
بھارت اور مسئلہ کشمیر
منگل 29 جون 2021

عارف محمود کسانہ
(جاری ہے)
بھارت نے جموں کشمیر پر اس وقت کوئی رعایت نہیں دی جب اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے اس حوالے سے قراردادیں پاس کیں۔ پنڈت جواہر لال نہرو جیسی شخصیت نے ایسا نہیں کیا تو اب یہ کیسے ممکن ہوگا۔ بھارت نے 1965 کی جنگ کے بعد تاشقند معائدہ میں کسی قسم بھی رعایت دینے سے صاف انکار کردیا۔ 1965 کی جنگ کے بعد تاشقند معائدہ سے قبل صدر پاکستان جنرل محمد ایوب خان نے برطانیہ کا دورہ کیا اور وزیراعظم ولسن سے ملاقات میں مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے تعاون کی درخواست کی جس پر برطانوی وزیر اعظم نے صاف انکار کردیا۔ برطانیہ سے مایوس واپس لوٹنے کے بعد وہ روس کی دعوت پر تاشقند روانہ ہوگئے۔ بھارتی وزیر اعظم شاستری سے ان کی ملاقاتیں ہوئیں۔ صدر ایوب مسئلہ کشمیر پر کچھ رعایتیں حاصل کرنا چاہتے تھے۔ بھارتی وزیر اعظم لال بہادر شاستری کے سوانح نگار پی سری واستوا نے اس حوالے سے ایوب خان اور شاستری کے مابین ہونے والے مکالمہ کو کچھ یوں بیان کیا ہے۔
ایوب: کشمیر کے مسئلے میں کچھ ایسا کر دیجیے کہ میں بھی اپنے ملک میں منہ دکھانے کے قابل رہوں۔
شاستری: صدر صاحب! میں بہت معافی چاہتا ہوں کہ اس معاملے میں آپ کی کوئی خدمت نہیں کرسکتا۔
ذوالفقار علی بھٹو نے وزیر خارجہ کی حیثیت سے پہلے ہی یہ یقین دلایا تھا کہ مذاکرات میں کشمیر کو فیصلہ کن حیثیت حاصل نہیں ہوگی اور آخر کار 10جنوری 1966 کو معائدہ تاشقند پر دستخط ہوگئے۔ 1965 کی جنگ پاکستان کی فوجی حکومت نے ریاست جموں کشمیر آزاد کرانے کے لئے لڑی اور آپریشن جبرالٹر جیسا منصوبہ بنایا لیکن حیرت یہ ہے کہ اس جنگ سے قبل آزاد حکومت ریاست جموں کشمیر کے پہلے منتخب صدر اور قائد اعظم کے سیکرٹری جناب کے ایچ خورشید آزاد کو جبری طور پر 5 اگست 1964 کو صدارت سے ہٹا کر دلائی قلعہ میں نظر بند کردیا اور جنگ کے بعد ان کی رہائی 22 جنوری 1966 کو ہوئی۔ 1971 کی پاک بھارت جنگ کے بعد معائدہ شملہ میں بھارت مسئلہ کشمیر کو ختم کرنے کے در پہ تھا اور یہی وجہ ہے کہ اندارا بھٹو مذاکرات میں بار بار تعطل آتا رہا۔ بالآخر 3 جولائی 1972 کو شملہ معائدہ ہوگیا اور بھارتی مقبوضہ جموں کشمیر اور آزاد کشمیر کے درمیان جنگ بندی لائن "سیز فائر لائن" کو "کنٹرول لائن" بنانے پر اتفاق ہوگیا۔ معائدہ تاشقند ہو یا معائدہ شملہ کسی میں بھی کشمیری نمائندے موجود نہ تھے۔ جموں کشمیر میں LOCتسلیم کئے جانے بعد آزاد کشمیر میں اہم تبدیلیاں کی گئیں جن میں 1974 کے عبوری ایکٹ کا نفاذ، کشمیر کونسل کا قیام، آزاد کشمیر فوج AKRF کی تحلیل اور پاکستان کی سیاسی جماعتوں کا آزاد کشمیر میں قیام شامل ہیں۔
5 اگست کے اقدامات کے بعد بھارت نے جموں کشمیر میں ظلم وبربریت کا بازار گرم کررکھاہے ، کشمیری رہنماؤں کو جیلوں میں ڈال رکھا ہے۔ عالمی رائے نے اس مسئلہ پر خاموشی اور چپ سادھ رکھی ہے۔ پاکستان کی موجودہ حکومت کی ایک اہم وزیر محترمہ شیریں مزاری خود اپنی حکومت کی کشمیر پر خارجہ پالیسی سے مطمئن نہیں۔ وزیرخارجہ فرما رہے ہیں کہ ان کے ذہن میں کشمیر کا خاکہ بن گیا ہے لیکن خاکے کو منظر عام پر آئے ہوئے نجانے کتنا عرصہ درکارہوگا جبکہ کشمیری یہ کہہ رہے ہیں
خاک ہو جائیں گے ہم تم کو خبر ہوتے تک
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
عارف محمود کسانہ کے کالمز
-
نقاش پاکستان چوہدری رحمت علی کی یاد میں
ہفتہ 12 فروری 2022
-
یکجہتی کشمیر کاتقاضا
منگل 8 فروری 2022
-
تصویر کا دوسرا رخ
پیر 31 جنوری 2022
-
روس اور سویڈن کے درمیان جاری کشمکش
ہفتہ 22 جنوری 2022
-
مذہب کے نام پر انتہا پسندی : وجوہات اور حل
ہفتہ 1 جنوری 2022
-
وفاقی محتسب سیکریٹریٹ کی قابل تحسین کارکردگی
جمعہ 10 دسمبر 2021
-
برصغیر کے نقشے پر مسلم ریاستوں کا تصور
جمعرات 18 نومبر 2021
-
اندلس کے دارالخلافہ اشبیلیہ میں ایک روز
منگل 2 نومبر 2021
عارف محمود کسانہ کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.