
پاکستان کی معاشی گراوٹ اورعالم دیگر
جمعہ 24 ستمبر 2021

مکتوبِ جاپان۔عامر بن علی
(جاری ہے)
پاکستان آبادی کے اعتبار سے دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہے۔موجودہ صورتحال یہ ہے کہ تمام معاشی اعشاریے سرنگوں ہیں اور مہنگائی آسمان سے باتیں کر رہی ہے۔روپے کی قدراپنی تاریخ کی پست ترین سطح پر اور بے روزگاری ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح کو پہنچ چکی ہے۔معاشی شرح نموقیام پاکستان کے بعد کبھی بھی منفی میں نہیں تھی مگر گزشتہ برس یہ صفر سے بھی نیچے رہی۔کچھ مہربان موجودہ معاشی زبوں حالی کا سبب کروناوبا کو گردانتے ہیں،مگر عرض یہ ہے کہ یہی کرونا ،اسی حشرسامانی کے ساتھ سرحد کے اس پار انڈیااور بنگلہ دیش میں بھی آیا۔بنگلہ دیشی معیشت دنیا کی تیز ترین شرح نموکی حامل سات ممالک میں سے ایک معاشی حقیقت ہے۔سقوط ڈھاکہ کے وقت بنگال کی آبادی ہم سے زیادہ اور معاشی اعتبار سے پچھڑے ہوئے لوگ تھے۔آج معاملہ الٹا ہو گیا ہے۔بنگلہ دیش کی معیشت کاحجم ہم سے سو ارب ڈالر زیادہ ہے۔ان کی ایکسپورٹ ہم سے دو گنا ہوگئی ہے اور زرمبادلہ کے ذخائرپہلے تو دوگنا تھے،اس سال کئی گنا زیادہ ہو گئے ہیں۔اگر موجودہ معاشی رجحان اورسیاسی انتظام برقرار رہتا ہے توقوی امکان ہے کہ معیشت کامجموعی حجم بھی بنگلہ دیش کا ہم سے دوگنا ہو جائے گا۔
اس وقت ہندوستان کی معیشت کا حجم روس،برازیل اور کینیڈاسے بھی بڑھ چکا ہے۔بھارت پونے تین کھرب ڈالر کی جی ڈی پی کے ساتھ دنیا کی ساتویں بڑی معیشت بن گیا ہے۔آئندہ چند ہی سال میں وہ فرانس اور برطانیہ سے بھی معاشی اعتبار سے آگے نکل جائے گا،اگرمعاشی رجحان یہی رہتا ہے۔یعنی دنیا کی پانچویں بڑی معاشی و اقتصادی قوت۔یہ وضاحت یہاں ضروری ہے کہ یہ میرا ذاتی خیال ،رائے یا خواہش بالکل بھی نہیں ہے، آئی ایم ایف کے جاری کردہ اعدادوشمار ہیں۔یادرہے کہ دنیا کی پہلے تین بڑی معاشی قوتیں بالحاظ پیداواربالترتیب امریکہ،چین اورجاپان ہیں۔بھارت اس وقت چین اور امریکہ سے بھی زیادہ سرعت کے ساتھ ترقی کر رہا ہے،اس سال کی متوقع شرح نمونو فیصد جبکہ بنگلہ دیش کی موجودہ برس متوقع شرح نموہندوستان سے بھی زیادہ ہے۔یاد رہے کہ امریکہ سات فیصداورچین کی معیشت آٹھ فیصد کی شرح سے ترقی کررہی ہے۔آئی ایم ایف کے مطابق دنیا کی اوسط معاشی نموکی شرح چھ فیصد رہنے کی اس برس توقع ہے۔ہمارے ملک کے بارے میں توقع اس اوسط سے بھی آدھی،یعنی تین فیصد رہنے کی ہے۔
ہمارے ہاں عموماًامریکی عسکری قوت اور خارجہ پالیسی زیر بحث رہتی ہے مگرشاذہی امریکہ کا اقتصادی ڈھانچہ اورمعیشت کا حجم ہماری گفتگو کا موضوع بنتا ہے۔حالانکہ سچ تو یہ ہے کہ امریکی دفاعی طاقت اور خارجی معاملات میں اسکی سفارتی بے پناہ قوت کاسرچشمہ اس کی معیشت ہے۔عالمی منڈی پر امریکی کنٹرول ہے جو اس کے مخالفین کو گھٹنوں کے بل لے آتا ہے۔امریکی ڈالر اب عالمی کاروبار کی کرنسی ہے۔جب ڈالر ایک ملک سے دوسرے ملک کسی بھی بنک کے ذریعے جاتا ہے توپہلے یہ رقم نیویارک کے کسی بھی بنک میں چلی جاتی ہے،امریکی بنک اس رقم کی منتقلی کی اجازت دیتا ہے تو یہ تیسر ے ملک جاتی ہے ورنہ ترسیل ممکن ہی نہیں ہے۔امریکہ گزشتہ ڈیڑھ صدی سے دنیاکی سب سے بڑی معیشت ہے،اس وقت جس کا حجم اکیس کھرب ڈالر ہو گیا ہے۔
بات اگر عسکری قوت اور اسلحے کے مقابلے کی ہوتوسوویت یونین کسی طورپر بھی امریکہ سے پیچھے یاکمترنہیں تھا۔گزشتہ صدی کے بیشترحصے میں وہ امریکہ کے مقابلے کی دفاعی سپر پاوررہا۔سوویت یونین کے ٹوٹنے کے اسباب خالصتاً معاشی تھے۔معیشت روسی کیمونسٹوں سے چل نہیں پا رہی تھی۔ورنہ امریکہ بیس سال بعدافغانستان سے نکلاتواس کی قائم کردہ کٹھ پتلی حکومت تین ہفتے بھی نہیں نکال سکی،جبکہ سوویت یونین دس برس گزار کرجب افغانستان سے نکلا تو اس کی قائم کردہ حکومت تین سال تک بغیر کسی بیرونی امداد کے قائم رہی۔یہاں تک کہ ہمارے جنرل حمید گل نے جب جلال آباد پر حملہ کروایا توبری طرح ناکام ہوئے،حالانکہ روس تو افغانستان سے نکل چکا تھا۔اسی نسبت سے پیرپگاڑاہمارے جنرل حمید گل کو فاتح جلال آباد کہہ کربلاتے تھے مگر یہ تذکرہ پھر کبھی سہی۔سوویت یونین ٹوٹنے کے بعد منظر یہ تھا کہ روسی کسانوں نے ٹینکوں میں ترمیم کر کے انہیں ٹریکٹرکے طور پر اپنے کھیتوں میں استعمال کرنا شروع کردیا تھا۔گولے پھینکنے کے پائپ فصلوں میں نکاسی آب کے لئے استعمال ہو رہے تھے۔بکھرنے والے سوویت سماج سے نئی تشکیل پانے والی نوزائیدہ ریاستوں کے پاس اتنااسلحہ تھا کہ اسے تلف کرنامشکل ہو رہا تھا۔قازقستان کے حصے میں آئے ایٹمی اسلحے کو تلف کرنے کے لئے تو اقوام متحدہ نے باقاعدہ اسکی مدد کی ،یوں اس کا ایٹمی پروگرام ختم ہوا۔
انیسویں صدی کے سب سے عظیم جرنیل مانے جانے والے نپولین بونا پارٹ ،جنہوں نے فرانس کو بام عروج پر پہنچایا،ان کا یہ قول پوری دنیا میں نقل کیا جاتا ہے،”فوجیں پیٹ کے بل چلتی ہیں“یعنی اقتصادی وسائل اور معاشی سہولیات میسر ہوں تب ہی فوجی جوان محاذجنگ پر آگے بڑھ سکتے ہیں۔بھوکے پیٹ فوج کے لئے آگے کا سفر کرنامحال ہوتا ہے۔ہمارے وزیراعظم سمارٹ بھی ہیں اورسن بانوے کا ورلڈکپ بھی انہوں نے جیتاہے مگرمعیشت چلانے میں وہ مکمل ناکام رہے ہیں۔اپنی معاشی ٹیم میں پے در پے تبدیلیوں کے باوجوداقتصادی شعبے میں ناکامیوں کا یہی سلسلہ آگے چلتا ہوانظر آرہا ہے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
مکتوبِ جاپان۔عامر بن علی کے کالمز
-
منو بھائی کی یادیں اور باتیں
جمعہ 21 جنوری 2022
-
کس برہمن نے کہا تھا یہ سال اچھا ہے
ہفتہ 15 جنوری 2022
-
ٹیکنالوجی کے کرشمے
منگل 4 جنوری 2022
-
ایڈیسن دیوتا
منگل 14 دسمبر 2021
-
نئی سحر کی امید
بدھ 1 دسمبر 2021
-
یومِ اقبال اور جاپان
جمعہ 5 نومبر 2021
-
اس کے بغیرآج بہت جی اداس ہے
بدھ 27 اکتوبر 2021
-
میاں میررحمہ اللہ علیہ کاعرس اورحساس تقرری
جمعرات 21 اکتوبر 2021
مکتوبِ جاپان۔عامر بن علی کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.