پانچ فروری ۔ کشمیر اورحقائق‎

بدھ 5 فروری 2020

Ahtesham Ul Haq Shami

احتشام الحق شامی

مقبوضہ کشمیر جسے پہلے پہل ہم اپنی شہ رگ قرار دیتے تھے اور اب حال ہی میں اسے اپنی روح کا درجہ بھی دے دیا ہے، کو بھارت کے چنگل سے آذاد کروانے کے لیئے ہماری سرکاری پالیسی، اگر کشمیریوں سے محض زبانی جمع تفریق کی حد تک ’’ اظہارِ یکجہتی‘‘،پانچ فروری کو ملک بھر میں سرکاری تعطیل،جلسے،جلوس تقریریں اور ریلیاں اگر کارگر یا سود مند ہوتی تو فلسطین ، مقبوضہ کشمیر اور دنیا کی دیگر محکوم اقوام کب کی آذاد ہو چکی ہوتیں ۔


اب یہ سوال کہ کیا پھر مودی کے سر پر ڈنڈا ماریں یا ایٹمی جنگ شروع کر کے خطہ کے کروڑوں انسانوں کو تباہی کی نظر کر دیں؟ تو اس معصومانہ سوال کے جواب میں عرض ہے کہ پھر بڑھ چڑھ کر یہ دعوے کرنے کی کیا ضرورت تھی کہ کشمیر کی آذادی کے کیئے ’’آخری گولی اور آخری سپاہی تک بھارت سے لڑیں گے‘‘ اور ’’کشمیر بزور شمشیر‘‘ اور’’ کشمیر مذمت سے نہیں ۔

(جاری ہے)

۔ ۔ کی مرمت سے آذاد ہو گا‘‘ جیسے سلوگن اور نعرے ستّر سالوں سے قوم کو سنانے کی کیا ضرورت تھی ؟۔
تنازعہِ کشمیر کے حل کے حوالے سے خود ہماری منافقت کا عالم یہ ہے کہ پاکستان کے قومی میڈیا اور ٹی وی ٹاک شوز میں کشمیر کو وہ دانشور آذاد کروا رہے ہوتے ہیں جنہیں خود کشمیر کا حدود حربہ معلوم نہیں ،جبکہ ہونا یہ چاہیئے اور جو نہیں ہو رہا کہ پاکستان کے قومی الیکٹرانک میڈیا میں آذاد کشمیر کی سیاسی قیادت کو مدعو کر کے انہیں از خود کشمیر کے معاملے پر گفتگو کرنے کا موقع فراہم کیا جانا چاہیئے ۔

بحر حال یہ سوال کہ اب کیا کریں ؟، توعرض ہے اگر اپنے آپ کو کشمیریوں کے فریق ہونے کا بہت بڑا دعوی ہے تو پھر پہلے خود مکمل طور پر آذاد اور خود مختار ہوں ،اپنی خارجہ،دفاعی اور سفارتی اور حتی کی داخلی پالیسیاں از خود مرتب کیجئے اور عالمی سامراج کی غلامی سے باہر نکلیئے ۔
 تنازعہِ کشمیر کے حل کے حوالے سے حال ہی میں اقوامِ متحدہ میں کی گئی تقریروں اور بند کمروں کے اجلاسوں کے باوجود صفر نتیجہ اس بات کی بار بار گواہی دے رہا ہے کہ مقبوضہ کشمیر کا حل طلب معاملہ ہماری تقریروں اور کشمیریوں سے ’’ اظہارِ یکجہتی‘‘ کا ہرگز بھی محتاج نہیں ۔

مقبوضہ کشمیر کا حل یا آذادی ہماری خود مختاری اور آذادی کی محتاج ہے ۔ تبھی دنیا ہماری بات اور موقف دھیان سے سنے گی ۔ سامراج اپنے غلاموں کا کوئی مطالبہ بھلا کب سنتا ہے ۔ یہ حقیقت ہمیں قبول کرنے کی ضرورت ہے ۔
گزشتہ ماہِ اگست میں بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے آرٹیکل 370 کا نافذ کیا گیا اور مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ کر دیا گیا، اس ا قدام کے بعد اور وہاں تا حال جاری بدترین لاک ڈاون اور کرفیو جسے تقریباً ایک سو نوّے روز ہو چکے ہیں ، اگر عمران خان کی نریندر مودی کو دھمکیوں ، تقریروں اور اظہارِ یکجہتیوں سے ختم ہونا ہوتا تو اب تک مقبوضہ کشمیر میں لگا کرفیو اور وہاں نافذ آرٹیکل 370 ختم ہو چکا ہوتا ۔

بات پھر وہی ہے کہ مقبوضہ کشمیر کی آذادی کے لیئے جو حقیقی اور عملی اقدامت ہمیں اٹھانے چاہیں ، ان سے ہم اب تک گریز کرتے چلے آئے ہیں ،جس کی بنیادی وجہ خود ہماری اپنی سلب شدہ آذادی اور خود مختاری ہے ۔ جلسے جلوس اور محض تقریریں تو خود ہماری اپنی بے بسی کو اور بندھے ہاتھ ظاہر کر رہی ہیں ،کیا دنیا کی ساتویں ایٹمی طاقت ہوتے ہوئے ہمیں ایسی بے بسی زیب دیتی ہے کہ اب صرف آذاد کشمیر کا بچانے کی باتیں ہو رہی ہیں ۔


اگر تو اظہارِ یکجہتیوں تقریروں اور جلسے جلوسوں کے یہ سلسلے ہمارے خیال کے مطابق ہمیں اس لیئے زیب دے رہے ہیں کہ دنیا ہماری جانب متوجہ ہو گی تو تاحال ایسا ہوتا دکھائی نہیں دیا اور نہ ہی آئندہ دکھائی دے گا ۔ بلخصوص پانچ فروری کا دن جسے پچھلے کئی برسوں سے پورے سرکاری اہتمام کے ساتھ منایا جا رہا ہے ۔ ہمیں ابھی تک کسی نے بھی مذکورہ احتجاج کرنے سے نہ منع کیا ہے بلکہ ہماری یکجہتیوں اور جلسے جلوسوں کی جانب آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھا اس کی بنیادی وجہ پھر وہی کہ جب ہماری اپنی پالیسیاں اور معیشت اغیار کی مرہونِ منت ہیں تو اس صورت میں کون ہماری تقریروں پر اپنے کان دھرے گا؟ ۔


آج پھر ہر سال کی طرح قومی اسمبلی میں کشمیریوں سے اظہارِ یکجہتی سے کی قرارداد منظور کی گئی ہے لیکن کاش کہ دنیا کے کسی با اثر ملک کے کان پر جوں رینگے،کسی ملک کا سفارتحانہ آپ سے اس ضمن میں رابطہ کرے ۔ دوبارہ عرض کیئے دیتا ہوں ایسا ہو گا نہیں کیونکہ جن عالمی سامراجی طاقتوں نے از خود جان بوجھ کر ایک منصوبہ بندی کے ساتھ کشمیر کا تنازعہ کھڑا کیا صرف وہی اس تنازعہ کو حل یا درست کرنے کی صلاحیت یا طاقت رکھتے ہیں ۔

ہمیں شائد ایل او سی پر بھارت کے حملوں کا منہ توڑ جواب دینے کا محدود سا اختیار حاصل ہے،اگر لامحدود اختیار حاصل ہوتا تو بھارتی پائیلٹ ابھی نندن کو کبھی بھی چند گھنٹوں کے اندر اندر سوٹ پہنا کر واپس بھارت روانہ نہیں کیا جاتا ۔ یہ ہے ہماری آذادی اور خودمختاری کا لیول اور دوسری جانب کشمیر کی آذادی کی ہماری تقریریں ، باتیں اور بلند و بانگ دعوے ہیں کہ آسمان سے باتیں کررہے ہوتے ہیں ۔


بھارت جسے ہم ابھی تک اپنا واحد اور ازلی دشمن گردانتے چلے آئے ہیں ، اس کے قبضے سے مقبوضہ کشمیر کی آذادی یا اپنی شہ رگ اس کے شکنجے سے چھڑانا مقصود ہے تو وزارتِ خارجہ سے باہر بیٹھے کشمیر ڈیسک کے افلاطون اور پالیسی سازوں کو سنجیدگی دکھانا ہو گی ۔ اب حالت بدل گئے ہیں ، شعور عام ہو چکا ہے ۔ دنیا بدل گئی ہے،ہ میں بھی اپنی سوچ کو بدلنا ہو گا اور تنازعہَ کشمیر کے حوالے سے زمینی حقائق کو تسلیم کرنا ہو گا ۔


 مقبوضہ کشمیر کو آذاد کروانے کی خواہش کو پورا کرنے کے لیئے سب سے اپنی ملکی معیشت کو مضبوط کرنا ہو گا،آذاد خارجہ اور دفاعی پالیسی بنانا ہو گی، امریکی اثر سے باہر نکلنا ہو گا(جو موجودہ حکومت میں ناممکن ہے)،تنازعہ کشمیر کے حوالے سے ہر بین القوامی فورم پر آذاد کشمیر کے سیاسی قیادت کو اپنے سے آگے رکھا جائے اور انہیں خود دنیا کے سامنے اپنا موقف بیان کرنے کا موقع دیا جانا چاہیئے، مقبوضہ کشمیر کو حاصل کرنے کے لیئے پہلے آذاد کشمیر حکومت کو مذید اختیارات دے کر اسے خود مختاری کی جانب گامزن کیا جائے، کسی کو اچھا لگے یا برا ،الیکشن یا عام انتخابات میں حصہ لینے کے لیئے الحاقِ پاکستان والی شق کا خاتمہ کیا جائے،اس سے خود مختار کشمیر کے حامیوں میں پاکستان سے متعلق زبردست اعتماد بڑھے گا اور بیرونی ممالک میں تنازعہِ کشمیر کے حوالے سے پاکستان مخالف لابی کمزور ہو گی ۔


آفیشلی ہم ایک جانب مقبول بٹ شہید کو تحریکِ آذادی کشمیر کا ہیرو قرار دیتے ہیں تو دوسری جانب ان کے سیاسی پیروکاروں یعنی خودمختار کشمیر کے حامی جنہیں ابھی تک ہم نے بھارت نواز،غدار اور نا جانے کیا کیا ڈیکلیئر کیا ہوا ہے، بھارت جن کے احساسِ محرومی سے تا حال سیاسی فائدے اٹھائے رہا ہے ۔ ان پر آذاد کشمیر میں سیاسی ناطقہ بند کیا ہوا ہے ۔

یعنی وہ الیکشن میں حصہ نہیں لے سکتے ۔ جبکہ مقبوضہ کشمیر میں ایسا نہیں ہے ۔
یہاں یہ بھی یاد رہے کہ دنیا بھر میں کشمیر کے الحاقِ پاکستان سے بہت زیادہ پذیرائی خودمختار کشمیر کے حامیوں کے حصے میں آ رہی ہے اور انہی کا موقف توجہ سے سنا جا رہا ہے ۔ "کشمیر بنے گا پاکستان" کے نعرے ہم یہاں ایک دوسرے کو سنا سنا کر خوش تو ہو سکتے ہیں لیکن دینا کے فیصلہ ساز ممالک میں ان نعروں کی کوئی گنجائش نہیں ۔

خود مختار کشمیر کے حامیوں کو اپنے قریب لانے سے دنیا میں کشمیر سے متعلق پاکستانی موقف میں زیادہ جان اور قوت پیدا ہو گی ۔ یہی نہیں بلکی وزارتِ خارجہ و راولپنڈی والوں کے کشمیر ڈیسک کے ماہرین کا آدھے سے زیادہ کام یہی خود مختار کشمیر کے حامی بخوشی کر سکیں گے ۔
اگر تو آذادیِ کشمیر کے نام پر محض زبانی جمع تفریق سے کام چلانا  اور دیہاڑیاں لگانا مقصود ہیں تو جلسے، جلوس تقریریں اور ریلیوں کا سماں باندھے رکھیئے اور اگر کشمیر کے تنازعہ کو حل کرنے کی کڑوی گولی نگلنی ہے توسوچ اور ارادے اور تقریریں بدلنا ہوں گی ۔

عملی اقدامات اٹھانے ہوں گے ۔ کوئی بھی پلیٹ میں کشمیر کو رکھ کر ہمارے سامنے پیش نہیں کرے گا ۔
یاد رکھنے کی بات ہے پھیلتے شعور کے باعث دنیا اور حالات تیزی سے بدل رہے ہیں ۔ زرا اپنے کنویں سے تو باہر آیئے خود دکھائی دے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :