ملک محاذ آرائی کا متحمل نہیں ہو سکتا

ہفتہ 10 اکتوبر 2020

Ahtsham Ijaz Bhalli

احتشام اعجاز بھلی

آج کل پاکستان کا کوئ بھی اخبار اٹھا کر دیکھ لیں یا پھر کوئ بھی خبروں کا چینل لگا کر دیکھ لیں تو یوں لگتا ہے کہ ملک میں سرکس لگا ہوا ہے اور مختلف سیاسی جماعتوں کے سیاست دان بازی گروں کے طور پر اپنے اپنے کرتب دکھا رہے ہیں۔حکومت اور اپوزیشن کی جماعتیں ایک دوسرے پر جاہل اور جھگڑالو لوگوں کی طرح طعن و تشنیع کرنے اور فتوے لگانے میں مصروف ہیں۔

اس وقت سیاسی بازی گروں کے سرکس میں غداری سے لے کر دھاندلی اور کرپشن سے لے کر نااہلی تک کے الزامات کی بازگشت سنائ دے رہی ہے۔
یہ تماشہ یوں تو پہلے سے ہی جاری ہے مگر اس میں شدت اس وقت آئ جب عدالتوں کو مطلوب ملزم سابق وزیراعظم نواز شریف نے پاکستان میں بننے والے اپوزیشن کے متحدہ اتحاد سے خطاب کیا اور براہ راست سابق ڈی جی آئ ایس پی آر عاصم باجوہ پر وار کیۓ اور مختلف الزامات لگاۓ۔

(جاری ہے)

اس کے کچھ دن بعد پھر انہوں نے اپنے دور حکومت میں اس وقت کے ڈی جی آئ ایس آئ کے بارے میں کہا کہ انہوں نے اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف سے 2014 میں حکومت مخالف دھرنوں کے دوران استعفی مانگا تھا مگر وہ ڈٹ گۓ اور استعفی دینے سے انکار کر دیا۔
سابق وزیراعظم جو کہ علاج کے لیۓ لندن میں موجود ہیں ان کی تقریروں نے جہاں بعض اداروں کے سربراہوں کی قابلیت پر سوال اٹھاۓ ہیں وہاں  ان کی خود کے کردار پر بھی سوالات اٹھاۓ ہیں کہ اگر وہ سچے ہیں تو اب تک خاموش کیوں تھے اور جب انہوں نے یہ سب کچھ محسوس کیا اس وقت عوام کو اعتماد میں لے کر کیوں نہ بتایا؟آخر وہ خود کو ایک بڑی جمہوری پارٹی کا سربراہ مانتے ہیں۔


ان کی تقریروں کا سلسلہ وقفے وقفے سے جاری ہے اور ان تقریروں کا مجموعی متن ان کے بقول ان سے زیادتی اور انتخابی دھاندلی ہے۔ان کی ان تقریروں کے بعد کچھ لوگوں نے انہیں الطاف حسین پارٹ ٹو کے خطاب سے بھی نواز دیا ہے۔پاکستان میں تمام چیدہ چیدہ اپوزیشن جماعتیں بھی فی الحال تو اکٹھی نظر آ رہی ہیں اور مولانا فضل الرحمن کی سربراہی میں ملک گیر تحریک چلانے کا عندیہ ظاہر کر رہی ہیں۔


اب اگر حکومت کی بات کی جاۓ تو حکومت بجاۓ اس کے کہ اپوزیشن کو آزادی راۓ سے سب کچھ کہنے کی اجازت دے اور اپنا وقت تعمیری کاموں میں صرف کرے،ان کے مشیروں اور وزرا کی فوج وقفے وقفے سے جوابی پریس کانفرنس کر کے یہ ثابت کر رہے ہیں کہ ان کے پاس بھی کوئ عوامی فلاح کا کام کرنے کے لیۓ باقی نہیں رہ گیا اور وہ سابقہ حکومت سے بھی جوابی بیان بازی میں دو ہاتھ آگے ہیں۔


غرض ہر ایک عوامی نمائندہ دوسرے سے دو ہاتھ آگے ہے اور عوام کے مسائل حل کرنے کی بجاۓ ایک دوسرے کے بیانات کے جواب دینے میں مصروف ہیں۔چند برس قبل موجودہ وزیراعظم عمران خان نے سڑکیں بند کی تھیں اور عوام کو پریشان کیا تھا اب ان سے بڑھ کر وہی کام متحدہ اپوزیشن کرنے کا ارادہ رکھتی ہے جبکہ میاں نواز صاحب لندن بیٹھ کر ہی بہادری اور عوامی نمائندگی کی بڑھکیں مارنے میں مصروف ہیں۔


تمام عوامی نمائندگان بشمول حکومتی اور متحدہ اپوزیشن کے لیۓ شرم کا مقام ہے۔حکومتی نمائندوں کے لیۓ شرم کا یہ مقام ہے کہ دن بدن مہنگائ میں اضافہ اور ملازمتوں میں کمی ہوتی جا رہی ہے۔ملک سے مڈل طبقہ تقریباً ختم ہو چکا ہے۔غریب غریب تر اور امیر امیر تر ہوتا جا رہا ہے۔غریب غربت سے تنگ آ کر خود سوزیاں کررہے ہیں اور پڑھے لکھے بے روزگار افراد میں سے  کچھ وارداتیں  بھی کر رہے ہیں جبکہ حکومتی نمائندگان حکومت کا دفاع کرنے اور اپوزیشن کے ساتھ کھیل تماشوں میں مصروف ہیں۔


اپوزیشن کے لیۓ شرم کا مقام اس لیۓ ہے کہ ان کے عوامی نمائندگان کو بھی اگر عوام کا احساس ہوتا تو دھاندلی کا رونا یا اپنے حکومت میں نہ رہنے کا رونا رونے کی بجاۓ موجودہ عوامی مسائل پر اکٹھے ہوتے اور عوام کی آواز بن کر حکومت کو آئینہ دکھاتے مگر بدقسمتی سے یہاں ہر کوئ اپنے ذاتی مفاد اور کرسی کی لڑائ میں مصروف ہے۔اگر اپوزیشن کو عوام کا احساس ہو تو ان کو چاہیۓ کہ روزانہ سرکس تماشے کرنے کی بجاۓ اسمبلی میں جا کر عوام کے حقوق کی آواز اٹھائیں۔


یہ بات حکومت اور متحدہ اپوزیشن کو ذہن نشین رکھنی چاہیۓ کہ ملک محاز آرائ کا ہرگز متحمل نہیں ہو سکتا اور یہ اندرونی و بیرونی ملک دشمن طاقتوں کو موقع دینے کی بجاۓ اپنے تنازعات مل بیٹھ کر حل کریں اور ان سب کا بنیادی مقصد عوام کی فلاح و بہبود ہونی چاہیۓ کیونکہ اسی میں ملک کی بہتری اور بقا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :