پنکی سے بی بی تک کا سفر

جمعہ 27 دسمبر 2019

Asif Mansoor Butt

آصف منصور بٹ

سابق وزیراعظم ذولقار علی بھٹو کے گھر 21جون 1953ء کو ایک ننھی بیٹی پیدا ہوئیں جس کا نام بے نظیر بھٹو رکھا گیا اور پیار سے اس کوگھر میں پنکی کے نام سے پُکارا جاتا تھا ۔ آپ سندھ کے مشہور سیاسی گھرانے میں پیدا ہوئیں ۔بے نظیر نے اپنی ابتدائی تعلیم لیڈی جننگز نرسری سکول اور کونونٹ آف جیسز اینڈمیری کراچی سے حاصل کی تھی ۔بے نظیر بھٹو نے ہاروڈ یونیورسٹی میں داخلہ لیااور 1973ء میں پولیٹیکل سائنس میں گرایجویشن کی اور اس کے بعدآکسفورڈ یونیورسٹی میں داخلہ لے لیاجہاں سے اُنہوں نے فسلفہ،معاشیات اور سیاسیات میں ایم ۔

اے کی ڈگری حاصل کرلی۔بے نظیر 1977ء میں برطانیہ سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد صرف اس سوچ سے پاکستان واپس آئیں کے وہ پاکستان میں رہتے ہوئے پاکستان کے خارجہ امور کی خدمات سر انجام دیں سکیں لیکن یہاں پہنچنے کے محض دو ہفتے بعد ہی ذولفقار علی بھٹو کی حکومت کا تختہ ایک ڈکیٹیٹرجنرل ضیاء الحق نے پلٹ دیا۔

(جاری ہے)

بے نظیر جو ابھی پاکستان لوٹیں ہی تھیں اُس کو اپنے باپ سے دور کر دیا گیا۔

1979ء کو سپریم کورٹ آف پاکستان نے سابق وزیراعظم ذولفقار علی بھٹو کو ایک متنازع کیس میں سزائے موت دے دی ۔بے نظیر بھٹو کو جیل میں بند کر دیا گیا تھا اور یہاں ہی پنکی سے بی بی تک کا سفر شروع ہو ا۔1981ء میں مارشل لاء کے خاتمے کے لیے ایم آرڈی کے نام سے اتحاد بنیایا گیا جس کی قیادت غلامصطفٰی نے کی اور دسمبر 1983ء کو اس تحریک کو ختم کر دیا گیا لیکن عوام نے اس تحریک میں اپنی جدوجہد جاری رکھی ۔

1984ء میں بے نظیر کوجیل سے رہائی ملی جس کے بعد وہ دو سال تک برطانیہ میں جلاوطنی کی زندگی گزاری اس دوران اُنہوں نے اپنی سیاسی زندگی کو اور مضبوط کیا ۔آخر کار آمریت کو ختم کرنے کے لیے پاکستان پیپلز پارٹی کے کئی سینئر رہنماؤں نے بے نظیر کوپارٹی کا سربراہ بنا دیا ۔ ملک سے آمریت کا دور کٹم ہونے کے بعد بے نظیر 1986ء کو جب پاکستان پہنچی تو آپ کا استقبال دیکھنے لائق تھا ۔

لوگوں کا ایک ہجوم صرف اور صرف بے نظیر کی ایک جہلک دیکھنے کے لیئے آمڈ آیا تھا ۔ دوردور تک صرف بے نظیر کی قیادت میں لوگوں کا ایک سمندر تھا جو نظر آرہا تھا ۔بے نظیر اپنے باپ ذولفقار علی بھٹو کی طرح ایک آلٰہ سیاسی بصیرت کی مالک ثابت ہوئیں اور اُنہوں نے لوگوں کی فلاح اور ملک کے معاشی اور سیاسی صورتحال کو بہتر کرنے کے لیے اپنا کر دار ادا کرنا شروع کیا اور یوں صرف 35سال کی عمر میں ملکِ پاکستان اور اسلامی دنیا کی پہلی خاتون وزیراعظم منتخب ہوئیں ۔

لیکن ان کی حکومت کو ناقدین اور ملک مخالف قوتوں نے زیادہ عرصہ چلنے نہ دیا اور بیس ماہ کے بعد ہی ان کی اپنی پارٹی کے صدر غلام اسحاق خان ان کی حکومت کو برطرف کردیا اور ان پر کرپشن کے کئی الزامات لگا دیئے لیکن وہ سورج ہی کیا جو اپنی روشنی سے دنیا کو روشن ہی نہ کر سکے ۔ بے نظیر بھٹو کی زندگی کے ستاروں نے ایک بار پھراپنی تیزی دیکھائی اور ملک پاکستان کی کمان آپ کو1993ء میں دوبارہ مل گئی
 اس بار بے نظیر بھٹو پہلے سے زیادہ پختہ زہنیت کی حامل سیاستدان بن کر لوٹیں تھیں ۔

لیکن اس بار بھی ملک مخالف قوتوں نے اپنی طاقت کا ایسا مظاہرہ کیا کہ 1996میں آپ کی حکومت کا تختہ ایک بار پھر اُلٹ دیا گیا۔جو ترقی کا سفر آپ کی قیادت میں پاکستان پیپلز پارٹی نے پاکستان کے لیے شروع کیا تھا ۔ وہ ایک بار پھر تھم گیا تھا اور ملک مخالف طاقتوں نے ملکِ پاکستان کے معاشی حالات کو ایک بار پھر کمزور کر دیا تھا ۔جنرل مشرف نے پاکستان میں مارشل لاء لاگیا تو قوم کی بیٹی کو ایک بار پھر جلاوطن کر دیا گیا اور سابق صدر آصف علی زرداری کو جیل میں قید کردیا گیا اور ایسے بے نظیر بھٹو کو اذیتوں میں مبطلعہ کردیا گیا ۔

بے نظیر نے پھر بھی ہمت نا ہاری تھیاور ملک سے باہر رہ کر بھی آپ مشرف کی آمریت کے خلاف آواز بلند کرتی رہتی تھیں ۔ 2007ء میں بے نظیر بھٹو ایک طویل عرصہ جلاوطنی کی زندگی گزارنے کے بعد پاکستان میں واپس آئیں تھیں ۔ لیکن دشمن کو اُن کو واپس آنا ذرہ بھی پسند نہ تھا اور وہ اس کا اظہار ھی کسی کسی موقع پر کرت رہتے تھے ۔ اور لیاقت علی باغ میں اُن کو ایک دہشتگردی کے واقع میں ملک دشمن عناصر نے اُن کو پاکستان کی ہی سرزمین میں شہید کردیا۔ چاروں صوبوں کی زنجیر کو توڑ دیا گیا تھا ۔ تاکہ دوبارہ کوئی ملک پاکستان کو ترقی کی راہ پر گامزن نہ کر سکے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :