’’کرونا وائرس اور حکومتی ترجیحات‘‘‎

منگل 31 مارچ 2020

Ahtesham Ul Haq Shami

احتشام الحق شامی

وزیرِا عظم عمران خان اگر اپنے آپ کو اب بھی دور اندیش لیڈر سمجھنے کے دعویدار ہیں تو جب ’’کرونا وائرس‘‘ کا گرد و غبار زمین پر بیٹھے گا اور ملک اقتصادی اور معاشی تباہی جس بڑے پہاڑ پر کھڑا نظر آئے گا تو انہیں اس منظر کا تصور ابھی سے ہی کر لینا چاہیئے ۔
بین القوامی ریٹنگ ایجنسی موڈیز نے بھی اپنی حالیہ رپورٹ میں خبردار کیا ہے کہ پاکستانی جی ڈی پی جو 2.6% فیصد تک گرنے کا تخمینہ تھا اب اس کا منفی 9.5% تک گرنے کا خدشہ ہے جس باعث مذید30 لاکھ افراد بیروزگارہوجائینگے اور مہنگائی 16% تک بڑھ جائیگی ۔

ملکی اسٹاک مارکیٹ کی تاریخی اور بدترین تباہ حالی اور ڈالر کا ایک مرتبہ پھر 170 روپے کی قریب پہنچ جانا بھی اس امر کی بھر پور نشان دہی کر رہا ہے کہ امریکی ڈالر کی 200 روپے تک پہنچنے کی سابقہ پیشن گوئی پوری ہو کر رہے گی اور کرونا وائرس کی گرد بیٹھنے کے بعد حکومتِ عمرانیہ کی نا اہلی کے باعث ایک لمبی مدت تک کے لیئے ملک میں ملک میں لوٹ مار،سیاسی خلفشاراور بے یقینی کی کیفیت برقرار رہے گی ۔

(جاری ہے)

اس کے باوجود حکومت کی کوئی پلانگ یا منصوبہ بندی نظر نہیں آ رہی ۔
 کل ہی وزیرِا عظم عمران خان نے رواں ہفتے اپنی تیسری تقریر میں ارشاد فرمایا کہ وہ8 ارب ڈالر جمع کرینگے اور اپنی ٹائیگر فورس کے زریعے عوام میں مفت راشن تقسیم کرینگے لیکن سوال یہ ہے کہ جب وہ پہلے ہی پاکستان کی تاریخ میں سب سے زیادہ غیر ملکی قرضے لے چکے ہیں اور پورے ملک میں کہیں بھی کوئی ایک منصوبہ بھی نہیں لگایا جا سکا تو وہ کھربوں روپے کا قرضہ کس مد میں خرچ ہوا یا پھر کس کس کی جیب میں گیا؟
اس کے علاوہ بھی کرونا وائرس کے حوالے سے کئی ممالک لاکھوں ڈالرز کی نقد امداد پہلے ہی دے چکے ہیں لیکن اس تمام قرضے کا تو ایک روپیہ بھی اس بھوک اور افلاس کی ماری قوم کے پیٹ میں نہیں جا سکا اور حقیقتِ حال یہ ہے کہ فلاحی تنظی میں اور صاحبِ حیثیت لوگ آج بھی اپنے طور پر مستحقین کی امداد کر رہے ہیں ۔

یہاں ایک اور سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ اگر عمران خان کی ٹائیگر فورس کے جوان عوام میں مفت راشن تقسیم کریں گے تو پھر سوشل میڈیا پر اپوزیشن کو گالیاں کون نکالے گا؟  
آج ہی میڈیا میں بتایا گیا ہے کہ ترک صدر نے اپنی سات ماہ کی تنخواہ کرونا وائرس کے متاثرین کو دی ہے،پوچھنا یہ بھی تھا کہ کیا ہمارا صادق اور امین وزیرِا عظم بھی اتنی بہادری کا مظاہرہ کر سکتا ہے یا پھر اس کا زور صرف تقریریں اور عوام کی جیبوں پر ہاتھ صاف کرنے پر ہی صرف ہوتا ہے ؟۔


اب حکومت ِ عمرانیہ نے کورونا وائرس کے حوالے سے عوام کو ریلیف دینے کے لیئے 12 سو ارب روپے کے وزیراعظم معاشی پیکیج کا اعلان کیا ہے (حالانکہ اس وقت پاکستان کے پاس زرمبادلہ کے ذخائر 3500 ارب ہیں ) جبکہ ایشیائی ترقیاتی بینک نے بھی کورونا وائرس کے پیشِ نظر 20 لاکھ ڈالر گرانٹ کی منظوری دی ہے ۔ ملک میں کورونا ریلیف فنڈ بھی بنا دیا گیا ہے لیکن سوال پھر وہی ہے کہ جب موجودہ حکمران اس سے پہلے عوام کو کوئی خاطر خواہ ریلیف مہیا نہیں کر سکے تو اب کیسے کریں گے یا جبکہ مشہورِ زمانہ’’ ڈیم فنڈ‘‘ مہم کا آغاز اور انجام بھی سب کے سامنے ہے ۔


 اگر عمران خان کی محض تقریریں کرنے سے کچھ ہونا ہوتا تو آج پورے ملک میں ایک بھی غریب موجود نہیں ہو تا بلکہ امر واقع یہ ہے کہ جب جب موصوف نے تقریر فرمائی ہے ملک کی حالت پہلے سے بدتر ثابت ہوئی ہے ۔ وہ جوں جوں تقریریں کر رہے ہیں ایک جانب کرونا وائرس کے مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے تو دوسری جانب ملک ایک خوفناک معاشی بحران میں جاتا دکھائی دے رہا ہے ۔

اگر کوئی اس ملک کے لیئے درد رکھنے والا ہو تو کم از کم جنابِ وزیرِا عظم عمران خان کو تو تقریریں کرنے سے تو فوری طور پر روکے ۔
 تازہ ترین اطلاعات کے مطابق صدرڈونالڈ ٹرمپ نے امریکی عوام کو حوصلہ دینے کے بجائے خبردار کیا ہے کہ ان کے ملک میں کرونا وائرس سے دو لاکھ افراد جان بحق سکتے ہیں ۔ ہمارا پاکستانی ٹرمپ کیوں پیچھے رہے اس لیئے لگتا ہے اب اگلی تقریر میں ہمارا وزیرِا عظم بھی پاکستان میں ممکنہ طور پر مرنے والوں کے اعداد وشمار ڈونالڈ ٹرمپ کے بتائے ہوئے دو لاکھ سے دوگنے کر کے پیش کرے گا ۔

حالات، واقعات اور آثار یہی بتا رہے ہیں کہ کرونا وائرس سے جان بحق افراد کی تعداد میں ایک بڑا اضافہ متوقع ہے،اس خطرے کی نشان دہی پہلے ہی ملک کے نامور سائنس دان اور طبی ماہرین کر چکے ہیں لیکن لگتا ہے حکومت جان بوجھ کر اس عالمی وباء کے تدارک کے لیئے خاطر خواہ تدابیر نہیں کر رہی تا کہ کرونا وائرس سے مرنے والوں کی زیادہ سے زیادہ تعداد دکھا کر دنیا سے مالی امداد لی جا سکے ۔


 دوسری جانب اگر باہر ممالک سے طبی امداد آ رہی ہے تو پھر جا کہاں رہی ہے ؟ ہسپتالوں میں موجود ڈاکٹر اور پیرا میڈیکل اسٹاف کرونا وائرس سے محفوظ رہنے والے لباس کا مسلسل مطالبہ کر رہا ہے ۔ طبّی عملہ اپنے سروں اور منہ پر شاپنگ بیگ چڑھا کر اپنے فراءض انجام دے رہا ہے،کئی ڈاکٹر اسی باعث موت کا شکار ہو چکے ہیں لیکن بے ضمیر، بے حس اور بے شرم حکمران عوام کو اس موذی وباء کے رحم و کرم پر چھوڑ کر مسلسل اپنے داحد ایجنڈے یعنی اپوزیشن کے خلاف انتقامی کاروائیوں میں مصروفِ عمل ہیں ۔


اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے وزیرِ اعظم سے سوال کیا کہ کرونا وائرس کنٹرول کرنے کیلئے کیا اقدامات کئے ہیں؟ توجواب میں حکومت کے بغل بچے نیب نے شہباز شریف کو 17 اپریل طلب کر لیا ۔ حکمرانوں کی اپوزیشن دشمنی کے ساتھ ساتھ حق اور سچ دکھانے والے میڈیا کے ساتھ سفاکی اور بغض کا عالم بھی دیکھئے کہ ملک کے سب سے بڑے میڈیا گروپ کے چونتیس سالہ پرانے اور طے شدہ الزام میں میں گرفتار سربراہ میر شکیل الرحمان کو ان کے بڑے بھائی میر جاویدرحمان کی دورانِ بیماری نہیں ملنے دیا گیا اور بعد ازاں ان کے انتقال پر بھی پہنچنے نہیں دیا گیا ۔


 گویا عمران خان کا حدف کرونا وائرس کے خاتمہ کی کوششیں کرنا نہیں بلکہ اپوزیشن اور حکومت کی نا اہلیاں اور نالائقیاں منظرِ عام پر لانے والے میڈیا کو دبانا ہے ۔
یہ ہیں وہ حکومتی ترجیحات جن کو دیکھتے ہوئے با آسانی کہا جا سکتا ہے کہ موجودہ حکمران ملک اور قوم کو کرونا وائرس سے نجات دلانے میں کس قدر سنجیدہ ہیں ؟۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :