حالتِ جنگ ،کرونا اور ملکی معشیت سے لڑنا!!!!

ہفتہ 4 اپریل 2020

 Anum Malik

انعم ملک

اقوام متحدہ نے دنیا بھر میں پھیلے کورونا وائرس کو جنگ عظیم دوئم کے بعد بدترین بحران قرار دے دیا ہے۔ درحقیقت یہ کروناوائرس ہے کیا؟ وبائی وائرل امراض کے تمام ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ کورونا وائرس لیبارٹری میں انسان کا پیدا کردہ وائرس ہے،یہ قدرتی ہرگز نہیں اب اس بات میں بھی کتنی حقیقت چھپی ہے آنے والا وقت ہی اس راز سے پردہ اٹھائے گا۔

اگرچہ اس کی علامات کے مطابق یہ بخار سے شروع ہوتا ہے پھر خشک کھانسی آتی ہے۔ ایک ہفتے بعد سانس لینے میں دشواری ہوتی ہے ۔عالمی ادارہ صحت کے مطابق انفیکشن کے لاحق ہونے سے لے کر علامات ظاہر ہونے تک کا عرصہ 14 دنوں پر محیط ہے۔لیکن کچھ محققین کا کہنا ہے کہ یہ 24 دن تک بھی ہو سکتا ہے۔ واضح رہے کہ اس انفیکشن میں ناک بہنے اور چھینکنے کی علامات بہت کم ہیں۔

(جاری ہے)


 اب تک پوری دنیامیں اس کے 1،079،978 کیسز رپوٹ ہوئے ، جس میں 58،110 افراد لقمہ اجل بنے اور 227،668 افراد صحتیاب ہوئے۔ جبکہ پاکستان میں کورونا وائرس سے مزید 5 افراد جاں بحق ہوگئے جس کے بعد ہلاکتوں کی تعداد 40 تک جاپہنچی ہے جب کہ مزید کیسز سامنے آنے کے بعد متاثرہ مریضوں کی مجموعی تعداد 2583 ہوگئی ہے۔ آزادکشمیر میں مصدقہ کیسز کی تعداد 09، شہر اقتدار اسلام آباد میں 68، بلوچستان 175، گلگت بلتستان 193، خیرپختونخوا343، سندھ 783 اور 1012 کیسز کے ساتھ پنجاب سرِفہرست ہے۔


 پاکستان میں کورونا وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد میں مسلسل اضافے کے بعد ملک بھر میں 23 مارچ سے لاک ڈاؤن جاری ہے جس میں 14 اپریل تک توسیع کردی گئی ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں ایسا پہلی مرتبہ ہواجب ریاست کے حکم پر کاروبار 22 دن کے لیے بند کردیا گیا۔ حکومت کے ان سخت اقدامات کی وجہ سے روزمرہ اور دیہاڑی دار مزدور کے ساتھ ساتھ کاروبار سے وابستہ ملازم اور مالکان سب کے سب متاثر ہورہے ہیں اور کاروبار سے منسلک مقامی سپلائی چین پر بھی منفی اثرات مرتب ہونگے۔


عالمی معیشت ایک اور زوال کے دہانے پر کھڑی ہے ۔2008ء میں آنے والے عالمی معاشی بحران سے بھی زیادہ ہے اور دنیا سخت معاشی مشکلات کا شکار ہوسکتی ہے کیونکہ ایک طرف وائر س کے خوف سے عالمی تجارت رک گئی ہے جبکہ دوسری جانب پوری دنیا میں سیاحت متاثر ہوئی ہے جو کہ اربوں ڈالر سالانہ کی انڈسٹری ہے۔ دنیا کے کئی ماہرین اس سازشی تھیوری کو حقیقت قراردیتے ہیں کہ کورونا وائرس ایک حیاتیاتی ہتھیار ہے جو’’غلطی‘‘سے یا جان بوجھ کر انسانوں پر ٹیسٹ کرنے کے لیے پھیلایا گیا ہے رپورٹس کے مطابق امریکا‘برطانیہ‘اسرائیل‘چین‘روس ‘فرانس سمیت کئی ملکوں کے درمیان حیاتیاتی ہتھیاروں کی دوڑبھی کئی دہائیوں سے جاری ہے۔


راک فیلر فائونڈیشن کی ایک دستاویز میں کورونا وائرس سے بچائو کے سلسلے میں لاک ڈاؤن،کرفیو اور دوسرے اقدامات کا چند سال پہلے بالکل اسی طرح ذکر موجود ہے جیسا اب ہو رہا ہے۔دستاویز میں یہ بھی بتا دیا گیا ہے کہ دنیا کی بڑھتی آبادی تشویش ناک ہے اور کس طرح آبادی کو کم کرنے کے لیے وائرس کو استعمال میں لایا جائے گا۔خوف کے ذریعے ہر چیز بند کر کے چھوٹی اور درمیانے سائز کی صنعتوں اور کاروبار کو مکمل طور پر ختم کرنا ہے تا کہ گلوبل معیشت صرف اور صرف چند بڑی کمپنیوں کے ہاتھ میں آ جائے یا صرف وہ کاروبار کریں جو ان بڑی کپنیوںمیں ضم ہوکر ان کا حصہ بن جائیں۔


اگرچہ اسپرین استعمال سے ہر مہینے 250 افراد جان سے جاتے ہیں ،سرجری،غلط ادویات اور میڈیکل کے شعبہ سے منسلک افراد کی غلطی سے ہر مہینے 20ہزار لوگ مرتے ہیں ،فلو سے ہر مہینے39ہزار لوگ ، HIV، سے ہر مہینے 49ہزار،روڈ ایکسیڈنٹ سے 90ہزار اور ہارٹ اٹیک سمیت دل کی بیماریوں سے ہر ماہ دو ملین لوگ ابدی نیند سو جاتے ہیں۔کورونا وائرس کا خوف یقینی طور پر ذہنی دباؤ کو جنم دے رہاہے۔

اس مرض سے ہونی والی معاشی بدحالی اس غریب طبقے کی جان لےرہی ہے جو اس لاک ڈاؤن سے دو وقت کی روٹی کمانے سے بھی گیا۔ اس وقت ہر امیر اور غریب اس معاشی بدحالی سے پریشان ہے۔ یہی صورتحال رہی تو ملکی خزانہ جو پہلے ہی بیرونی امداد سے چلتا ہے مکمل طور پر ان کی بھیگ پر آپہنچے گا۔ جب ریاست کے پاس ہی دینے کو کچھ نا رہا تو ہم تو دوسروں کی غلام ہو کر رہ جائیں گے۔


یوں لگتا ہے جیسے کشمیریوں پر تو سرِعام تشدد کرکے انہیں اپنا غلام بنانے کی کوشش کی جاتی رہی ہے یہاں ہمیں آہستہ آہستہ غربت کا زہر دے کر مارا جارہا ہے اور پھر جو بچ جائیں انہیں اپنا غلام بنا لیا جائے گا۔ وزیراعظم صاحب نے بالکل درست کہا ہمیں گھبرانا نہیں ہے بلکہ اس وقت سے ڈرنا ہے جب ہم ان نہج پر پہنچ جائیں گے کہ جب ہمیں بے یارومددگار چھوڑ دیا جائےگا۔

جو کبھی روٹی کپڑا اور مکان کے نعرے لگا کر ووٹ لیا کرتے تھے ، ہمیں دینے کیلئے ان کے پاس دو وقت کی روٹی بھی نہیں ہوگی۔
جس کا عملی نمونہدیہاڑی دار مزدوروں کو ریلیف کے نام پر دینے والا چیف منسٹر انصاف امداد پروگرام ہے ۔جس میںزکوۃ کے مستحق ایک لاکھ 70 ہزار خاندانوں کی امداد کے لئے87 کروڑ روپے کے فنڈز جاری کیے گئے ہیں۔ چیف منسٹر انصاف امداد پروگرام کے لئے 10 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں -25 لاکھ مستحق خاندانوں کو 4 ہزار روپے کی مالی امداد دی جائے گی۔

وزیر اعلی پنجاب انصاف امداد پروگرام کا تمام نظام آن لائن ہے،درخواست دینے والوں کے کوائف کی تصدیق کی جائے گی اور لاکھوں لوگوں کو تصدیق کے بعد یہ امداد فوری طور پر دی جائے گی۔ درخواست گزاروں کو کسی دفتر میں نہیں آنا پڑے گا ۔آن لائن صرف نام، شناختی کارڈ نمبر اور موبائل فون نمبر کی معلومات لی جائیں گی ۔مالی امداد کی ادائیگی بھی آن لائن ہی ہو گی اوردرخواست گزار شکایات بھی آن لائن درج کرا سکیں گے۔

اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا ایک دیہاڑی دار مزدور اتنا پڑھا لکھا اور باشعور ہوگا جو اس تمام آن لائن پروسیجر کو فالو کرسکے؟ اور پھراسی حکومت کی مرہونِ منت جو مہنگائی آسمان کو چھو رہی ہے اس میں ان 4 ہزار میں آئے گا کیا؟ 2 سے 3 افراد پر مشتمل ایک گھر کے راشن کا اوسطاََ خرچہ ہی تقریباََ 12 ہزارروپے بنتا ہے تو کہاں 4 ہزار اور کہاں 12 ہزار اور پھر وہ 4 ہزار لینے کیلئے بھی آپ کے پاس آن لائن تمام سہولیات موجود ہوں، گھر پر کھانے کو روٹی ہونا ہو نیٹ ضرور ہونا چاہیئے، پھر ایک مہنگا نا بھی صحیح 10 ہزار تک کا ایک موبائل فون ہو جس پر آپ آن لائن اپنی درخواست جمع کروا سکیں، چلیں یہ بھی نہیں تو چلو ایک عاد کمپیوٹر تو ہو نا بھئی کیونکہ مارکیٹ تو بند ہیں آپ پھر درخواست کہاں سے جمع کراوئیں گے؟ مطلب صاف ظاہر ہے کہ اونٹ کے منہ میں زیرہ دینا ہے لیکن وہ بھی اس کی گردن کاٹ کر اور تو کوئی راستہ نظر دیکھائی نہیں دے رہا۔


اگر آپ کو اپنی اور اپنوں کی زندگی پیاری ہے تو حقیقت جان کر جیو، زندہ رہناہے اور بہتر زندگی گزارنی ہے تو ان تمام احتیاطی تدابیر پر عمل کریں جو آپ کو آنے والے بدتر حالات سے بچاسکتی ہیں۔ بلاشبہ لاک ڈاؤن کوئی بہتر حل نہیں اس سے تباہی ہی تباہی ہے لیکن اس حکومت کے پاس اور کوئی حل بھی نہیں۔ گھر بیٹھ کر ذراسوچئے کہ ہم کس طرح خود ان حالات سے نکال سکتے ہیں اور اپنی آنے والی نسلوں کو بہتر مستقبل فراہم کرسکتے ہیں۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس مشکل وقت سے لڑنے کی توفیق عطافرمائے اور جلد از جلد اس مشکل گھڑی سے نکالے ۔ آمین 

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :