مہنگا نظام انتخاب حقیقی جمہوریت کے راستے کی رکاوٹ ۔ جمہوریت کے تضادات ۔قسط نمبر3

جمعہ 13 مارچ 2020

Atiq Chaudhry

عتیق چوہدری

پاکستان میں جمہوریت وقانون کی بالادستی ،صاف شفاف اور غیر جانبدرانہ انتخابات کے نعرے توگونجتے رہے اور دعوے بھی کئے گے لیکن اصل روح کے مطابق جمہوری پارلیمانی نظام نافذ نہیں کیا گیا اور نہ ہی آئین پاکستان کے مطابق فری اینڈ فئیر الیکشن کاخواب پورا ہوا۔جمہوریت وجمہوری پارلیمانی روایات ساری دنیا سے نرالی ہیں اس ملک میں ہر ایک نے جمہوریت کے دعوے کئے ،آمریت کے خلاف تقاریر کیں ۔

لیکن عملا ایک طبقہ کی حکومت قائم کرنے اور اسے برقرار رکھنے کے لئے تمام تر غیر جمہوری و غیر آئینی ایسے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کئے گے جن کوئی مہذب و جمہوری معاشرہ اجازت نہیں دیتا ۔گویا جمہوریت کا نام لیکر جمہور کے حقوق پر ڈاکہ مارا جاتا ہے ۔یہ بات درست ہے کہ یہ ملک ووٹ کی طاقت سے بنا تھا اور اس طاقت پر اسے قائم رکھا جاسکتا ہے ۔

(جاری ہے)

مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہر الیکشن کے ہارنے والی جماعت دھاندلی کا الزام کیوں لگاتی ہے ؟ الیکشن کا پورا پروسیس اتنا مہنگا ہوگیا ہے کہ عام آدمی اس نظام میں الیکشن لڑ ہی نہیں سکتا تو جس اجارہ دارانہ نظام انتخابات Monopolistic Electorol system میں عام آدمی الیکشن نہ لڑ سکے اس میں اصلاحات کے بغیر ملک میں صحیح عوامی جمہوریت آسکتی ہے جس جمہوریت کاہم دعوی کرتے ہیں ۔

قومی اسمبلی کا الیکشن لڑنے کے لئے 15 سے 20 کروڑ روپے کی خطیر رقم چاہئے اسی طرح صوبائی اسمبلی کا الیکشن لڑنے کے لئے دس کروڑ سے زائد رقم ،خاندان برادری ،دھن ،دھونس اوردھاندلی کا فن چاہئے تب جا کر آپ الیکشن لڑنے کے قابل ہوسکتے ہیں ۔الیکشن کمیشن نے اخراجات کی جو حد مقرر کی ہے اتنا خرچہ تو امیدوار ایک دن میں کردیتے ہیں مگر الیکشن کمیشن ضابطہ اخلاق پر عمل درآمد کروانے میں مکمل ناکام رہا ہے ۔

اسی کو کتاب میں ۔۔۔۔۔۔
اقوام متحدہ کی کی جنرل اسمبلی کی قرارداد میں جمہوریت کی تعریف اور نظام انتخاب کے بارے میں دو شرائط دی ہیں پہلی الیکشن پراسیس Genuine ہو یعنی انتخابات صحیح معنوں میں عدل وانصاف پر مبنی اور شفاف طریقے سے ہوں دوسری اہم شرط لوگ اپنا حق رائے دہی آزادانہ طریقے سے استعمال کرسکتے ہو ں ۔ وطن عزیز میں آزادانہ حق رائے دہی کہاں ہے ؟ایک طرف جاگیردار اوروڈیرے ہیں ،ایک طرف سرمایہ دار و مال دار ہیں اور ان کو طاقتور بیوروکریسی و اسٹیبلیشمنٹ کی حمایت بھی حاصل ہوتی ہے ۔

یہ ایک nexics ہوتا ہے جو طبقہ اشرافیہ کے باہمی مفادات کا محافظ ہوتا ہے یہ سب ایک دوسرے کو تحفظ دینے کے ساتھ پرموٹ کرتے ہیں ۔ میڈیا بھی اپنے مخصوص مفادات کی خاطر انہیں لوگوں کو تحفظ فراہم کرتا ہے ۔ اس سارے مرحلے میں اگر کسی کواہمیت نہیں دی جاتی ماسوائے الیکشن والے دن ووٹ کاسٹ کرنے کے تو وہ ہیں عوام ،اس نظام کی سب سے بڑی اسٹیک ہولڈر98 فیصد غریب عوام ہوتی ہے جس کی اس نظام میں کوئی شراکت ہی نہیں ہے ۔

اسی status quo کو تحفظ دینے کے لئے سیاسی جماعتیں انتخابی اصلاحات میں سنجیدہ نہیں ہیں ۔ماسوائے زبانی جمع خرچ کے آج تک انتخابی اصلاحات کے لئے سنجیدہ عملی اقدامات نہیں کئے گے جس کی وجہ سے انتخابات کا پورے پروسیس پر سوالات اٹھ رہے ہیں مگر ارباب اختیارواقتدار کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی ۔پاکستان میں ہمیشہ سے ہی یہ رہاہے کہ انتخابات کے نتائج خوش دلی یا کھلے ذہن سے قبول نہیں کئے جاتے ۔

ہارنے اور جیتنے والی سیاسی جماعتیں دونوں ہی دھاندلی اور بے قاعدگی کے الزامات عائد کرتی ہیں یہ ہمارے سیاسی کلچر کا حصہ بن چکا ہے ۔ اب تک ہمارے ہاں جتنے بھی الیکشن ہوئے اس میں یہی الزامات دہرائے جاتے رہے ہیں ۔
انتخابات سے جڑا ایک اور اہم مسئلہ یہ ہے الیکشن منشور کی بجائے شخصیات پر ہوتا ہے ۔کہتے ہیں کہ اس خطہ میں بسنے والے لوگ ”ہیروورشپ “ کرتے ہیں وہ ایک شخصیت کو ہیرو بنا کر اس کو مسیحا سمجھ لیتے ہیں اور پھر اس کی اندھی حمایت شروع کردیتے ہیں ۔

اس کی وجہ سے اس خطہ کے مختلف ممالک میں چند خاندانوں کی حکمرانی رہی ہے اور اب بھی قائم ہے ۔ذوالفقار علی بھٹو کی وجہ سے آج بھی پیپلزپارٹی کوووٹ ملتا ہے اسی طرح اب عمران خان کی مثال بھی ہمارے سامنے ہے ۔تحریک انصاف کے ورکرز وچاہنے والے عمران خان کے منشور پر کوئی بات کرنے کی بجائے صرف عمران خان کی خوبیوں پر بات کرتے ہیں اور ان پر تنقید کریں تو بہت سخت ردعمل دیتے ہیں۔

قیام پاکستان سے لیکر اب تک بہت سے حلقوں میں جو لوگ اقتدار میں تھے آج بھی ان کے رشتہ دار ہی اقتدار میں ہیں یہی لوگ معاشی ،سیاسی وسماجی طور پر مضبوط ہیں ۔اب یہ عوام سے زور زبردستی بھی ووٹ لے لیتے ہیں اور انہیں کوئی روکنے ٹوکنے والا نہیں گوکہ سوشل میڈیا کے آنے کی وجہ سے اب عوام میں شعور آرہا ہے مگر اس نظام میں یہ لوگ اتنے طاقتور ہیں کہ کوئی ان کو پوچھ نہیں سکتا ۔

خاندانی سیاست کا جائزہ لینے کے لئے اگر ہم تاریخ دیکھیں تو جو شخصیات 1946 میں مرکزی وصوبائی اسمبلیوں میں منتخب ہوکرآئے تھے ،ان کے پوتے ،نواسے ،نسل در نسل ممبر چلے آرہے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ ملک میں جمہوری ادارے مضبوط ومنظم نہیں ہوئے ۔جاگیردار،زمیندار ،سرمایہ دار اور بڑی بڑی خانقاہوں کے سجادہ نشین سیاست پر قابض ہیں ۔اگرچہ متوسط طبقے کے چند افراد منتخب ہوجاتے ہیں تو انہیں بھی اپنی بقاء کے لئے ان پیرو ں ،سرمایہ داروں ،وڈیروں اور سرداروں کی چھتری تلے پنا لینی پڑتی ہے ۔

بنظر غائر جائزہ لیں توچند خاندان ہیں جن کے گرد پوری سیاست گھومتی ہے ذوالفقار علی بھٹو اور ان کا خاندان ، میاں نوازشریف اور ان کا خاندان ، گجرات کے چوہدری برادران ، پیر صاحب پگارواور مخدوم میران شاہ کا خاندان ،کے پی سے غفار خان اور ڈاکٹر خان کا خاندان ،مولانا فضل الرحمن و ان کا خاندان ، محمود خان اچکزئی و انکا خاندان ، اسی طرح بلوچستان وسندھ کے سرداروں کے خاندان ، پنجاب میں بڑے زمینداروں و پیروں کے خاندانون کے گرد پوری سیاست گھومتی ہے اور عوام اس میں محض تماشائی ہیں ۔

یہی خاندان ملک کی قسمت وتقدیر کے فیصلے کرتے ہیں وہ سیاسی ہو یا معاشی ۔ سب سے اہم سوال یہ ہے کہ آج تک ملک میں حقیقی جمہوریت کیوں قائم نہیں ہوسکی ؟ سب سے اہم سوال یہ کہ اتنے انتخابا ت ہونے کے بعد ہم الیکشن کے نظام کو دھن ،دھونس و دھاندلی سے پاک کیوں نہیں کرسکے ؟ کیا الیکشن کے نظام کو بہتر بنائے بغیر ملک میں حقیقی جمہوریت آسکتی ہے تو اس سوال کا جوان نفی میں ہے کہ نظام انتخاب میں اصلاح کے بغیر ملک میں حقیقی عوامی شراکتی جمہوریت نہیں آسکتی ۔

غیر شفاف انتخابات کے نتیجے میں قائم ہونے والی حکومت عوام کے دکھوں کا مداوا کرسکے گی ؟ اور عوام کا اس نظام پر اعتماد کتنا ہے یہ بھی اہم مسئلہ ہے مگر ہم نے آج تک اس پر توجہ مرکوز ہی نہیں کی یا تجاہل غافلانہ برتی ہے ۔ کیو نکہ محض پانچ سال کے بعد الیکشن کروادینا تو جمہوریت نہیں ہے یہ تو ایک پورا پروسیس ہے ۔جمہوری سوچ واقدار ہیں اگر وہ سب پوری ہوں تو ملک میں حقیقی جمہوریت آئے گی ۔

قصور صرف سیاستدانوں کا نہیں ہے عوام کا بھی ہے کہ جب ان کو ووٹ کا حق دیا جاتا ہے تووہ اس کاصحیح استعمال کیوں نہیں کرتے جب وہ پولنگ اسٹیشن کے اندر اکیلے ہوتے ہیں تو اس وقت اپنے ضمیر کے مطابق صحیح اہل وقابل امیدوار پر مہر کیوں نہیں لگاتے ؟ذات ،برادری ،تعصب اور جذبات سے بالاتر ہوکر ووٹ ڈالیں گے تو اس دن سے ملک میں حقیقی قیادت ابھرے گی اور جمہوریت بھی ثمرات لائے گی جو ترقی یافتہ ممالک میں لارہی ہے ۔

قوم اگر ووٹ ذاتی تعلق وذاتی مفادات،نسلی ،لسانی ،مسلکی اور مذہبی تعصبات کی بنا پر دے گی تو منتخب ہونے والے حکمران بھی ملک وقوم کی بجائے ذاتی مفاد کومقدم رکھیں گے ۔برطانیہ کی جمہوریت جس کو ”جمہوریت کی ماں “ کہا جاتا ہے ہم اس کی مثال دیتے ہیں تو وہاں کی قوم بھی جرات کے ساتھ فیصلہ کرتی ہے مثلاونسٹن چرچل نے دوسری جنگ عظیم میں اتحادی افواج کی قیادت کی تھی لیکن ابھی جنگ ختم نہیں ہوئی تھی کہ جولائی 1945 کے انتخابات میں اس کے ہم وطنوں نے اسے اقتدار سے چلتا کردیا ۔

جب ان کو Order of the Garter پیش کیا گیا توانہوں نے کہا کہ جب قوم نے ان کووزارات عظمی کے قابل نہیں سمجھا تو وہ کسی اور اعزاز کو کیوں قبول کریں ؟تو بلاآخر فیصلہ قوم کو ہی کرنا پڑتا ہے تب جا کر جمہوریت کا راستہ ہموار ہوتا ہے ۔الیکشن میں اگر قوم کا غلط فیصلہ کردے تو اس کا خمیازہ پوری قوم کو بھگتنا پڑتا ہے کیونکہ عام انتخابات اصلی ہو،جعلی ہویا انجئیرڈ ملک کی معاشرتی زندگی میں کوئی نہ کوئی تبدیلی ضرور لاتے ہیں ۔

جمہوریت تو کہتے ہی اس نظام حکومت کو ہیں جس میں محکوم اپنے حکمرانوں کو اور ووٹر اپنے نمائندوں کو کنٹرول کرسکیں ۔جمہوریت کے لئے ضروری ہے کہ شہریوں کا انداز نظر جمہوری ہو،طریقہ کار جمہوری ہو،طرز حکمرانی جمہوری ہو اور نظام میں مکمل شفافیت ہو جو پاکستان میں کہیں نظر نہیں آتی ۔یہ نظام جمہوریت کی بجائے مجبوریت بنتا جارہا ہے ۔نظام میں لوگوں کی شراکت گراس روٹ لیول سے لیکر ٹاپ لیول تک ہو ۔

ترقی پذیر جمہوری ممالک میں اس سے مراد یہ لیا جاتا ہے کہ ملک کے پالیسی سازوں پر عوام کو مواخذے کا حق ہواور پالیسی ساز جب پالیسیاں بنائیں تو ان پالیسیوں کوعوام چیلنج کرسکیں ۔ہمارے ہو تو آوے کا آوہ ہی بگڑا ہوا ہے ۔ہمارے ملک میں تو الیکشن صرف الیکٹیبلز تک محدود ہو کررہ گیا ہے وہ وننگ ہارسز عوام کوگاڑیوں پر بٹھا کر پولنگ اسٹیشن لاتے ہیں اور سماجی دباؤ کے تحت اپنے اپنے پسندیدہ انتخابی نشان پر مہر یں لگوائی جاتی ہیں اور ووٹ لیکر پھر عوام سے ان کا کوئی تعلق واسطہ نہیں ۔ جب پانچ سال کے بعد دوبارہ الیکشن ہوتا ہے تو یہ دوبارہ عوام کو سبز باغ دیکھا کر ووٹ لے لیتے ہیں ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :