پولیس ملازم کا کھلا خط

منگل 22 دسمبر 2020

Ahmad Khan Leghari

احمد خان لغاری

ہمیشہ سے سنتے آرہے ہیں کہ پولیس کے محکمہ میں ریفارمز کی جائینگی جس سے ایک مثبت تبدیلی سامنے آ سکتی ہے ۔ لیکن بد قسمتی سے ایسا نہیں ہوا ۔ وزیر اعظم پاکستان جو ملک کو ایک فلاحی ریاست بنانے کے عزم رکھتے ہیں اور گذشتہ تین دھائیوں سے مظلوم عوام کو ریاست مدینہ کا خواب دکھا رہے تھے انہوں نے بھی تسلیم کیا کہ وہ مختلف محکمہ جات میں جلد ریفارمز نہیں لا سکتے ۔

اِس کی وجہ اپوزیشن کا رویہ ہو یا اُن کے پاس ایسی ٹیم کا نہ ہونا ہے بحرحال بہت دیر وہ چکی ہے میں اصل مضمون کی طرف آنے سے پہلے ایک واقعہ بیان کرنا چاہتا ہوں آج سے 35 سال پہلے رحیم یار خان سے براستہ کوٹ مٹھن ڈیرہ غازی خان آنا تھا ۔ شا م کو وہاں سے روانہ ہوا ۔ٹرانسپورٹ کی صورتحال بھی اتنی مناسب نہیں تھی ۔

(جاری ہے)

بحر کیف رات کو بارہ بجے کے بعد ڈیرہ غازی خان کے پل ڈاٹ پر اُترا تو آگے پولیس سے ٹاکرا ہو گیا ۔

مجھ سے تفتیش ہوئی ۔ میں اپنے ٹکٹ پیش کیے اور جہاں جانا تھا وہاں کا محل وقوع اور اپنا تعارف معہ ولدیت اور قومیت بتانا تھا پنجاب کا ایک پولیس کانسٹیبل یہ پوچھ گچھ کر رہا تھا ۔ میں نے بتایا کہ میں ایک سرکاری محکمہ کا آفیسر ہوں اپنا کارڈ پیش کیا ۔ لیکن شاید اُس کی تسفی نہیں ہو سکی تو اُس نے دور کھڑے ایک اور شخص کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے آفیسر سے بات کریں جب وہاں پہنچے تو میں نے دریافت کیا کہ آپ کے آفیسر کہاں ہیں اُس شخص نے جو سپاہی تھا کہا میں آفیسر ہوں ۔

میں نے عرض کیا کہ آپ آفیسر تو نہیں ہیں آپ بھی تو سپاہی ہیں ۔ پھر اُس نے مجھے سمجھایا کہ پولیس کا اہلکار افسر ہی کہلاتا ہے ۔ ہم بھی نئے نئے آفیسر بھرتی ہوئے تھے اُسے سمجھانے کی کوشش کی کہ یہ کتابی باتیں ہو نگی آپ ہیں تو سپاہی ! اِسی دوران اُس نے مجھے ڈراتے ہوئے کہا کہ میں نے جو وردی پہن رکھی ہے وہ شیر کی کھال ہے ۔ میں بھی گھبرایا لیکن رکشے میں بٹھا اور یہ جا وہ جا ! اِسی تناظر میں آپ کی خدمت میں پولیس کانسٹیبل کا ایک کھلا خط آپ کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں ۔

شاید اِس سے پولیس میں بہتری کے لیے کوئی راہ کھل جائے ۔ اعلیٰ حکام کے نام خط ۔
” میں ایک پولیس آفیسر ہوں 32 سال آپ کی خدمت کرتے ہوگئے ہیں ۔ 54 سال میری عمر ہو چکی ہے ۔ اِس عرصہ میں بہت سی بہاریں اور خزائیں دیکھیں ، اپنے ساتھی شہید ہوتے فوت ہوتے دیکھے ہیں ۔ تبادلے ، تنزلیاں ، ترقیاں ، معطلی ، بر خاستگی ، جیلیں اور انکوائریاں دیکھی ہیں ۔

بہت کچھ دیکھا تانگوں گھوڑوں پر ریڈ کیا کرتے تھے ۔ 625 روپے تنخواہ پر بھرتی ہوئے آج الحمد اللہ پچاس ہزار سے اوپر لے رہا ہوں ۔ اصل مقصد بات کرنے کا یہ ہے کہ ہم جب بھرتی ہوئے تب سے پولیس ریفارمز کی باتیں ہو رہی ہیں ۔ آج ہم زندگی اور ملازمت کی شام میں ہیں ۔ آج تک ہم نے محکمہ پولیس تبدیل ہوتے نہیں دیکھا ۔ وہی نفری کی کمی ، اسلحہ خرا ب ، گاڑیاں ٹوٹی ، رہائش گندی اور گھر سے 35/35 کلومیٹر دور تبادلے ۔

اپنی جیب سے پٹرول ڈال کر گشت کرو ۔ ریڈ کے لیے مدعی سے گاڑی لو ، افسران کی جھڑکیں ، کام کرو تب زیادہ ذلیل جب نہ کرو تب تو ہونا ہی ہے ۔ ہر ماہ کارکردگی کا سیاپا ۔ اشتہاری ، عدالتی مفرور پکڑنے کی جعلی رپٹ لکھو صرف جھوٹ اور جھوٹ ، پی او کلرک سے مل کر جعلی اشتہاری کاونٹ کراوٴ ۔ ایک سگریٹ چرس جس سے پکڑی گئی ہے اُس پر تو 9-C کا مقدمہ درج کروا دو ۔

موٹر سوار روزانہ 25/25 بند کرواوٴ ۔ ریکارڈ یافتہ ڈاکو پکڑ کر حوالات میں بند کر دو ۔ جہاں ڈکیتی ہو اُ ن کو نامزد FIRکر دو ، ویلیفئر کا نام کبھی ماتحت نے نہیں سُنا ۔ قرضہ کی درخواست دیں جو خارج ہو جاتی ہے ۔ کبھی میڈیکل بل پاس نہیں ہوا ۔ شہید کی بیوہ دفاتر کے چکر کاٹ کاٹ کر ذلیل ہو تی ہیں ۔ کلرک کتے بھیڑئیے کی طرح اُنہیں دیکھتے ہیں ۔ جو افسر رشوت ٹگا کر لیتا ہے ، جعلی کار کردگی بتاتا ہے افسران کی TC کرتا ہے وہ افسران کا ہر دل عزیز ہوتا ہے ۔

افسران بالا ما تحت افسران کو ماں بہن کی گالیاں دیتے ہیں ۔ ہم بے غیرت ضمیر بن کر سنتے ہیں کر بھی کیا سکتے ہیں ۔ میں نے عمرہ کی چھٹی مانگی نہیں ملی واپس آیا تو بر خواست کر دیا گیا ۔ سات دن کا میڈیکل بھجوایا نا منظور ! سات سال سروس کاٹ لی گئی۔ آخر کب تک یہ سسٹم چلے گا ؟ کون آئے گا ؟ کب آئے گا خمینی جو انقلاب لائے گا ۔ ایک پولیس کینسر سے مر گیا ، غیر حاضری پر ڈسمس کر دیا گیا ۔

سپاہی کی فیس سو روپے ہوتی تھی ۔ جو اب پانچ سو ہو گئی ، تھانہ محرر اور ہیڈ منشی سب کچھ ہوتا ہے ۔ کسی کی عمر کا لحاظ نہیں 16/16 گھنٹے ڈیوٹی لیتے ہیں بات کریں تو جواب ملتا ہے نہیں کرنی تو بابا جی چھوڑ دو ۔ کیا پتہ کہ یہ بابا دس بندوں کا کفیل ہے ۔ ذرا اختیار ملے تو سائلین سے گولڈ لیف کی ڈبی لے کر کنٹین پر بیچ دیتے ہیں ۔ ایک ماہ سے کرونا میں مبتلا ہوں کسی نے تیمارداری نہیں کی ۔ کوئی پینا ڈول کی گولی نصیب نہیں ہوئی مر جائیں تو جھنڈے میں لپیٹ کر گھر بھیج دیا جاتا ہے ۔
والسلام پنجاب پولیس کا بیمار ملازم ”ذوالقرنین درانی ہیڈ کانسٹیبل پولیس گوجرانوالہ ۔ “

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :