
دھواں دار تبصروں کا جواب
پیر 20 جنوری 2020

احتشام الحق شامی
مسلم لیگ ن اور شریف خاندان میں تقسیم کی باتیں ،دعوے اور تبصرے سن سن کر کم از کم ناچیز کے سر کے بال سفید ہو چکے ہیں لیکن ابھی تک ن لیگ کی سیاست کا جنازہ نہیں نکلا اور نہ ہی شہباز شریف اپنے بھائی اور سیاسی قائد نواز شریف کے برخلاف کھڑا ہوا ۔
(جاری ہے)
ن لیگ اور شریف خاندان کی ’’تقسیم‘‘ کی ان کوششوں کا باضابطہ آغاز سابق ڈیکٹیٹر پرویز مشرف نے شروع کیا تھا اور مسلم لیگ اور شریف خاندان کی تقسیم کے لیئے تمام تر ریاستی وسائل بروئے کار لائے گئے تھے بلکہ ایک نیا محکمہ’’ نیب‘‘ تک بنایا گیا تھا اور جو آج تک قائم ہے، جس کا صرف اور صرف ایک ہی مقصد تھا کہ ن لیگ کا خاتمہ اور شریف خاندان کو کرش کیا جا سکے،لیکن پھر ہم سب نے دیکھا کہ تمام تر سختیوں اور اقتدار کی لالچ دینے کے باوجود شہباز شریف کا بکنا یا جھکنا تو دور کی بات ہے وہ اپنے لیڈر اور بھائی نواز شریف کے موقف اور بتائے گئے اصولوں سے انحراف کرنے میں اپنی جگہ سے ہلے تک نہیں اور نواز شریف کی’’ ن‘‘ لیگ بھی پوری طرح سے قائم رہی ۔
آج تو شہباز شریف اپوزیشن لیڈر ہیں یعنی نیکسٹ ٹو پرائم منسٹر اور اقتدار ان سے صرف گیارہ ووٹوں کی دوری پر ہے ۔ جبکہ حالات کے مطابق یہ دوری بھی اب ختم ہونے کو ہے ۔ اگر شہباز شریف اتنا ہی اسٹبلشمنٹ کی بغل میں بیٹھے ہوتے تو آج عمران خان کی جگہ وہ ایوانِ وزیرِا عظم میں موجود ہوتے،جس کی انہیں کھلی پیشکش بھی کی گئی لیکن وہ نواز شریف کی ہدایت پر اپنی جگہ کھڑے رہے ۔ (یہاں یہ بات بھی واضع رہے کہ الیکشن دو ہزرا ٹھارہ میں ن لیگ کو بد ترین دھاندلی کے زریعے اقتدار سے دور رکھنے بعد بھی قومی اسمبلی میں اتحادیوں کو اپنے ساتھ ملا کر بھی حکومتی سیٹ نمبرز کی یہ صورتِ حال ہے) ۔
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اسٹبلشمنٹ،عوام اور پاکستان کی تمام سیاسی قیادت اس بات سے پوری طرح آگاہ ہے کہ نواز شریف ابھی تک اپنے موقف اور بیانیئے پر قائم ہی نہیں بلکہ ڈٹ کر کھڑے ہیں اور مقتدرہ کے لیئے چیلنج بنے ہوئے ہیں ۔ یہ بھی حقیقتِ حال ہے کہ اقتدار سے فارغ کیئے جانے کے بعد سے لے کر تا حال نواز شریف کی اپنی پارٹی پر پوری طرح گرفت قائم ہے ۔ ان کے دیگر پارٹی راہنماوں کا ہر بیان اور سیاسی عمل ان کی ہدایات کا عکاس ہے،اختلافِ رائے کی آمرانہ سیٹ اپ میں ہی ممانعت ہوتی ہے،اظہارِ رائے اور سیاسی اختلاف کا اظہار سیاسی جماعتوں کی بنیاد ہے،اس ضمن میں اگر کسی نقطہ پر آ کر ن لیگ میں اختلاف پیدا ہوا بھی ہے تو اسے سراہنا چاہیئے،یہ سیاسی طور پر صحت مندانہ طرزِ عمل ہے جسے ہر سیاسی جماعت میں موجود ہونا چاہیئے ۔
آرمی ایکٹ میں حالیہ ترامیم میں ن لیگ نے آگے بڑھ کر ڈنکے کی چوٹ پر حمایت کی،جسے ابتداء میں تو تنقید اور بوٹ پالش کرنے سے تشبیح دی گئی لیکن جیسا کہ میں نے اس وقت بھی عرض کیا تھا کہ ن لیگ کی یہ حکمت عملی بھیِ بعد میں آشکارا ہو گی اور وہی ہوا ،دو دن گزرنے کے بعد جب پوری پی ٹی آئی اپنا سر پکڑ کر بیٹھ گئی تو تب سب نے یہ جانا کہ د رِ حقیقت حکومتِ عمرانیہ کی پوری کوشش اور خواہش تھی کہ ن لیگ مذکورہ بل کی حمایت نہ کرے تا کہ اس پر بعد میں اداروں کو متنازع بنانے کا الزام عائد کیا جا سکے اور سیاسی پوائنٹ اسکورنگ میں ن لیگ سے آگے نکلا جا سکے ۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ دانشور احباب پیدا شدہ حالات پر فوری طور پر اپنی رائے قائم کر کے بیٹھ جاتے ہیں ،حلانکہ کسی بھی عمل کے ردِ عمل کا انتظار ضرور کر لینا چاہیئے ۔
اب اگر شہباز شریف قومی اسمبلی میں عدمِ اعتماد کی صورت میں وزیرِا عظم بنتے ہیں تو اسے بھی فوری طور پر ڈیل ہی قرار دیا جائے گا ۔ حالانکہ جیسا میں پہلے کہ چکا ہوں کہ اگر انہوں نے وزیرِا عظم بننا ہوتا تو اس سے پہلے اور جیسا کہ موجودہ اسمبلی میں بھی انہیں آفر کر دی گئی تھی،تو وہ بن وزیرِا عظم چکے ہوتے ۔ حیرت ہوتی ہے جب نواز شریف اور شہباز کو علیحدہ طور پر دیکھا جاتا ہے،شہباز شریف کا ایک بیتا اس وقت بھی جیل میں ہے اور دوسرا ملک سے باہر ہے،ان کی جائداد بحق سرکار ضبط کی جا چکی ہے،کیس پر کیس چل رہے ہیں اور نئے مقدمے بن رہے ہیں ،کینسر کی مرض میں مبتلا ہونے کے باوجود اپنے بھائی کے کندھے کے ساتھ کندھا ملا کر کھڑے ہیں ،نواز شریف کی بیماری کا جتنا درد انہیں ہوا ہے اتنا شائد مریم نواز کو بھی نہ ہوا ہو ۔ شہباز شریف نے نواز شریف کے ساتھ ایک عرصہ گرازا ہے وہ ان کے نبض شناس ہی نہیں رازداں بھی ہیں ۔
وہ جانتے ہیں کہ کون سا قدم کہاں اور کس وقت رکھنا ہے؟ جو شخص اقتدار کی راہداریوں میں برسوں رہا ہو وہ زیادہ بہتر جانتا ہے کہ عزت ووٹ میں ہے یا بوٹ میں لیکن بدقسمتی سے کئی پارٹ ٹائم دانشور سیاسی حکمتوں کو نہ جانے کن کن کہانیوں سے تعبیر کر کے بیٹھے ہیں ۔ اس لیئے اگر شہباز باز شریف نے گزشتہ سولہ ماہ میں تا حال کوئی ایسا قدم نہیں اٹھایا ہو یا ان کے کسی ایسے عمل سے یہ ثابت اور ظاہر ہوتا ہو کہ ان اور نواز شریف کی سیاسی سمت مختلف ہے تو خاکسار کو ضرور آگاہ کر دے ۔ ممنون رہوں گا ۔
اس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ موت سے قریب نواز شریف علاج کے لیئے بیرونِ ملک جانے سے سخت انکاری تھے لیکن اگر انہوں نے علاج کے لیئے برطانیہ جانے کی حامی بھری بھی تو اس میں شہباز شریف سے زیادہ ان کی اپنی والدہ کا کردار تھا،جنہوں نے ایک وقت اپنی چادر کو نواز شریف کے پیروں پر ڈال دیا تھا،تا کہ وہ باہر جانے کے لیئے رضامند ہو سکیں لیکن مذکورہ عمل کو بھی شہباز شریف کی اسٹبلشمنٹ کے ساتھ ڈیل بنا دیا گیا ۔ اگر اس بات یا ڈیل کی کوئی زرہ برابر بھی حقیقت ہوتی تو ابھی تک اے آر وائے اور بول ٹی وی اسے ہر خبرنامے سے پہلے نشر کر رہے ہوتے ۔
جیسا کہ پہلے بھی عرض کیا ہے کہ بعض اوقات جیسا نظر آ رہا ہوتا ہے حقیقت میں ویسا ہوتا نہیں ہے ۔ یہاں یہ بھی واضع کر دوں کہ پوری ن لیگ اور شہباز شریف بخوبی جانتے ہیں کہ ن لیگ سے نواز شریف کو منفی کرنے کی صورت میں خود ان کی اپنی سیاسی موت ہو گی اس لیئے اگر ن لیگ میں رہ کر سیاست کرنا مقصود ہے تو ہر صورت میں نواز شریف کو اپنا سیاسی قائد اور ان کے بیانیئے کو ماننا ہو گا وگرنہ دوسری صورت میں چوہدری نثار کی مثال سب کے سامنے ہے،جو نواز شریف کو سمجھاتے سمجھاتے از کود ہی سیاسی منظر نامے سے باہر ہو گئے ۔ اس لیئے نہ چاہتے ہوئے بھی کسی بھی قیمت پر شہباز شریف یا دیگر ن لیگی، نواز شریف کی سوچ یا بیانیئے سے براہِ راست ٹکراو سے ہر صورت بچتے رہیں گے ۔
جہاں تک نواز شریف کے سول بالادستی سے متعلق بیانیئے یعنی "ووٹ کو عزت دو" کی بات ہے تو یہ بیانیہ اب ن لیگ ہی نہیں تمام سیاسی جماعتوں کی ضرورت بن چکا ہے،آپ دیکھئے گا کہ جب عمران خان کو عنقریب تحریکِ عدمِ اعتماد کے زریعے فارغ کیا جائے گا تو قہ بھی ووٹ کو عزت دو کے بیانیئے کا راگ الاپنا شروع کر دیں گے ۔ اس لیئے مذکورہ صورتِ حال میں شہباز شریف یا کوئی ن لیگی دیوانہ ہی ہو گا جو نواز شریف یا ان کے بیانیئے کے بر خلاف چل کر اپنی سیاسی کامیابی کے خواب دیکھنے کی کوشش کرے ۔
یہ بات ان پریشان حال دانشوروں کو سمجھنے کی ضرورت ہے جنہیں ہر وقت ن لیگ کی تقسیم اور شہباز شریف کی سیاست نواز شریف کی پالیسیوں سے متصادم ہوتی دکھائی دیتی ہے ۔ ناچیز کے پاس الفاظ کا ذخیرہ نہیں لیکن احباب کے دھواں دار تبصروں کا جواب دینے کی پوری کوشش کی ہے ۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
احتشام الحق شامی کے کالمز
-
حقائق اور لمحہِ فکریہ
ہفتہ 19 فروری 2022
-
تبدیلی، انکل سام اورحقائق
بدھ 26 جنوری 2022
-
’’سیکولر بنگلہ دیش اور حقائق‘‘
جمعہ 29 اکتوبر 2021
-
”صادق امینوں کی رام لیلا“
ہفتہ 2 اکتوبر 2021
-
”اسٹبلشمنٹ کی طاقت“
جمعہ 1 اکتوبر 2021
-
ملکی تباہی کا ذمہ دار کون؟
بدھ 29 ستمبر 2021
-
کامیاب مزاحمت آخری حل
بدھ 1 ستمبر 2021
-
"سامراج اور مذہب کا استعمال"
جمعہ 27 اگست 2021
احتشام الحق شامی کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.