" ایمان دار مولانا اور وزیر اعظم"

جمعہ 24 اپریل 2020

Amir Ismail

عامر اسماعیل

پاکستان اسوقت کرونا کی وبا میں بقا کی جنگ لڑ رہا ہے، ریاست کے تمام ستون اس صورت حال میں اپنی ذمہ داریاں احسن طریقے سے ادا کررہے ہیں، ہم بحیثیت مجموعی اپنی بساط کے مطابق اس کرب کی گھڑی میں اپنا حصہ پیش کرنے کی کوشش کررہے ہیں، دنیا بھر کے ممالک نے ایسی وبا کا سامنا شاید پہلی بار کیا ہے جسکا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ سپر پاور کا زعم لئے مسٹر ٹرمپ کی مارکیٹ بھی کریش کرگئی گوکہ پاکستان کی معیشت اسکا عشر عشیر بھی نہیں، اس تناظر میں وزیراعظم پاکستان کی جانب سے مختلف طریقوں سے قوم کو انگیج کرنے اور انکا اعتماد بحال رکھنے کی مکمل کوشش کی جارہی ہے، ساتھ ہی ساتھ یہاں بسنے والے عام طبقے کی مدد کیلئے پریشان و سرگرم بھی ہیں، وزیراعظم کے احساس پروگرام کیلئے ہر شعبہ ہائے زندگی نے اپنا حصہ پیش کیا ہے جسمیں ہماری جامعات، خیراتی ادارے، تاجر برادری، سرکاری و نجی کاروباری طبقہ وغیرہ  وغیرہ شامل ہیں، اسی سلسلہ کی ایک کڑی میں گزشتہ روز وزیراعظم پاکستان کی جانب سے فنڈز ریزنگ سیشن کا انعقاد کیا گیا جسمیں وہ بنفس نفیس اور مین سٹریم الیکٹرانک میڈیا کے سینئر اینکرز بھی شریک تھے، اس سلسلہ کے اختتام پر ملک پاکستان کے " ایمان دار، صالح باکردار دیانتدار، معقول اور مولانا صاحب کو دعا کے لئے مدعو کیا گیا تھا، جنہوں نے وزیراعظم کی موجودگی کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے اس بار تمام حدیں پار کی اور وزیراعظم کی شان میں قصیدہ اور میڈیا سمیت عوام کا نوحہ پیش کیا کہ بائیس کڑوڑ عوام میں کوئی ایمان دار، سچا، حیاء والا نہیں اگر کوئی ہے تو صرف عمران خان،  مولانا طارق جمیل کا یہ انداز تخاطب کوئی نیا نہیں ہے وہ سن 86ء سے اس طریق پر عمل پیرا ہیں، شاہوں سے رسم و تعلق انکا پرانا شیوہ ہے، میری عمر بہت کم ہے لیکن اللہ غریق رحمت کرے استاد محترم کو ایک بار اسی طرح سابق وزیراعظم نواز شریف کے دور میں انہوں نے شب برات کی دعا کرائی تو استاد محترم نے بتایا کہ مولانا نے یہی الفاظ قریبا پچیس سال قبل جب نواز شریف نے بطور وزیر اعلی پنجاب پہلی کابینہ کا اجلاس طلب کیا تو صوبائی وزراء سے کہے تھے، مولانا صاحب اگر رعایا مجموعی طور پر بے حیاء، بے ایمان و جھوٹی ہے تو اسکا حکمران کیسے سچا اور ایماندار ہوسکتا ہے جبکہ قرآن کا فیصلہ آپ بہتر جانتے ہیں، مولانا کا یہ انداز تخاطب سادہ لوح کو ڈی ٹریک کرنے کیلئے آسان ہے، پہلے مولانا شب برات ربیع الاول اور دیگر ایام کا انکار کرتے تھے تو اہلسنت کے ہاں نفرت سے دیکھا جاتا تھا، محرم الحرام میں اہلبیت اطہار کو موضوع نہ بناتے تو اہل تشیع برا مان جاتے تھے، توحید و شرک کا تزکرہ نہ کرتے تو اہلحدیث اور تبلیغی بھائی غصہ کرتے تھے اب مولانا عمر کے اس حصے میں ہیں کہ اب سب چلتا ہے، ٹی وی پر بیٹھ کر شب برات و ربیع الاول و معراج شریف و اہلبیت اطہار کے موضوعات پر وہ گفتگو اور رقت آمیز دعا کراتے ہیں کہ چینلز کی ریٹنگ سابقہ تمام ریکارڈ توڑ دیتی ہے اگر فنڈریزنگ ہوتو قریب 55کڑوڑ قومی خزانے میں جمع ہوجاتے ہیں، اب مولانا تقریباً تمام مکاتب فکر کو قابل قبول ہیں کیونکہ وہ سب کا تھوڑا تھوڑا دل رکھ لیتے ہیں کسی کا برا نہیں چاہتے چاہے وہ وزیراعظم ہی کیوں نہ ہو، تبلیغی سرگرمیوں سے ہٹ کر ٹاک شوز پر اکثر فنکاروں کے درمیان صلح کراتے، دلجوئی کرتے اور انہیں قریب کرتے نظر آتے ہیں، اگر آپ مولانا سے ملاقات کیلئے بےتاب ہیں تو آپکا مالدار، فنکار، کھلاڑی،بڑا سیاستدان، بزنس مین ہونا لازمی ہے عام پبلک سے وہ میل جول کم کرتے ہیں، مولانا صاحب، انبیاء کے وارث اور متبرک مسندوں پر براجمان علماء کو یہ گفتگو ذیب نہیں دیتی، آپکی نشان دہندہ باتیں درست ہیں مگر آپ نے چند سیکنڈز میں پوری قوم کو مجرم اور حاکم وقت کو بری الزمہ قرار دیکر حاکم وقت کے دربار میں تو اپنی گڈ ول برقرار رکھی ہے مگر جب فیصلے کی گھڑی آئے گی تو شاید آپ پھنس جائیں، اس لئے بطور عالم دین اپنی ڈومین پر فوکس رکھیں ایمانداری سچائی اور حیاء کے سرٹیفیکیٹ و توصیف کے لئے انکے اپنے مشیر، وزیر کافی ہیں آخر میں ایک پنجابی کہاوت کا اردو ترجمہ کہ " سارا گاؤں بھی مرگیا تو میراثی چوہدری نہیں بن سکے گا" .

..

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :