تقریر کی لذت!

پیر 30 ستمبر 2019

Ahmad Khan Lound

احمد خان لنڈ

چند روز قبل ہمارے وزیر اعظم صاحب نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں بھر پور تقریر کی جویقیناَ اس لحاظ سے قابل تعریف ہے کہ اور کچھ نہیں توکم از کم بہت سی چیزیں ہمارے وزیر اعظم صاحب کے علم میں تو ہیں۔وزیر اعظم صاحب کی تقریر پر جہاں ایک طبقہ خوب بغلیں بجا رہا ہے تووہاں ایک دوسرا طبقہ وزیر اعظم صاحب کو امت مسلمہ کا لیڈر قرار دے رہا ہے اور کوئی ورلڈکپ جیتنے پر بھرپور مبارکباد یں پیش کررہا ہے، حالانکہ اس سے قبل بھی ہمارے وزیر اعظم صاحب دورہ امریکہ کے دوران ایک ورلڈ کپ جیت کر آئے تھے اور دورہ امریکہ میں جیتنے والے ورلڈ کپ کی خوشی کا ابھی چالیسواں بھی نہ ہوا تھا کہ نریندر مودی نے اپنا انتخابی وعدہ پورا کرتے ہوئے کشمیر میں آرٹیکل 370کا خاتمہ کردیا۔


ویسے یہ اعزاز بھی ہمارے عظیم وزیر اعظم صاحب کو ہی حاصل ہے کہ انھو ں نے اپنے پورے سیاسی کئیریر میں فقظ تقریریں ہی کی ہیں اور آج بھی 300ڈیم ،ایک ارب درخت،100یونیورسٹیاں ،50لاکھ گھر ،ایک کروڑ نوکریاں،میرٹ کی بحالی ،معاشی اصلاحات جناب وزیر اعظم صاحب کی منتظر ہیں۔

(جاری ہے)

جہاں وزیر اعظم صاحب نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ایک دھواں دار لاحاصل تقریر کی وہاں عملی طور پر کشمیر کے لیے کچھ بھی کرنے میں بری طرح ناکام ہوگئے۔

پاکستان کو اقوام متحدہ میں کشمیر پر قرارداد پیش کرنے کے لیے درکار 16ملکوں کی حمایت بھی حاصل نہ ہو سکی۔ وزیر اعظم صاحب کی طرح بہت سے خوش گماں حضرات اکثر یہ سوال کرتے ہیں کہ بتاؤ حکومت اور کیا کریں،کیا جنگ چھیڑ دیں۔نریندر مودی نے اپنی انتخابی مہم کے دوران ہی کشمیر سے آرٹیکل 370کے خاتمے کا وعدہ کیا تھا ،سوال اٹھتا ہے کہ حکومت اس وقت کہاں خوابِ خرگوش میں محو تھی ؟وزیر اعظم صاحب نے کیوں نریندر مودی کی جیت کے لیے بیان ارشاد فرمائے ؟ خطے کی سلامتی سے کھلواڑ کرنے والے بھارت کو کیوں سلامتی کونسل میں ووٹ دیا گیا؟۔

اگرتاریخ پر نظر ڈالی جائے تو تقریروں کے معاملے میں الحمداللہ پاکستان کبھی بھی پیچھے نہیں رہا۔ ذوالفقارعلی بھٹو نے بھی سلامتی کونسل میں فی البدیہ انگریزی میں بھر پور تقریر کی تھی اور اجلاس کے مندرجات تک چاک کرڈالے تھے،لیکن اس سے کیا حاصل ہوا ؟ جواب= کچھ بھی نہیں۔ اگر ماضی کے عمران خان صاحب کی تقریریں اور موجودہ وزیر اعظم عمران خان صاحب کی تقریروں کو باہم ملایا جائے تو دونوں کے درمیان آسمان اور زمین کا سا فرق موجود ہے۔

 
خان صاحب کی تقریرکی کامیابی و ناکامی سے قطع نظر جہاں ایک طبقہ خوشی کے شادیانے بجا رہا ہے اسے دیکھ کر تو لگتا ہے کہ خان صاحب کی تقریر کے نتیجے میں دنیا تہس نہس ہوکرگئی ہے،نریندر مودی نے کشمیر میں آرٹیکل 370ختم کرنے پر معافی مانگ لی ہے۔امریکن صدر ڈونلڈ ٹرپ بس کل ہی مسئلہ کشمیر حل کر وادیں گیں۔کشمیر سے کرفیوں ختم ہو گیا ہے۔پورے بھارت کی عوام کی پاکستانیوں کی محبت میں سرشار ہوکر پاکستانیوں سے ملنے اور بھائی چارے کا پیغام دینے کے لیے واہگہ بارڈر پہنچ چکی ہے۔

خان امت مسلمہ کا لیڈر بن گیا ہے اور مسئلہ فلسطین بھی بس دو دن کی مار رہ گیا ہے۔عمران خان اگلے ہفتے مصر میں بھی امن قائم کروانے جا رہے ہیں،یمن کا مسئلہ بھی بس حل ہو ہی گیا ہے۔ بھارت نے کشمیر سے اپنی فوجیں بھی واپس بلانے کا اعلان کر دیا ہے۔عمران خان کی تقریر سے متاثر ہوکر یورپی انتہا پسندوں نے بھی غلطیوں کو تسلیم کرتے ہوئے شرمندگی کا اظہار کردیا ہے۔

عمران خان کی تقریر کے نتیجے میں ماحولیاتی تبدیلوں پر پوری دنیا کمر کس کے میدان میں نکل آئی ہے اور دنیا کے ہر کونے میں خان صاحب کی تقریر سے متاثر ہوکر لوگ اب تک خیبر پختونخوا ں کی طرز پر 1ارب درخت لگا چکے اور مزید درخت لگانے کے لیے امریکہ ،روس ،اسرائیل اور چین میں دوڑ شروع ہو چکی ہے۔
اسلام فوبیا میں مبتلا افراد یورپی ملکوں کی سڑکوں پر اپنے ناک رگڑرگڑ کر معافیاں مانگ رہے ہیں۔

اگر مندرجہ بالا تمام چیزیں واقعی ہو چکی ہیں یا بس ہونے ہی والی ہیں تو پوری قوم کو مبارکباد بصورت دیگر حبیب جالب صاحب کی ایک نظم آپ کے لیے پیش خدمت ہے جو نجانے کیوں بے ساختہ یاد آرہی ہے۔
سرِ منبر وہ خوابوں کے محل تعمیر کرتے ہیں
 علاجِ غم نہیں کرتے فقظ تقریر کرتے ہیں
بہ ہر عالم خدا کا شکر کیجئے اُن کا کہنا ہے
 خطا کرتے ہیں ہم جو شکوہ تقدیر کرتے ہیں
ہماری شاعری میں دل دھڑکتا ہے زمانے کا
 وہ نالاں ہیں ،ہماری لوگ کیوں توقیر کرتے ہیں
انہیں خوشنودی شاہاں کا دائم پاس رہتا ہے
 ہم اپنے شعر سے لوگوں کے دل تسخیر کرتے ہیں
ہمارے ذہن پر چھائے نہیں حرص کے باد ل
 ہم محسوس کرتے ہیں ، وہی تحریر کرتے ہیں
بنے پھرتے ہیں کچھ ایسے بھی شاعر زمانے میں
 ثنا غالب# کی کرتے ہیں ، نہ ذکر میر # کرتے ہیں 
 حَسین آنکھو ں مُدھر گیتوں کے سُندر دیس کو کھو کر
 میں حیراں ہوں وہ ذکر وادی کشمیر کرتے ہیں
ہمارے درد کا جالب# مداوا ہو نہیں سکتا 
 کہ ہر قاتل کو چارہ گر سے ہم تعبیر کرتے ہیں

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :