سوشل میڈیا کے دانشور

بدھ 9 دسمبر 2020

Ahmad Khan Leghari

احمد خان لغاری

ہمارے معاشرے میں وہی دانشور کہلاتا ہے جو ملکی سیاست پر بحث و مبا حثہ کرتے ہوئے پاک فوج پر تنقید کرے اور وہی لبرل کہلاتا ہے ۔ جو دین و مذہب میں کیڑے نکالے ۔ لیکن آج اول الذکر دانشوروں پر ہی بات کرتے ہیں جو پاک فوج پر طعن و تشنیع کرکے اور اپنے سیاستدا نوں کو معصوم قراردیتے ہیں اور اب تک کے حالات کا ذمہ دار پاک فوج کو ٹھہراتے ہیں ایسے سیاست اور عقلمند زیادہ تر نجی محفلوں میں ہی اپنا شوق پورا کرلیتے ہیں لیکن چند لوگ ایسے بھی ہیں جو سوشل میڈیا پر بے لگام نظرآتے ہیں ۔

ایسے دانشور تمام مسائل کا حل ووٹ کو عزت دو کے بیانیے سے اتفاق کرتے ہوئے حکمرانوں سے ہر گز مذاکرات نہیں ہونگے سے لے کر اب مذاکرات رات کے اندھیرے میں نہیں بلکہ سب ے سامنے ہونگے بلکہ عمران حکومت کو گھر بھیج دیں تو مذاکرات ہوسکتے ہیں جسے کئی بیانیوں میں بٹے ہوئے ہیں۔

(جاری ہے)

ایسے لوگوں کو باخبر رہنا چاہیے کہ ہمارے سیاستدانوں نے بقول وفاقی وزیر ریلوے شیخ محمدرشید گیٹ نمبر 4سے ہی دراصل اپنے تعلقات استوار کرکے سیاست میں قدم رکھا اور سیاسی حکومتوں کے گرانے کے لئے بھی راتوں کو انھیں دروازوں پر حاضریاں دیں اورسیاست میں کامیاب و کامران ٹھہرے ۔

جب اقتدار سے باہر ہوں تو انھیں سلیکٹر بھی کہا جاتا ہے اور سیاست سے باہر رکھنے کے ذمہ دار بھی سوشل میڈیا پر پاک فوج کو بُرا بھلا کہنے والے کیا ان سیاستدانوں کے ماضی پر نظر نہیں دوڑاتے جو کبھی NROلے کر باہر چلے جاتے ہیں اور پھر دوست ممالک کے ذریعے برسر اقتدار آجاتے ہیں ۔ ہمارے اَن پڑھ دانشوروں نے مسلح افواج سے ہٹ کر اب دو شخصیات کو نشانہ بنانا شروع کردیا ہے ۔

مسلم لیگ ن کے سوشل میڈیا سے جو نفرت پھیلائی جارہی ہے وہی ایسے دانشوروں کے آگے ڈال دی جاتی ہے جس کا راگ دن رات الا پتے رہتے ہیں۔
تین دفعہ کے وزیر اعظم نواز شریف نے مقتدرد اداروں کی اعلیٰ شخصیات کے خلاف نفرت انگیز مہم شروع کی ۔ مذاکرات بھی جاری رکھے۔ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کیلئے پوری دلجمعی کے ساتھ ووٹنگ میں حصہ لیا اور انہیں کامیاب کیا۔

جب ووٹ دینے کی قیمت مانگی تو اداروں کی جانب سے سپریم کورٹ اور قومی اسمبلی کا راستہ دکھایا تو پھر چین بچیں ہونے لگے۔بی بی سی کو انٹر ویو دیتے ہوئے سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے مقتد راداروں کو نشانہ بنایا۔ انیکر سٹیفن سکر نے جب سوالات کیے تو جوابات دینے کی بجائے آئیں بائیں شائیں کرتے نظر آئے ۔ انہوں نے کسی تیسری دنیا کے لفافہ صحافی اور ٹی وی چینل سمجھا لیکن جب سادہ سوالوں کے جواب بھی نہ دے سکے تو ہمارے مقتدر اداروں کی وہ شخصیات کے خلاف زہر اگلنا شروع کریدا اور پاکستان کے انتخابات کو بوگس قراردیا۔

جوٹ پر جھوٹ بولتے رہے۔ بی بی سی کے صحافی نے اسحاق ڈار سے سوال نہیں بلکہ خبردار کیا کہ ” اگر آپ کی پاکستان میں یا پاکستان سے باہر جائیددا ہے اور آپ نے ٹیکس بھی ادار کر رکھا ہے تو آپ پاکستان واپس جاکر مقدمہ درج کیوں نہیں کراتے؟ صحت بھی خیر سے ٹھیک ہے یعنی دیکھنے میں بھی ہٹے کٹے نظرآتے ہیں تو واپس اپنے ملک کیوں نہیں جاتے؟“ اسحاق ڈار نے فرنگی کے سامنے بڑھ کر پاکستان اور اس کے اداروں کو رسوا کیا۔

خود کو مظلوم ثابت کرنے کی کوشش کی مگر بڑے بے آبرو ہو کر تیرے سٹوڈیو سے ہم نکلے۔ اوراسحاق ڈار زندگی بھر اس انٹر ویو کو یاد رکھے گا۔
اب سوشل میڈیا کے دانشوروں کی بے باکی اس قدر بڑھ چکی ہے کہ سپریم کے جج سیٹھ وقار سے جج ارشد ملک کی کرونا جیسی بیماری سے موت کو بھی مشکوک و شبہات کی نذر کر رہے ہیں۔ اس سے پہلے معروف عالم دین مولانا خادم رضوی کو بھی کسی سازش کا حصہ قرار دے کر مہم کا حصہ بنایاگیا۔

بات یہیں پر رکی نہی ں بلکہ سپریم کورٹ کے جج فائز عیسیٰ کو بھی کرونا اٹھارہ سے بچنے کا مشورہ دے رہے ہیں۔ یہ بڑی خوفناک مہم ہے جو بہت تیزی سے جاری ہے ۔ پاک فوج کے خلاف یہ ھائبرؤ وار جاری ہے جس کی قیادت ہندوستان اور دیگر دشمن ممالک کررہے ہیں۔ اور پاکستان میں اس جنگ کے سپاہی دن بدن بڑھتے جارہے ہیں ۔ اگر سوشل میڈیا پر نظر ڈالی جائے تو آسانی سے سمجھ آسکتی ہے کہ اپنے ملک کے گلی محلے میں جو لوگ اس کا حصہ بنے ہوئے ہیں۔

مقتدرادارے بیرون ملک اگران طاقتوں پر نظر رکھے ہوئے ہے تو اندرون ملک ایسے سیاسی ورکروں جو بظاہر دانشوروں کے روپ میں نظر آتے ہیں انہیں دیکھنے سے کیوں قاصر ہے ۔ حکومت اور ہمارے مقتدر ادارے ایک پیچ پر ہیں تو ملک کے اندر نفرت پھیلانے والے غیر ملکی ایجنڈے پر کام کرنے والے ان سپا ئیوں کو ایسی جرات نہیں ہوئی چاہیے ۔ پاک فوج کا چند دانشور کچھ نہیں بگاڑ سکتے کیونکہ پوری قوم اپنی مسلح فوج کے ساتھ ہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :