خان صاحب سے کچھ بھی بعید نہیں

ہفتہ 24 اگست 2019

Ammar Masood

عمار مسعود

سچ پوچھیئے تو عمران خان کی سب سے بڑی خوبی اب تک یہی رہی ہے کہ وہ بات اس جذبے، استدالال اور تیقین سے کرتے ہیں کہ یقین کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہتا۔ لوگوں کو یہ لگتا ہے کہ یہ وہ بات ہے جو ان کے دل کی بات تھی۔ اس پر عمل پیرا نہ ہوئے تو اس قوم کا کیابنے گا؟ یہ الگ بات کہ کچھ عرصے کے بعد خان صاحب اسی بات کے برعکس بیان دے رہے ہوتے ہیں۔لیکن مجال ہے جو استدلال، جذبے اور تیقین میں کوئی فرق پڑتاہو۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ خان صاحب کے چاہنے والے ایک نئے حوصلے سے تازہ بیان پر نہ صرف یقین رکھتے ہیں بلکہ دوسروں کو بھی اسکی نصحیت کرتے ہیں۔ اس کشیدہ صورت حال کا نام کسی دل جلے نے یو ٹرن رکھ دیا ہے۔ لیکن جو لوگ خان صاحب کی محبت میں گرفتارہیں انکو ایسے ناموں سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔

(جاری ہے)

یہ انکی چھیڑ نہیں بنتی۔ چونکہ سوشل میڈیا پر خان صاحب کے ماننے والوں کے پاس کسی کی چھیڑ بنانے، کسی کو گالی دینے کے سلسلے میں ابلاغ کی کوئی کمی نہیں ہے اس لیئے ایسی معمولی باتیں انکے سر پر سے گذر جاتی ہیں۔

 
اکثر جگہ یہ سوال ہوا کہ خان صاحب کی حکومت کوماشاء اللہ ایک سال بیت گیا ہے اس ایک سال میں حکومت کے کارہائے نمایاں کیا رہے؟ کیا کامیابیاں حاصل کیں؟ کیا گل کھلائے؟ تو سچ بات تو یہ ہے کہ کوئی زریں کارنامے نہ معیشت کے میدان میں نظر آئے نہ ہی سفارتی سطح پرکوئی بڑی کامیابی انکے نام ہوئی، نہ خارجہ پالیسی کامیاب ہوئی اور نہ ہی غریب کی حالت زار پر کوئی فرق پڑا۔

نہ تھانوں کی صورت حال میں افاقہ ہوا نہ صحت کے مسائل حل ہوئے۔ نہ تعلیم کے میدان میں ہر طرف علم سے پرنورشمعیں روشن ہوئیں نہ ٹیکس کولیکشن میں کوئی امید افزاء خبر آئی۔ نہ سڑکوں کا جال بچھا نہ کوئی ڈیم تعمیر ہوا۔ نہ معاملات عدل میں کوئی بہتری ہوئی نہ کوئی قانون سازی کی طرف کوئی پیش رفت ہوئی۔ نہ اقرباء پروری ختم ہوئی نہ ہی کرپشن کا سدباب ہوا۔

نہ ادویات کی قیمت کم ہوئی نہ کسانوں کی بھلائی کے لیئے کوئی کام ہوئے۔ نہ کوئی صنعتیں لگیں نہ روزگار کے مواقع عوام کو میسر آئے۔ نہ پٹرول کی قیمت کم ہوئی نہ سبز پاسپورٹ کو لازوال عزت ملی۔
لیکن ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ سال کے تین سو پینسٹھ دن گزر جائیں اور کامیابی کا کوئی سہر ا حکومت وقت کے سر نہ ہو سکے؟ بہت سوچ بچار کے بعد ایک نقطہ ذہن میںآ یا اور وہ نقطہ کیا ہے ایک مکمل کارنامہ ہے۔

ایک انقلاب ہے ایک سونامی ہے۔ گذشہ ایک سال میں خان صاحب کی سب سے بڑی کامیابی خان صاحب کا وہ بیان ہے جس میں انہوں نے فرمایا کہ یو ٹرن لینا کوئی بری بات نہیں۔ بلکہ یہ تو سعادت کی بات ہے۔ تمام بڑے لیڈروں کی زندگی یوٹرن لیتے گزری ہے۔ جن لیڈران کا نام انہوں نے یو ٹرن کے حوالے سے لیا میرا قلم انکے نام لکھتے بھی کانپتا ہے۔خان صاحب نے جب یہ یو ٹرن والا بیان دیا تو انکے لہجے میں وہی جذبہ، تیقن اور استدلال موجود تھا جو انکی شخصیت کا خاصہ ہے۔

جس پر لوگ عاشق ہیں۔ جس سے سوشل میڈیا کے ٹرینڈز بنتے ہیں اور جس سے اخبارات اپنی شہ سرخیاں گھڑتے ہیں۔
یقین مانیئے یہ ایک بیان اس حکومت کی ایک سال کی سب سے بڑی کامیابی ہے۔ یہ بیان ایک ایسا خاص بیان ہے کہ ان چند الفاظ سے خان صاحب نے اپنے مخالفوں کو پچھاڑکر رکھ دیا ہے۔ اس ایک بیان کے بعد کسی بحث کی گنجائش نہیں رہتی۔ اب ہم ایسے تجزیہ کار خان صاحب کی کسی بات پر تبصرہ کرتے گھبراتے ہیں کہ اس سے پہلے کہ اپنا تبصرہ مکمل ہو خان صاحب اس صورت حال پر یوٹرن لے چکے ہوں اور ہم ایسے بہت سے تجزیہ کار اپنے تبصرے کے ساتھ منہ چھپاتے پھریں۔

خان صاحب کے عزیز دوست، کابینہ کے ممبران بھی ہر لمحے شک میں رہتے ہیں کہ جس بیان کا ابھی وہ دفاع کر رہے ہیں کہ اصلی والا ہے یا پھر چند گھنٹوں کے بعد انکو اسکے برعکس بات کا دفاع کرنا ہے۔اب آپ خود ہی سوچیے کہ اس ایک بیان نے کتنے مسائل کو یکدم حل پیش کر دیا۔ اب لاکھ چینلوں اور سوشل میڈیاوالے خان صاحب کے پروگراموں کے کلپ دکھائیں یا انکی پرانی تقاریر کا حوالہ دیں سب کا پتہ ایک بیان سے پانی ہو گیا ہے۔

اب آئی ایم ایف سے قرضے پر خود کشی کی بات ہو، پشاور میں دنیا کی سب سے سستی میڑو بننے کادعوی ہو، تین سو پچاس ڈیم بنانے کا وعدہ ہو، ایک کروڑنوکریاں دینے کا سوال ہو، پچاس لاکھ گھر بنانے کی بات ہو، بجلی کے بل جلانے کا اعلان ہو، سول نافرمانی کی کال ہو، عوام کے ٹیکس نہ جمع کروانے کی وجوہات ہوں،سٹا ک مارکیٹ کے ڈوبنے کا ماتم ہو، پٹرول کی بڑھتی قیمت کی وجہ ہو، ڈالر کی اڑان کا ذکر ہو، روپے کی ناقدری کا طرف دھیان ہو، ہر ہفتے اسمبلی آنے کا وعدہ ہو،احباب کو اہم عہدے نہ دینے کا عزم ہو، بڑھتی ہوئی مہنگائی کا ذکر ہو، ڈوبتی ہوئی صنعتوں کا نوحہ ہو، پنجاب میں بزدار کی وجہ تسمیہ ہو یا پھر ایم کیو ایم سے اتحاد ہو،شیخ رشید کو وفادار ساتھی کہنے کا معاملہ ہو۔

ان سب پرخان صاحب کے پہلے بیان مختلف تھے اب بیانیہ کچھ اورہے اور اس تضاد کا بہترین حل اس ایک جملے میں پوشیدہ ہے کہ بڑے لیڈر ہی یو ٹرن لیتے ہیں۔ یہ انکی میراث ہے۔یہ عظمت کی نشانی ہے۔ یہی سعادت ہے۔ یہ بزرگوں کی نشانی ہے۔ دلچست بات یہ ہے کہ مندرجہ بالا ہر ہرموضوع کے حق اور مخالفت میں خان صاحب نے ایک اچھے مقرر کی طرح خوب یوٹرن لیئے۔ یہ بھی ہو اکہ دیکھنے والے والوں کی آنکھیں چندھیا گئیں، سننے والوں کے کان تمتما اٹھے مگر خان صاحب کے جذبے استدلال اور تیقین میں ذرا بھر فرق نہیں آیا۔

اپوزیشن کی کرپشن ایک ایسا موضوع ہے جس پر خان صاحب نے ابھی تک کوئی یو ٹرن نہیں لیا۔ اس عتاب یاسیاسی انتقام کا نشانہ زیادہ تر مسلم لیگ ن بنی ہے۔ آدھی سے زیادہ جماعت جیل میں ہے مگر خان صاحب کے جذبہ انتقام کی آگ ٹھنڈی نہیں ہو رہی۔ اس مسئلے پر ابھی تک وہ اپنی طرف سے اپنے اصولی موقف پر کھڑے ہیں۔
مقدمات میں سزا ہوتی ہے یانہیں، کرپشن کا کوئی ثبوت ملتاہے کہ نہیں، عدلیہ کے فیصلے خان صاحب کے انتقام کاساتھ دیتے ہیں یا نہیں، اپوزیشن میثاق معیشت کے لیئے ہاتھ بڑھاتی ہے کہ نہیں۔

اس سے خان صاحب کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ وہ اپنے کرپشن کے بیانیئے پر قائم ہیں۔ لیکن فرض کریں صرف ایک لمحے کو فرض کریں کہ اگرنومبر تک خان صاحب اس بیانیئے پر یو ٹرن لے لیں تو کیاآپ اس پر یقین کریں گے؟ ایسا ہونا اس وقت ناممکنات سے میں سے لگتا ہے۔ لیکن خان صاحب کی تمام عمرناممکنات کو ممکنات بناتے گذری ہے ان سے کچھ بھی بعید نہیں۔ کوئی بھی شخص یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ ایسا ہو گا کہ نہیں لیکن ایک بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ اگر ایسا ہوا تو یقین مانیئے کہ ایسا کرتے ہوئے خان صاحب کے لہجے میں وہی جذنہ، استدلال اور تیقین ہو گاجو انکی کرشمہ ساز شخصیت کا خاصہ ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :