ثناء خوانِ تقدیسِ دھرنا کہاں ہیں ؟

منگل 22 اکتوبر 2019

Amjad Mahmood Chishti

امجد محمود چشتی

دھرنے ، احتجاج اور ہڑتالیں ریاست میں سیاسی ،معاشی اور سماجی عدم استحکام پیدا کرتے ہیں ۔ہمارے ہاں تو احتجاج کرنے کے اسباب اور طریقہ ہائے کار سب سے نرالے ہیں ۔ وجوہات میں ذاتی مفادات اور انائیں جبکہ طریقہ کار میں ریاستی اداروں ،شاہراہوں اور جملہ عوامی معاملات کو مفلوج کرنا شامل ہیں ۔حادثے سے بڑھ کر سانحہ یہ ہے کہ ہر ہڑتالی و احتجاجی گروہ کے پاس اپنے دھرنوں کے جائز ہونے کے جواز اور دلائل بھی ہوتے ہیں ۔

آئین کی رو سے پُر امن احتجاج شہریوں کا حق ہے مگر عوام کیلئے مشکلات پیدا کرنا اور راستوں کو بند کرنا اور مخرب الاخلاق تقاریر کرنابھی اسی آئین کی خلاف ورزی ہے ۔گذشتہ پانچ دہائیوں میں متعدد مذہبی و سیاسی دھرنے ہوئے ۔۱۹۸۰ میں اہلِ تشیع نے زکوٰة کے مسئلہ پہ اسلام آباد میں مارچ کیا اور دھرنا دیا ۔

(جاری ہے)

۱۹۹۲ میں بے نظیر بھٹو نے دھاندلی کے خلاف لانگ مارچ کیا ۔

۹۳ء میں ن لیگ کے متوالوں نے سپریم کورٹ پہ د ھاوا بولا۔ ۱۹۹۹ میں واجپائی کی لاہور آمد پہ جماعت اسلامی نے بھی دھرنے کا شوق چرایا ۔ ۲۰۰۷ میں وکلاء تحریک اور عدلیہ بحالی پہ لانگ مارچ ہوا ۔ جبکہ ۲۰۱۲ میں علامہ طاہر القادری بھی دھرنہ دینے والوں کی صف میں شامل ہوگئے ۔ تاہم ۲۰۱۴ ء میں دھرنوں کا نیا باب رقم ہوا۔ دھاندلی کی بنا پہ تحریک ِ انصاف کے ایک سو چھبیس روزہ تاریخی دھرنوں نے احتجاج کونیا رخ دیا اور ریاست کو چونسٹھ ارب ڈالر کا نقصان ہوا ۔

اس میں ریاستی اداروں پہ چڑھائی کی گئی ، غیر اخلاقی تقریریں کی گئیں اور عوام کو سول نافرمانی تک لایا گیا البتہ نوجوانوں کی امیدیں خوب بر آئیں ۔ ماڈل ٹاؤن سانحہ پہ احتجاج کے طور پہ علامہ صاحب نے بھی دھرنا دیا اور قبروں کی کھدائی اور کفن سلوا کر دھرنوں کی کیمسٹری میں جدت پیدا کی ۔۔ بیس روزہ فیض آباد دھرنے نے بھی ریاست کو مفلوج کیاگیا اور اس میں بانیء دھرنا کے غیر اخلاقی للکاروں کی گونج آج بھی سنائی دے رہی ہے ۔

یعنی قوم ِفیض آباد میں ملفوظات ِ رضویہ سے فیض حاصل کرنے میں فیض یاب ہوئی ۔ تاہم یہ دھرنا اپنے مطالبات کی منظوری پہ ضرور منتج ہوا بلکہ اوپر والے کی کرپا سے شرکائے دھرنا کو ِفیض آباد میں ملفوظات ِ رضویہ سے فیض حاصل کرنے میں فیض یاب رہی ۔۔ مستزاد یہ کہ یہ واحد دھرنہ رہا جو اپنے مطالبات کی منظوری پہ منتج ہوا بلکہ اوپر والوں کی کرپا سے دھرنے کے شرکاء کو ،، رخصتی ،، دے کر رخصت کیا گیا ۔

آسیہ مسیح کیس میں ایک پھر تحریک لبیک نے پر تشدد احتجاج کا آغاز کیا اور یہ واحد دھرنا تھا جسے ریاست نے بزور شمشیر دبا کر ملک کو بڑے نقسان سے بچا لیا ۔ اب مولانا فضل الرحمن آزادی مارچ کے نام سے مُلا بٹالین لئے دھرنا دینے کے در پے ہیں ۔اس وقت اس کی ضرورت ہے نہ ملکی صورت حا ل اس کی متحمل ہو سکتی ہے ۔ایک بار پھر مفاد او ر اناؤں کا رن پڑنے جارہا ہے ۔

تاریخ دہرائی جارہی ہے اور دھرنے والوں کے خلاف دھرنا ہونے جارہاہے ۔ جبکہ کے دھرنوں کے مخالف خود دھرنے کا اہتمام کررہے ہیں ۔ اس ہاتھ دے اس ہاتھ لے کے مصداق کیا مکافات عمل ہے کہ پانچ سال پہلے والے حریف اصول اور جگہ بدل کر پھر مقابِل ہیں ۔آج ثناء خوانِ تقدیسِ دھرنا ہی دھرنوں کو ملک دشمن قرار دے کر پاکی داماں کی حکایات دراز کر رہے ہیں ۔

اب حلال اور حرام دھرنوں کی تخصیص کی جارہی ہے ۔دوسری طرف دھرنوں کے نقاد اب دھرنوں کو خیر سمجھ رہے ہیں ۔ گویا ہر سیاسی گروہ یو ٹرن ، وی ٹرن اور اباؤٹ ٹرن لے کر بتی والے ٹرک پہ سوار ہے جس کی بتی عوام کا مقدر ہے ۔کیا اب خان صاحب حسبِ وعدہ اہلیان دھرنا کو کنٹینر فراہم کریں گے ۔ کیا اہلِ وطن میں سے کوئی بتا سکتا ہے کہ موجودہ اپوزیشن اور موجودہ حکومت کس منہ اور کس ضمیر کے ساتھ ڈی چوک کارخ کریں گی اور کس نظر سے ڈی چوک کو دیکھیں گے ؟ ۔
کلجگ نہیں کر جُگ ہے یہ یہاں دن کو دے اور رات لے
کیا خوب سودا نقد ہے اس ہاتھ دے اس ہاتھ لے

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :