غلامی سے جدید غلامی تک!!

جمعرات 5 دسمبر 2019

Atiq Chaudhry

عتیق چوہدری

انسان نے پتھر سے انفارمیشن ٹیکنالوجی تک کا جادوئی سفر طے کرلیا ہے مگر انسان کو انسان کے ہاتھوں غلام بنانے کا جرم ختم نہ ہوا بس فرق یہ ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ اس غلامی کی قسمیں بدل گئیں ۔غلامی صرف جسمانی غلامی ہی نہیں ہے بلکہ فکری غلامی اور سوچ کی غلامی بھی ہے ۔جسمانی غلامی اتنی خطرناک نہیں ہوتی جتنی ذہنی غلامی ہوتی ہے ۔

واصف علی واصف نے کہا تھا کہ سوچ کی غلامی جسم کی غلامی سے زیادہ بدتر ہوتی ہے ۔علامہ محمد اقبال نے بھی اسی طرف اشارہ کیا ہے
تھاجونہ خوب بتدریج وہی خوب ہوا
کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر
آزادی انسان کا بنیادی حق ہے اور انسان کی سب سے بڑی قوت اس کی ذہنی و فکری آزادی ہے ۔جب امریکہ میں غلامی عروج پر تھی تو ایک ہئیریٹ نامی خاتون نے خفیہ تنظیم بنائی جوغلاموں کوبھاگ جانے میں مددکرتی تھی ایک بار اس خاتون سے کسی نے پوچھا کہ تمہارے اس مشن میں سب سے مشکل مرحلہ کون سا ہوتا ہے تواس نے جواب دیا تھا ’غلام کو ترغیب دیناکہ تم غلام نہیں ہو تم آزاد ہوسکتے ہو‘اس خاتون کے جواب سے اندازہ ہوتا کہ
بیڑیاں پاؤں میں نہیں ہوتیں
لوگ ذہنی غلام ہوتے ہیں
غلامی کے خلاف جدوجہد کے حوالے سے لکھی جانے والی ایک غلام ابن غلام کی روم میں عظیم بغاوت کی داستان جسے ہاؤورڈفاسٹ نے لکھا ہے ۔

(جاری ہے)

پہلی صدی قبل از مسیح میں ایک جنگجو سپارٹکس اور تقریبا ایک لاکھ غلاموں نے روم کے خلاف بغاوت کردی لیکن انہیں کامیابی نہیں ملی مگر اس بغاوت نے سلطنت روم کوتہہ وبالا کردیا تھا ۔آزادی تو اسی وقت مل گئی تھی جب سپارٹکس نے کہاتھا ”میں آزاد ہوں “ ۔اس بغاوت نے غلاموں کے طوق ایک جھٹکے سے دور پھینک دئیے تھے اور پاؤں کی زنجیریں توڑ کر روم کے آقاؤں پر ایک کاری ضرب لگائی کہ وہ بلبلا اٹھے تھے ۔

اسی لئے تو غلاموں کی جدوجہد کی تاریخ میں سپارٹکس کا نام ہمیشہ چمکتا رہے گا ۔ تاریخ کے مشہور آمر حکمران ایڈولف ہٹلر نے کہاتھا ”ہم جیسے حکمرانوں کولوگوں پر حکومت کرنے کاموقع آسانی سے مل جاتا ہے کیونکہ اکثر لوگوں کے پاس سوچ اور فکر نہیں ہوتی ۔لیو ٹالسٹائی جن کا شمار روس کے عظیم مصنف اور دنیا کے مشہور انشاپردازوں میں ہوتا ہے ۔دنیا بھر میں کسی بھی زبان میں لکھی جانے والی ادبی کتابوں کی فہرست ٹالسٹائے کے دو ناولوں ”وار اینڈ پیس ‘ اور ایناکارینیا‘کے بغیر نامکمل تصور کی جاتی ہے ۔

اپنے شہرہ آفاق ناول میں ذہنی غلامی کے بارے میں کہاہے کہ ”اگر جیل کے قیدیوں کو اپنی مرضی سے جیلر کے انتخاب کاحق مل جائے تو وہ آزاد نہیں ہوجائیں گے قیدی ہی رہیں گے“ ۔ٹالسٹائی کایہ ناول نپولین کے دور میں روس پر ہونے والے فرانسیسی حملے ،جاگیردارانہ نظام ،ناانصافی اور مظالم کی کہانی ہے اور تاریخ کے بارے میں اپنے نظریات وتاریخی صداقت بیان کرتے ہوئے حکمرانوں ،جرنیلوں کے بارے میں کہا کہ یہ سب تاری کے غلام ہیں ۔

اس ناول کا دنیاکی سو زبانوں میں ترجمہ ہوچکاہے ۔تاریخ سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ جنگوں کے ذریعے قوموں کو بڑی آسانی سے غلام مل جاتے تھے ۔مثال کے طور پر مصری بادشاہ توتمس سوم ملک کنعان سے جنگ کے بعد 90 ہزار لوگوں کوقیدی بناکر مصر لے آیا تھا ۔مصریوں نے ان قیدیوں کواپناغلام بنالیا اور پھر ان سے کانوں میں کام کروایا ،مندر تعمیر کروائے اور نہریں کھدوائیں ۔

مورخین نے لکھا ہے کہ غلاموں کے حصول کے لئے بہت سی جنگیں بھی لڑی گئی ہیں ۔ایک اندازے کے مطابق پہلی صدی عیسوی تک شہر روم کی تقریبا آدھی آبادی غلاموں پر مشتمل تھی ۔وقت گزرنے کیساتھ ساتھ غلاموں کی زندگی بدتر ہوتی گئی اور سولہویں صدی سے انیسوی صدی تک افریقہ اور امریکہ کے درمیان غلاموں کی تجارت بہت منافع بخش کاروبار تھا ۔اس کے علاوہ اٹھارویں صدی عیسوی میں کیرئیبین جزائر کے ایک جزیرے ہسپانیولا میں غلاموں نے اپنے مالکوں کے خلاف بغاوت کردی کیونکہ ان کے مالک ان پر ظلم کرتے تھے اور گنے کے کھیتوں میں جبری کام کرواتے تھے ۔

اوراسی وجہ سے طویل خانہ جنگی ہوئی مگر1804 میں ہیٹی ایک آزاد ملک کے طور پر وجود میں آگیا ۔جب اقوام متحدہ نے غلامی کو انسانی حقوق کے عالمی منشور میں کلیتاََ ممنوع قرار دیاتو اس سے کچھ عرصہ پہلے تک امریکہ میں بھی غلامی کا سلسلہ قائم تھا ۔صفحہ صفحہ لکھتے ہزاروں برس بیت گئے ہم اکیسویں صدی تک پہنچ تو گئے ہیں مگر غلامی سے مکمل نجات نہیں کرسکے ہیں ۔

تھامس روئیٹرز فاؤنڈیشن کی رپورٹ کے مطابق آج کی بظاہر جدید ،ترقی یافتہ اور باشعور دنیامیں کم ازکم بھی چار کروڑ انسان ایسے ہیں جو جدید غلامی کی زندگی گزار رہے ہیں اور ان کی تعد اد میں مسلسل اضافہ ہورہاہے ۔
انسداد غلامی کے عالمی سطح پر کوشاں ”واک فری “ نے جدید غلامی کی مختلف اشکال میں ان افراد کوبھی شامل کیا ہے جن سے زبردستی مزدوری کروائی جاتی ہے ،جن کی زندگیاں قرض کے عوض رہن رکھی جاچکی ہیں ،جوانسانی سمگلنگ کے لئے استعمال کیا جاتا ہے اور انہیں پیسوں کے عوض سیکس ورکر بنایا جاتا ہے یا پھر غلام بنانے کے لئے شادی کرلی جاتی ہے ۔

اس کے علاوہ ماڈرن سلیوری بھی ترقی پذیر ملکوں میں عام ہے سیاسی غلامی بھی ماڈرن سلیوری کی ایک شکل ہے ۔جس میں افراد سے سیاسی فیصلے کرنے اور حکمران چننے ،اپنی تقدیر کے فیصلے کرنے ،ملک وقوم کی بارے میں سوچنے سمجھنے کی صلاحیت چھین لی جاتی ہے ۔علامہ اقبال نے کہاتھا کہ
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارا
اقبال نے ہر فرد کو ملت کی تعمیر وترقی میں اپناکردار اداکرنے کادرس دیا تھا جس کامقصد تھا خودانحصاری وذہنی آزادی کے ساتھ حصول منزل کے لئے جہد مسلسل ۔

قوموں کو عروج اسی وقت ملتا ہے جب وہ ذہنی طور پر آزاد ہو۔سیاسی امور کے مفکرین کے مطابق جغرافیہ ،فوجی طاقت ،معاشی طاقت ،آبادی ،انڈسٹریل صلاحیت ،قومی کردار اور حوصلہ ایسے عوامل ہیں جن سے قومی طاقت کو ناپا جاسکتا ہے ۔ان سب میں قوموں کاکردار اور حوصلہ سب سے اہم ہے ۔اگر کسی قوم میں منزل کی جستجو،منزل تک پہنچنے کی سچی لگن،قومی حمیت وغیرت ،فلسفہ خود انحصاری پر یقین محکم اور جہد مسلسل نہیں ہے تو وہ قوم کبھی عروج ثریا تک نہیں پہنچ سکتی ۔

واصف علی واصف نے دریاکو کوزے میں بند کیا ہے ”غلام کو غلامی پسند نہ ہوتو کوئی آقا پیدا نہیں ہوتا “۔یہی بات فرد اور قوم دونوں پر سچ ثابت ہوتی ہے ۔چونکہ غلامی روز روشن میں شب تاریک کاتسلط ہے ،غلامی نوع بشر کوجانوروں سے بھی بدتر کرنے کاعمل ہے اور غلامی دوسروں کی خوشی کے لئے اپنی مسرتیں پامال کرنے کی رسم قدیم ہے ،غلامی آقاؤں کی خوشنودی اور اپنی فکری خودکشی کی مذموم حرکت ہے ۔

کیونکہ بقول اقبال
بھروسہ کرنہیں سکتے غلاموں کی بصیرت پر
کہ دنیامیں فقط مردان ُحر کی آنکھ ہے بنیا
آج وطن عزیز پاکستان کے حالات پر نظر ڈالیں تو ہم فکری ونظریاتی و ذہنی غلامی کا شکار ہیں جس مقصد کے لئے پاکستان حاصل کیا گیاتھا وہ پاکستان کہیں نظر نہیں آرہا جس کو فیض احمد فیض نے خوبصورت پیرائے میں لکھا ہے
یہ داغ داغ اجالا یہ شب گزیدہ سحر
وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ توسحر نہیں
پاکستان جن بحرانوں کا شکار ہے اور قوم کا حال دیکھ کر اکبر الہ آبادی کی طرح ہم آہ زاریاں ہی کرسکتے ہیں
آعندلیب مل کر کریں آہ وزاریاں
توہائے گل پکار میں چلاؤں ہائے دل
مگر ان غلامی کی زنجیروں کو توڑا بھی جاسکتا ہے تاریخ عالم گواہ ہے کہ قوموں نے کیسے عروج حاصل کیا ۔

جاپان کی مثال ہی دیکھ لیں ناگاساکی اور ہیروشیماکی تباہی کے کچھ سالوں بعد دنیا کی معاشی طاقت بن کر ابھرا ۔چین جس کو افیمیوں کا ملک کہاجاتا تھا آج دنیا کی دوسری بڑی سپرپاور ہے ۔جرمنی ہارنے کے باوجود دودہائیوں کے بعد دنیا سے ٹکر لینے کوتیار ہوگیا تھا ۔شمالی کوریا کے انقلابی رہنما کم ال سنگ نے فلسفہ انقلاب بعنوان ’جوجے “ یعنی خودانحصاری سے ترقی و عروج کا راز تراشا ہے ۔

یہی خود انحصاری ہے جس کوعلامہ محمد اقبال نے خودی کہاتھا ۔یہی آزادی ہے یہی مساوات کا درس ہے اور ذہنی غلامی کی زنجیریں توڑنا ہی اصل آزادی ہے مگر اس وقت ملک میں سوچوں پر پہرے بٹھانے کی کوشش ہورہی ہے شخصی آزادیاں محدود کی جارہی ہیں ،میڈیا پربھی غیر اعلانیہ پابندیاں ہیں یہ سب آج کے جدید دور میں پتھر کے زمانے میں دھکیلنے کی ناکام کوشش کیوں ہورہی ہے ؟
یہ دستور زبان بندی ہے کیسا تیری محفل میں
یہاں تو بات کرنے کوترستی ہے زبان میری
عوام بھی ملک سے محبت اسی وقت کرتے ہیں جب انہیں معیاری بنیادی سہولیات حاصل ہو،سماجی ومعاشی اور معاشرتی انصاف کا بول بالاہو ۔

وہ سب آزادیاں جو کسی آزاد ملک میں آزادقوم کوہواکرتی ہیں ۔آزادی ایک نعمت ہے اسے ہر حال میں برقرار رکھنا زندہ قوموں کی علامت ہوتا ہے ۔آج قوم کو ایک دیدہ ور کی تلاش ہے جو قوم کی رہنمائی کرسکے اور دیدہ وروں کی قوم بناسکے ۔معاشرے سے جہالت کا خاتمہ کرکے قوم کو فکری شعور وآگاہی دے سکے مگر یہ سفر بہت کٹھن ہے بقول فیض احمد فیض معاملہ کچھ یوں ہے
ہاں جان کے زیاں کی ہم کو بھی تشویش ہے لیکن کیا کیجئے
جورہ بھی ادھر کوجاتی ہے مقتل سے گزر کر جاتی ہے
قوم کی نام نہاد قائدین ،پالیسی سازوں ،اقتدار کی غلام گردشوں میں حکمرانی کے مزے لوٹنے والے رہبروں سے یہی التجا ہے
وطن سے بلاؤ کوٹالوتومانیں
اسے دشمنوں سے بچاؤتومانیں
بدیسی خداؤں کے ہاتھوں سے پہنا
یہ طوق غلامی اتاروتومانیں
اندھیروں میں ڈوبا ہمارا وطن ہے
امیدوں کوپھر سے جگاؤ تومانیں
گرانی گھٹاؤغریبی مٹاؤ
کوئی معجزہ کردکھاؤ تومانیں
بہت لڑ چکے دوسروں کی لڑائی
ہمیں یہ لڑائی جتاؤ تو مانیں

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :