”کیا جی کا جانا ٹھہر گیا“

جمعہ 1 اکتوبر 2021

Ahmed Khan

احمد خان

کیا قدرت اپنی کاری گری دیکھا نے جارہی ہے کیا کمال کے بعد زوال کا قصہ شروع ہوا چا ہتا ہے ، ن لیگ کی اعلی قیادت میں سوچ کے ” بٹوارے “ کی خبریں ذرائع ا بلاغ کی زینت بھی بنتی رہی ہیں سینہ گزٹ کے ذریعے بھی کچھ کچھ ” ابال “ باخبر حلقوں تک پہنچتا رہا ہے ، مر یم بی بی کے حالیہ بیان اور حمزہ شہباز کے جوابی بیان نے پھر سے پارٹی قیادت کی سوچ میں مخالف رویوں کو عیاں کیاخواجہ آصف کے ” چلمن “ کے پیچھے سے داغے بیان نے تو گویا پارٹی کے اندرونی معاملات پر مہر ثبت کر دی ، پارٹی قیادت میں اختلافات نے اب سر اٹھا یاہے ؟ جو احباب ایسا سمجھتے ہیں قطعاً ایسا نہیں ، مسلم لیگ ن میں شروع ہی سے دو سوچ کے حامل گروپ مو جود رہے ہیں ، میاں نوازشریف سے ذہنی ہم آہنگی رکھنے والے رہنما نوازشریف کے قریب ترین تصور کیے جاتے ہیں بڑے میاں صاحب بھی زیادہ تر اپنے انہی رفقا ء کا کہا سنا اور مانا کر تے ہیں ، جن کا ذہنی میلان شہبازشریف سے ملتا تھا وہ شہباز شریف کے دایاں بازو بنے اور اسی طور سے پارٹی میں ان کی شناخت بنی ، پانامہ اور پھر پانامہ قضیے کے بعد ذہنی سوچ میں تفریق نے تیزی سے سر اٹھا نا شروع کیا ، پانامہ معاملے میں شہباز شریف اور ان کے دوستوں کی با وجود کو شش کے نہیں سنی گئی بڑے میاں صاحب نے مریم بی بی اور اپنے رفقا ء خاص کے مشوروں کو ہی معتبر جانا اور انہی کے ” صائب “ مشوروں پر عمل کر نے میں ہی اپنی بھلا ئی سمجھی ، مسلم لیگ ن سے قربت رکھنے والے حلقوں کے مطابق اگر بڑے میاں صاحب پانامہ اور پھر نا اہلی کے بعد شہباز شریف اور شہباز شریف کے دوستوں کے مشوروں پر کا ن دھرتے شاید آج میاں صاحبان اور مسلم لیگ ن کو پیش آمدہ مسائل کا سامنا نہ کر نا پڑ تا ، چلیں پانامہ نے مقدر بننا تھا سو بن گیا اس کے بعد شہباز شریف وزارت عظمی کے مو زوں ترین امید وار تھے شہباز شریف بہتر طور پر نواز شریف کی نااہلی کے بعد ملکی حالات کو سنبھلا دے سکتے تھے اور مسلم لیگ ن کو بھی مشکلات کے بھنور سے نکال سکتے تھے شہباز شریف کو لیکن اسی ” پارٹی اختلاف “ نے وزیر اعظم نہیں بننے دیا ، شہباز شریف کے بعد چکری کے چوہدری کا نام پیش کیاگیا چکری کے چوہدری کا یارانہ چونکہ شہباز شریف سے مشہور تھا سو میاں صاحبان کے اس مخلص دوست کو بھی وزارت عظمی کے لیے ناموزوں قرار دیا گیا دراصل یہاں سے ن لیگ کی اعلی قیادت کے درمیاں باقاعدہ اختلاف کی لکیر واضح طور پر سامنے آئی ، شہباز شریف اور چوہدری نثار کو دیوار سے لگا نے کے بعد حالات سامنے کی دیوار پر با آسانی پڑھے جاسکتے ہیں ، لگے تین سالوں میں مسلم لیگ ن کی اعلی قیادت کی سوچ میں تفریق کا اظہار اشاروں کنا یوں میں سامنے آتا رہا اب مگر جس طر ح سے مر یم بی بی حمزہ شہباز اور قبلہ خواجہ آصف کے بیانات سامنے آئے ہیں اس کے بعد واضح طور پر کیا جاسکتا ہے کہ مسلم لیگ ن عملا ً نہ سہی لیکن طرز فکر کے لحاظ سے دوحصوں میں بٹ چکی ہے ، نواز شریف مر یم بی بی اور ان سے قربت رکھنے والے مخصوص طرز سیاست کو لے کر چلنے کے آرزومند ہیں دوسری جانب شہباز شریف اور ان کی قربت کا دم بھر نے والے نما یاں اکا برین الگ سوچ کے تحت مسلم لیگ ن کو چلا نا چا ہتے ہیں ، مسلم لیگ ن قیادت میں موجود دو مخالف سیاسی طرز فکر نے مسلم لیگ ن کے کارکنوں کو عجب امتحاں میں ڈال دیا ہے جس طر ح کی کارکردگی پنجاب میں تحریک انصاف کی صوبائی حکومت کی رہی ہے ، سیاسی پنڈتوں کے خیال زریں میں اگلے عام انتخابات میں اغلب امکاں ظاہر کیا جارہا ہے کہ کم از کم پنجاب میں ن لیگ بہت بڑی تعداد میں قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستیں اپنے نام کر ے گی لیکن مسلم لیگ ن میں پیدا ہو نے والی حالیہ ڈراما ئی صورت حال نے سیاسی پنڈتوں کے ہاتھوں کے طوطے بھی اڑا دئیے ہیں ، مسلم لیگ ن میں پا یا جانے والا” ابال “ اگر عام انتخابات تک مزید شد ت اختیار کرتا ہے اگلے عام انتخابات میں پھر ن لیگ کو اس کا خمیازہ بھگتنے کے لیے تیار رہنا چا ہیے ، ہماری سیاسی جماعتوں میں معاملات کہاں سے بگڑ تے ہیں جمہوری روایات کی امین سیاسی جماعتوں میں جمہوری ااقدار اور اصولوں کو پاؤں کی زنجیر بنا نے میں فخر محسوس کیا جاتا ہے ، جمہوریت کی امین مگر ہماری سیاسی جماعتوں میں آمر یت کا چلن عام ہے ، وطن عزیز کی سیاسی جماعتوں میں اندھی تقلید اور مو روثیت کے بجا ئے اگر اہلیت کو مد نظر رکھ کر سیاسی جماعتیں عہدوں کی بندر بانٹ کر نے کی رہ اپنا ئیں اس میں سیاسی جماعتوں کی بقا اور جمہو ریت کی فلا ح مضمر ہے سوال مگر پھر یہ اٹھتا ہے کہ سیاسی جماعتوں کو اپنی ذاتی جا گیر سمجھنے والوں کو اپنا مستقبل تاریک نظر آتا ہے۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :