افغانستان کا بحران ایشو نہیں رہا ؟

جمعہ 18 ستمبر 2020

Aslam Awan

اسلم اعوان

نائن الیون کی انیسویں برسی کے دن قطر کے دارالحکومت دوحہ میں انٹرا افغان مذاکرات میں پہلی بار خود افغان گروپوں کو ایک میز پہ بیٹھانے کی اہمیت تو فقط علامتی ہے کیونکہ یہی سانحہ افغانستان پہ امریکی حملہ کا محرک بنا تھا لیکن اس تازہ پیش رفت سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ افغان بحران اب عالمی ایشو نہیں رہا بلکہ بتدریج اسے ایک نوع کے لوکل تنازعہ میں ڈھال دیا جائے گا جس کے حل کی خاطر عالمی طاقتیں مقامی دھڑوں کی سہولت کاری کرتی دیکھائی دیں گی،ہفتہ کے روز مذاکرات کی افتتاحی تقریب میں امریکی وزیر خارجہ مائیک پمپیو سمیت کئی ممالک کے سفارت کاروں اور اقوام متحدہ کے اعلی عہدہ داروں کے خطبات کا لب و لباب بھی یہی تھا کہ رواں امن مذاکرات افغانستان اور خود افغانوں کے مفاد میں ہیں حالانکہ اس سے قبل امریکی مقتدرہ افغان ایشو کو اپنی قومی سلامتی اور عالمی امن کے ساتھ جوڑتی رہی۔

(جاری ہے)

اگرچہ عالمی میڈیا اور مغرب کی اجتماعی فراست ثابت یہی کرے گی کہ چار دہائیوں پہ محیط جس تنازعہ کو تحلیل کرنے کی خاطر فریقین پہلی بار بلمشافہ بات چیت پہ راضی ہوئے یہ افغانوں کا داخلی مسلہ تھا لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے،لیبیا کی طرح افغانستان بھی عالمی طاقتوں کی تزویری کشمکش کا میدان کارزار بنا اور ہمیشہ کی طرح استعماری قوتوں نے اس بار بھی اپنی کارستانیوں کے سارے وبال کو تباہ حال افغانوں کے گلے کا طوق بنا دیا۔

پیر سے شروع ہونے والے مذاکرات کے لئے جو ایشوز فریم ہوئے ان میں مستقل جنگ بندی کی شرائط،خواتین اور اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ اور طالبان کے وفادار جنگجووٴں کو غیر مسلح کرنے سمیت دیگر سیاسی امور شامل ہیں،دوحہ مذاکرات کے فریقین چند آئینی ترامیم اور شراکت اقتدار کے نئے فارمولہ پہ بھی اتفاق رائے تک پہنچنا چاہیں گے۔لیکن حالیہ مذاکرات کو کچھ لوگ امریکی انتخابات سے قبل کی بے مقصد مشق بھی سمجھتے ہیں کیونکہ امریکہ نے فروری کے جس تاریخی معاہدے پر دستخط کئے اسے امن معاہدہ کہنے سے گریز کیا،بعد میں یہ واضح ہو گیا کہ واشنگٹن نے ایسا کیوں کیا تھا،طالبان کی طرف سے بین الاقوامی فوجی دستوں پر حملے تو رْک گئے مگر افغان سکیورٹی فوسز کے ساتھ جھڑپیں جاری رہیں۔

معاہدے میں افغانستان سے غیر ملکی دستوں کے انخلا کی ابتدائی تاریخ اس بات سے مشروط تھی کہ طالبان، القاعدہ کو امریکہ اور اتحادیوں پر حملوں کے لئے افغان سرزمین استعمال کرنے نہیں دیں گے۔اسی معاہدہ میں پہلی بار طالبان اور افغان حکومت کے مابین براہ راست مذاکرات کا وعدہ لیا گیا تاکہ اس تنازعہ کو افغان لیڈر شپ کے گلے ڈالہ جا سکے اور یہی وہ مذاکرات ہیں جس سے دو دہائیوں تک چلنے والی جنگ اور ہزاروں ہلاکتوں کے سلاسل روکنے کی امیدیں وابستہ کی جا رہی ہیں۔

ان مذاکرات کو مارچ میں شروع ہونا تھا لیکن قیدیوں کی رہائی میں تاخیر رکاوٹ بنی رہی۔امریکہ طالبان معاہدے میں طے یہ پایا تھا کہ طالبان کے پانچ ہزار قیدیوں کو افغان حکومت مذاکرات سے قبل رہا کرے گی،بدلے میں سکیورٹی فورسز کے وہ ایک ہزار اہلکاروں چھوڑ دیے جائیں گے جو طالبان کی قید میں ہیں۔اس وقت افغان حکومت نے،جو امریکہ طالبان مذاکرات کا حصہ نہیں تھی،اس شرط پر اعتراض اٹھایا۔

تاہم افغان حکام کو امید تھی طالبان قیدیوں کی رہائی پر کچھ رعایت مل جائے گے لیکن طالبان نے تشدد بڑھانے کا راستہ اپنائے رکھا۔امریکہ طالبان معاہدے کا ضمیمہ، جسے تاحال عوام کے سامنے نہیں لایا گیا، کا مقصد محض جھڑپوں میں کمی لانا تھا،قابل اعتماد ذریعے کے مطابق بڑے شہروں کے سوا طالبان کو دیہی علاقوں میں کارروائیاں جاری رکھنے کی اجازت دی گئی، امریکہ کسی کیمپ یا گاوٴں میں موجود طالبان جنگجووٴں پر براہ راست فضائی حملہ کرنے کی بجائے صرف ایسی جگہوں پہ جہاں جنگ جاری ہو،کچھ فاصلے پر علامتی فضائی حملے کرتا رہا۔

اس سے طالبان کو دور دراز علاقوں میں چیک پوائنٹس پر موجود افغان سکیورٹی فورسز پر حملے بڑھانے کی کھلی چھوٹ مل گئی۔امریکی ردعمل کو جانچنے کے لئے بسا اوقات جنگجوگروہوں نے بعض شہروں میں بڑے حملے بھی کئے اور افغان حکومت کے حامی بعض رہنماوٴں کو ہدف بنا کر قاتلانہ حملے بھی کئے لیکن مشکوک طور پر کسی گروہ نے ان کی ذمہ داری قبول نہ کی، اس طرح انھوں نے افغان حکومت پر دباوٴ بڑھا دیا۔

آخرکار صدر اشرف غنی نے حراست میں لئے گئے 400 طالبان قیدی رہا کردیئے۔قیدیوں کی رہائی میں جو تاخیر ہوئی، اس کی ایک وجہ تو طالبان کے ہاتھوں قید افغان فوجیوں کی بازیابی تھی،دوسری فرانس اور آسٹریلیا نے ایسے طالبان قیدیوں کی رہائی کی مخالفت کی جو افغان شہریوں کی ہلاکتوں میں ملوث تھے تاہم امریکی تیزی سے جھنجھلاہٹ کا شکار ہوتے گئے چنانچہ تمام طالبان قیدی گذشتہ ہفتے رہا کر دیے گئے، صرف سات ایسے قیدی جو غیر ملکیوں پہ حملوں میں ملوث تھے قطر گورنمنٹ کے حوالے کئے گئے۔

تاہم اب انہی بین الافغان مذاکرات کا محور اصل امن معاہدہ ہو گا۔حکام اور یقیناً عام افغانوں کو امید ہے جنگ بندی پر اتفاق ہو جائے گا لیکن اپنے مطالبات پورے ہونے تک طالبان جنگ جاری رکھنے پر آمادہ دیکھائی دیتے ہیں۔طالبان کو تشدد ہی میں فائدہ دکھائی دیتا ہے، وہ اپنے جنگجووٴں کو ہتھیار رکھنے کی اجازت دینے کے بارے میں محتاط ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ خدشہ ہے کہ کہیں جنگجووٴں کو دوبارہ منظم کرنا مشکل نہ ہو جائے،دوسرے یہ بھی کہ کہیں یہ حریف تنظیم دولتِ اسلامیہ میں شامل نہ ہو جائیں۔

بہرحال امن کا حصول ایک مشکل ہدف ہو گا،کس طرح ایک دوسرے سے متصادم اور مقابلہ کرنے والے تصورات کو ہم آہنگ کیا جائے گا؟ ایک طرف طالبان کی بے لچک سوچ تو دوسری طرف ایسا افغانستان جو گذشتہ دو دہائیوں کے دوران زیادہ جدید اور زیادہ جمہوری بنیادوں پر استوار ہوا۔نوے کی دہائی کے وسط سے سنہ 2001 میں امریکی حملہ تک طالبان نے افغانستان کے بیشتر علاقوں پر حکومت کی،انھوں نے شرعی قوانین پر اپنی سخت گیر تشریح کے مطابق عمل کروایا۔

خواتین کے فیلڈ میں کام کرنے اور طالبات کے سکول جانے پر پابندی عائد رکھی لیکن اب طالبان کا اصرار ہے، وہ لڑکیوں کی تعلیم کے مخالف نہیں اور وہ اس بات سے بھی انکاری ہیں کہ انھوں نے کبھی لڑکیوں کی تعلیم پر قدغن لگائی تھی۔ تاہم اکثر افغانوں کو یقین نہیں آتا کہ طالبان کی سوچ تبدیل ہوئی ہے۔امن کی کوششوں پر نظر رکھنے والے سفارت کاروں کا کہنا ہے،طالبان اپنے سیاسی تصورات کو بیان کرنے میں جان بوجھ کر ابہام رکھتے ہیں،گزشتہ برس ایک انٹرویو میں طالبان کے اعلیٰ مذاکرات کار سے خاص طور پر یہ سوال پوچھا گیا کہ کیا وہ جمہوری عمل کو قبول کریں گے؟ انھوں نے کہا، وہ کچھ کہہ نہیں سکتے ’افغانستان میں کئی طرح کے طرزِ حکومت کو آزمایا گیا، کچھ لوگ اماراتی نظام تو کچھ صدارتی نظامِ چاہتے ہیں۔

اس نے مزید کہا، مذاکرات کرنے والوں کی اکثریت جو بھی چاہیے گی طالبان اسے قبول کر لیں گے۔ امریکہ طالبان معاہدے کے مطابق امریکی فورسیزکی واپسی مئی 2021 تک ممکن ہوسکے گی تاہم امریکی فوج کا انخلا اس بات کا پابند نہیں کہ افغان حکومت اور طالبان کے درمیان معاملات طے پا جائیں۔رواں صدارتی انتخاب سے قبل امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے متعدد بار عندیہ دیا کہ وہ امریکی فوج کو جلد از جلد واپس لانا چاہتے ہیں۔

انھوں نے نومبر تک امریکی فوجیوں کی تعداد پانچ ہزار تک محدود کرنے کا وعدہ کیا، یہ تعداد 2001 میں امریکی مداخلت کے بعد سب سے کم تعداد ہو گی۔بی بی سی کے مطابق ٹرمپ انتظامیہ کی اولین ترجیح طالبان سے انسداد دہشتگردی میں تعاون کی یقین دہانی حاصل کرنا تھی،خواتین کے حقوق اور انسانی حقوق کو کبھی ترجیح اول نہیں بنایا گیا۔کچھ ماہرین کے مطابق اگر ڈیموکریٹک صدارتی امیدوار جو بائیڈن نومبر میں صدر منتخب ہو گئے تو وہ امریکی انخلا کی رفتار قدرے سست کرسکتے ہیں۔

یہ شبہ بھی ظاہر کیاگیاکہ افغان صدر اشرف غنی نے شاید جان بوجھ کر قیدیوں کی رہائی میں تاخیر کی تاکہ یہ دیکھ سکے، آیا امریکی قیادت اپنے فیصلے میں کوئی تبدیلی کرتی ہے۔افغانستان سے امریکی انخلا کے ساتھ ہی طالبان کے کئی حامی یہ سمجھتے ہیں کہ وہ اب اس بات کا تعین کرنے پہ قادر ہیں کہ یہاں کس طرز کا معاشرہ قائم کیا جائے گا۔ تاحال طالبان قیادت ایسی ’اسلامی حکومت‘ قائم کرنے کی بات کر رہی ہے جس میں ’سب کی شمولیت‘ ہوگی لیکن ابھی تک یہ واضح نہیں کہ یہ کیسے ممکن ہوگا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :