کہ جی بی کے انتخابات میں تحریک انصاف کو زیادہ ووٹ نہیں پڑے اور سادہ اکثریت سے بھی محروم رہی۔

مطلب یہ ہوا کہ انتخابات میں ووٹر کے فیصلے درست رہے ہیں۔ حتمی بات یہ نظر آتی ہے کہ پی پی پی اور مسلم لیگ ن کے ادوار میں متذکرہ انتخابات اتنے شفاف نہیں تھے جیسے حالیہ انتخابات ہیں۔
پاکستان تحریک انصاف کا المیہ یہ ہے کہ وہ اپنی ہر ناکامی کا ملبہ گزشتہ حکومتوں پر ڈالنے میں ذرا تاخیر نہیں کرتی۔ گندم یا چینی کا بحران ہو، مہنگائی بے روزگاری کا طوفان ہو یا پھر دوائیوں کے ریٹس میں بے ضابطگیاں ہوں۔

غرضیکہ اپوزیشن پر بدعنوانیوں کے مقدمات ہوں وہ بھی سابق حکمرانوں پر ہی ذمہ داری ڈل دی جاتی ہے۔ مناسب تو یہ ہوتا کہ وہ آگے بڑھ کر ذمہ داریوں کو قبول کرتے۔ حکمران برملا کہتے کہ اپوزیشن پر مقدمات انہوں نے بنائے ہیں۔ اگر آپ نے مقدمات نہیں بنائے تو پھر یہ کہنا کہ این آر او نہیں دوں گا انہیں نہیں چھوڑنے لگا یہ سب ڈرامہ ہے ملی بھگت لگتی ہے۔

حکمرانوں کی حکمت عملی سے یہ بھی لگتا ہے کہ وہ سب سے مایوس ہوکر ایف آئی اے اور انٹی کرپشن کے محکموں تک محدود ہوگئی ہے طرفہ تماشا یہ ہوا کہ مضبوط مقدمات نہ ہونے کی وجہ سے نہ صرف ملزمان عدالتوں سے بری ہوگئے بلکہ مقدمات نالائقی اور نااہلی کے شاہکار ہونے کی وجہ سے خارج ہوگئے۔ افسر شاہی یا نوکر شاہی حکومت سے تعاون کرنے میں خوف زدہ ہے کیونکہ انہیں خدشہ لاحق رہا ہے کہ میاں برادران جدہ گئے تو واپس آئے اور اب خاموش لندن روانگی سے ثابت ہو رہا ہے کہ وہ واپس آئیں گے اور حاکم بد ہن چوتھی بار وزیراعظم بھی بن سکتے ہیں۔

افسر شاہی اور کاروباری طبقے کو اعتماد دینا ہوگا کہ وہ ماضی کو بھول جائیں کہ اب باریوں اور خاندانوں کا کھیل ختم ہوچکا ہے۔
پنجاب کا وزیر اعلیٰ عثمان بزدار اڑھائی سال سے برسر اقتدار ہے اور ایسے شخص جس کا نہ کوئی سیاسی گروپ اور نہ ہی سیاسی قد کاٹھ ہے وہ سب کی پیشاں بھگت کر بھی مطمئن ہے حالانکہ سب کے کاغذات اور افسران کے بیانات سے کہانی بہت واجع ہے دوسری طرف ایسے وزیر اعلیٰ کی وجہ سے بھی افسر شاہی اور کاروباری طبقہ جو مسلم لیگ ن کے اشاروں پر ناچتا ہے اور عوام کے لئے نت نئے بحران جنم لے رہے ہیں لیکن وزیر اعظم بضد ہے کہ رہے گا تو پنجاب میں عثمان بزدار اور کے پی میں محمود خان !وزراعلیٰ کے اپنے ضلع کی بات کریں تو خبر ہے کہ عنقریب صوبائی کابینہ کا اجلاس ڈیرہ غازیخان میں بلایا جائے گا۔

وزراء اور سیکریٹری صاحبان ہوں گے تو ڈیرہ غازیخان میں کارکردگی کا جائزہ لے کر مزید بہتری لانے کی کوشش کی جائے گی۔ گزشتہ اڑھائی سال سے پورا شہر دلدل پر قائم ہے۔ کارپوریشن ،ویسٹ منیجمنٹ کمیٹ، پارکس اینڈ ہارٹیکلچر جیسے اداروں کے باوجود ڈرینج سسٹم ناکارہ ہوچکا ہے، سیوریج بند اور لوگوں کے لئے آمدو رفت مشکل ہے۔ گندگی اور کوڑے کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں۔

شہر کے وسط میں گندے پانی سے چلنے والی مانکہ کینال مچھروں کی افزائش کی محفوظ پناہ گاہ ہے اور شہر میں داخل ہونے والے ہر فرد کا بدبو سے استقبال کرتی ہے۔
رشوت کے بازار گرم ہیں۔ ترقیاتی محکموں کے انجینئرز نے اپنے ریٹس بڑھا دیے ہیں پٹوار خانے کھلے عام اپنا کمیشن وصول کرتے ہیں ترقیاتی کاموں پر ایم این اے اور ایم پی اے صاحبات بھی مبینہ طور پر اپنا حصہ ایکسئین سے بھی زیادہ وصول کرتے ہیں۔

اسی لیے محکمہ بلڈنگ کے ایکسئین ہمایوں مسرور اپنی بیماری کے دنوں میں دو سے تین فیصد حصہ مانگتے رہے۔ ایسے محکمہ جات میں طور خان بزدار کی کمپنی ہی ٹھیکوں میں حصہ لینے کی اہل ہوتی ہے۔ صوبائی دفاتر سے ان کی کمپنی کی سالانہ تجدید ہوتی ہے تاکہ ”گلیاں ہو جان سنجیاں وچ مرزا یار پھرے“۔ کسی دوسری کمپنی کی تجدید نہیں ہوسکتی۔ اس پر سب نے لکھا ٹی وی پروگرام ہوئے لیکن ڈیرہ غازیخان کی عوام مہنگائی بے روزگاری سے پہلے پسی ہوئی ہے اب طور خان بزدار اور ہمایوں مسرور کا کا بوجھ اٹھانے کے قابل نہیں رہی ایسے لوگوں کی موجودگی میں ریاست مدینہ کا خواب ہی دیکھا جاسکتا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :