قول وفعل کا تضاد!!!

پیر 8 اپریل 2019

Ayesha Noor

عائشہ نور

 جب عمران خان حزبِ اختلاف میں تھےتوسابق وزیراعلیٰ  پنجاب  شہبازشریف اور سابق وزیر قانون پنجاب  راناثناءاللہ کوقاتل قراردےکر ان سے   مستعفی ہونےکامطالبہ بھی کرتےتھے    ۔عمران خان نے 18وزیراعظم بننے کےبعد  اگست 2018 کو  28 ستمبر 2018 اور 20 ستمبر 2018 کو   ڈاکٹر طاہرالقادری سےدو مرتبہ  ٹیلیفونک رابطہ کیا اور شہدائےماڈل ٹاون کے لواحقین سےکیے اپنے وعدوں کا اعادہ  کیا اور وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار  کو اقدامات کی ہدایات  جاری کیں ۔

یہ واقعی ایک خوش آئند بات تھی  , ماڈل ٹاون کیس تبدیلی سرکار کے لیے ایک ٹیسٹ کیس قرار پاچکاتھا۔  وزیراعظم عمران خان نےعوامی تحریک کا دیرینہ مطالبہ پورا کرتے ہوئے ماڈل ٹاون کیس میں نامزد اعلیٰ افسران کو  عہدوں سے ہٹانے کا حکم  جاری کر دیا۔

(جاری ہے)

مگر اس کے بعد رفتہ رفتہ اربابِ اختیار سانحہ ماڈل ٹاون کو بھولنے لگےہیں ۔ سانحہ ماڈل ٹاون میں ملوث ایک ملزم میجر ریٹائرڈ اعظم سلیمان کو وفاقی سیکرٹری داخلہ تعینات کردیا گیا۔

میجر ر اعظم سلیمان چونکہ ماڈل ٹاون کیس میں ایک نامزد ملزم ہیں ۔ لہذٰا ان کی نامزدگی پر عوامی تحریک کے سیکریٹری جنرل خرم نواز گنڈاپور نے وزیراعظم عمران خان ایک خط لکھا اور اپنے تحفظات کا اظہار کیا تھا مگرخط پر کسی قسم کا حکومتی ردعمل سامنے نہیں آیا اور میجر ر اعظم سلیمان کو وفاقی سیکرٹری داخلہ تعینات کردیا گیا۔ اس کے کچھ عرصہ بعد  ماڈل ٹاون کیس کے ایک اور نامزد ملزم کیپٹن ر عثمان زکریا کو گریڈ 21پر ترقی دے کر ڈی جی پنجاب فوڈ اتھارٹی تعینات کردیا گیا۔

اس کے علاوہ  ماڈل ٹاون کیس میں ملوث ایک اور اہم فرد سابق آئی جی پنجاب مشتاق سکھیرا , جو ان 115 افراد میں شامل ہیں  کہ جن پر انسدادِ دہشتگردی عدالت , ماڈل ٹاون کیس میں فردِ جرم بھی عائد کرچکی ہے۔ وہ مشتاق سکھیرا آج کل کہاں اور کس حال میں ہے؟؟؟ کیا آپ جانتے ہیں ؟؟؟ چلیں آپ کی اطلاع کےلیے عرض ہے کہ موصوف مشتاق سکھیرا اس وقت "وفاقی ٹیکس محتسب " ہیں  اور یہ موصوف  آجکل ہنستے مسکراتے اپنی کارکردگی رپورٹ صدرِ مملکت عارف علوی کو پیش کرتے ہوئے تصویریں بنوارہے ہیں تاکہ شہدائے ماڈل ٹاون کے لواحقین کے زخموں پر نمک پاشی کی جاسکے۔

اب تو یقیناً میرا پوچھنا بنتا ہے کہ کدھر ہے نیا پاکستان ؟؟؟ کیا یہ ہے تبدیلی کے دعوے کی حقیقت ؟؟؟ کیا یہ تبدیلی سرکار کے  شہدائے ماڈل ٹاون کے لواحقین سے کیے گئے وعدوں سے انحراف نہیں ہے؟؟؟ کیا یہ تبدیلی سرکارکی شہدائے ماڈل ٹاون کے لہو سے بیوفائی نہیں ہے؟؟؟ جی بالکل !!! ایسا ہی ہے اور تبدیلی سرکار کی اصطلاح میں اسے "یوٹرن " کہتے ہیں۔

کہاں ہیں وہ پی ٹی آئی وزراء   جو ماڈل ٹاون کیس پر قومی اسمبلی میں پرجوش تقریریں کرتے رہے ۔  تو اب بتائیےکہ  کیا یہ قول و فعل کا تضاد نہیں ہے؟؟؟ کچھ  لوگوں نےکئ  مرتبہ ڈاکٹر طاہرالقادری کےبارے میں یہ تاثر دینے کی کوشش کی تھی کہ وہ ماڈل ٹاون کیس کو بھول چکے ہیں , مگر  وقت نے ثابت کردیا کہ ڈاکٹر طاہرالقادری تو آج بھی پاکستان کی عدالتوں میں شہدائے ماڈل ٹاون کا مقدمہ لڑرہے ہیں ۔

ہاں البتہ  وزیراعظم عمران خان سے اس ضمن میں شکوہ شکایت جائز ہے۔   ہوسکتا ہےکہ  وہ صورتحال سے مکمل طور پر لاعلمی کا اظہار  کردیں جیسا کہ وہ ڈاکٹر شاہد مسعود کے معاملے میں کرچکے ہیں ۔ عمران خان صاحب !!! قوم نے آپ کو ریاست پاکستان کی ذمہ داری سونپی ہے۔ یہ آپ کو زیب نہیں دیتا کہ آپ کسی معاملے سے مکمل طورپر لاعلمی کا اظہار کردیں , آپ کو علم ہونا چاہیے تھا کہ آپ کے نئے پاکستان میں ڈاکٹر شاہد مسعود کے ساتھ کیا سلوک ہوا ؟؟؟ جس کے سبب وہ پاکستان کو خیرآباد کہہ کر بیرونِ ملک چلے گئے۔

آپ کو علم ہوناچاہیے کہ سانحہ  ماڈل ٹاون میں ملوث کئ اعلیٰ افسران آج بھی اہم سرکاری عہدوں پر تعینات ہیں ۔ آپ کو علم ہوناچاہیے کہ پنجاب پولیس میں اصلاحات کےلیے بننے والی کمیٹی میں سانحہ ماڈل ٹاون کیس میں    نامزد میجر ر اعظم سلیمان بھی بطور ممبر شامل ہیں ۔ آپ کو علم ہوناچاہیے کہ مرکز اور پنجاب کی بیوروکریسی آج بھی شریف برادران کی وفادار ہے۔ آپ کو علم ہوناچاہیے کہ آپ کی اپنی ٹیم میں غلط لوگ شامل ہیں جوکہ آپ کو غلط مشورے دے رہے ہیں ۔ اور وہ آپ کو اصل صورتحال کا ادراک نہیں ہونے دے رہے ہیں ۔ عمران خان کے بطور وزیراعظم ناکام ہونے کی صورت میں  تمام تر ذمہ داری موسمی کھلاڑیوں اور سیاسی وفاداریاں بدلنے والے الیکٹیبلز پرہی عائد ہوگی ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :