احساسِ محرومی !!!

جمعہ 19 جولائی 2019

Ayesha Noor

عائشہ نور

1995میں پیپلزپارٹی کےدورحکومت میں جب "سینڈک پراجیکٹ " پرکام کا آغازہوا تو کام  شروع کرنےکےلیے10 سے 12ارب روپے درکارتھے۔ مطلوبہ رقم نہ ہونےکےباعث اس منصوبے پرکام روک دیاگیا  ۔ اس کےبعد  2002 میں " سینڈک پراجیکٹ " اونی پونی شرائط پرایک چینی کمپنی کودےدیاگیا۔ ایک اندازےکےمطابق چینی کمپنی نےاب تک 150 ارب ڈالرزسےزائد مالیت کا سونا عالمی مارکیٹ  میں فروخت کیا ۔

  چینی کمپنی نے جومنافع کمایا , اس میں سے 50% وہ خودلےگئے ۔ باقی 50% میں سے 48% حکومت پاکستان جبکہ صرف  2% حکومت بلوچستان کو دیاگیا۔ جوکہ ایک تاریخی زیادتی تھی ۔ اس کےبعد 2010 میں " آغازِ حقوق بلوچستان پیکج "کےتحت بلوچستان کو35% حصہ دینے کا وعدہ کیاگیا۔ مگرایک مرتبہ پھروفاقی حکومت نے یہ کہہ کرادائیگی روک    دی کہ پہلے بلوچستان 29 ارب روپے وفاقی حکومت کوادا کرے جوکہ وفاق نے اب تک " سینڈک پروجیکٹ " میں سرمایہ کاری کی مد   میں خرچ کیے ہیں اوریوں  یہ معاملہ سردخانے کی نظرہوگیا ۔

(جاری ہے)

بتایا جائےکہ اب تک  کتنا سونا,چاندی,تانبا نکالا جا چکا ہے؟ کون کون سے ادارے سینڈک میں Involve ہیں ؟  پاکستان کو کتنا حصہ مل چکا ہے؟ حاصل شدہ آمدن سے  پاکستان کی معیشت اور بلوچستان کے لوگوں کے حالات بدلنے میں کیا نمایاں تبدیلی آئی ہے؟ واضح رہے کہ 12 اپریل 2017 کو نیب نے " سینڈک پراجیکٹ " لیز پر لینے والی چینی کمپنی "ایم ایس سینڈک میٹل " کےحوالےسے  ایک پریس ریلیز جاری کی تھی  , جس کےمطابق نیب کی ایگزیکٹوبورڈ میٹنگ میں یہ فیصلہ  گیا تھا کہ سینڈک  پروجیکٹ کی ٹیکنیکل اورفرانزک رپورٹس مانگی جائیں ۔

کیونکہ مذکورہ کمپنی وہاں سے غیرقانونی طورپرسونا نکال رہی ہے ۔  اورآڈٹ رپورٹس کے مطابق مذکورہ کمپنی خسارے میں چل رہی ہے۔ مگرکسی کوپرواہ ہی نہیں ہے ۔  اسی طرح   1993 میں بلوچستان کے وزیراعلی نصیر مینگل نے آسٹریلوی کمپنی بی ایچ پی کے ساتھ چاغی کے قصبے " ریکوڈک " میں 56 سالہ مائننگ کا ایک معاہدہ طے کیا جس کے تحت قرارپایاکہ جو بھی جوائنٹ انویسٹمنٹ ہوئی تو اس میں بی ایچ پی کا شئیر 75 فیصد اور بلوچستان حکومت کا شئیر 25 فیصد ہوگا اور اسی حساب سے ریونیو بھی تقسیم ہوگا۔

اگر بلوچستان حکومت انویسٹ نہیں کرتی تو اسے مائننگ سے حاصل ہونے والی آمدن میں سے صرف 2 فیصد رائلٹی ملنا تھی ۔ بعدازاں جب ریکوڈک میں سونےاور تانبےکےوسیع ذخائردریافت ہوئےتو ایک اسرائیلی نژاد کینیڈین کی کمپنی بیرک گولڈ نے چلی کی ایک کمپنی کے ساتھ جوائنٹ وینچر بنا کر بی ایچ پی سے ریکوڈک کا معاہدہ خرید لیا۔ 2008 میں ریکوڈک میں ایکسلوریشن مکمل کرکے بیرک گولڈ نے پروپوزل جمع کروایا جس کے تحت انہیں باقاعدہ لائسنس دے کر وہاں سے تانبے اور سونے سمیت تمام دھاتوں کو نکالنے کا اختیار مل جانا تھا۔

بی ایچ پی کے ساتھ 1993 کو ہوئے معاہدے اور بعد میں جو مزید شرائط شامل ہوئیں، ان کے تحت بیرک گولڈ کی اس پروپوزل کا جواب بلوچستان حکومت نے ایک مہینے کے اندر اندر دینا تھا ۔ پھر انہی دنوں ثمر مبارک مند اور کچھ دوسرے لوگ سپریم کورٹ میں چلے گئے اور یوں یہ معاملہ عدالت میں آگیا۔ افتخار چوہدری نے اس معاہدے کو یکطرفہ قرار دیتے ہوئے بلوچستان حکومت سے کہا کہ وہ اس پر جلد فیصلہ دے۔

بلوچستان کی مائننگ کمیٹی نے تقریباً چھ سے بارہ ماہ میں فیصلہ لیا اور بیرک گولڈ کی پروپوزل ریجیکٹ کردی۔ بیرک گولڈ نے اپیل دائر کی اور سپریم کورٹ نے اس اپیل کو مسترد کردیا۔
بیرک گولڈ نے یہ معاملہ عالمی عدالت انصاف میں اٹھانا تھا، سو اس نے 2012 میں عالمی عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ دسمبر 2012 میں عالمی عدالت نے ریکوڈک کا 14میں سے صرف ان پاکٹس پر حق تسلیم کیا جن کی ایکسپلوریشن کی تھی، باقی پر پاکستان کا حق قرار دیا، تاہم بیرک گولڈ کی اپیل منظور کرلی کیونکہ انہوں نے ڈھائی سو ملین ڈالرز کی انویسٹمنٹ کرکے ایکسپلوریشن مکمل کی تھی اور معاہدے کے تحت انہیں لائسنس جاری ہونا تھا۔

یوں ہم عالمی عدالت میں یہ مقدمہ دسمبر 2012 میں ہار چکے تھے۔ تاہم جرمانے کا تعین کرنے کیلئے عالمی عدالت نے ابھی مزید وقت لینے کا فیصلہ کیا۔ پھر مزید کارروائی ہوتی گئی۔ بیرک گولڈ نے پاکستان پر 11 بلین ڈالرز کا ہرجانہ کیا تھا جو کہ پچھلے سال اکتوبر میں منظور ہوجاتا لیکن پاکستان کے وزیرقانون فروغ نسیم نے لندن میں اپنی ٹیم کے ذریعے جواب داخل کیا جس پر مزید تین مہینے کی مہلت مل گئی۔

بالآخر 12 جولائی 2019 کو عالمی عدالت انصاف نے 11 بلین ڈالرز کی بجائے تقریباً چھ بلین ڈالرز کی اپیل منظور کرتے ہوئے پاکستان کو ہدایت کی کہ یہ رقم بیرک گولڈ کو مہیا کرے۔   
کئ پہلوؤں سے جائزہ لیں توسابق چیف جسٹس آف پاکستان  افتخارچوہدری کا ریکوڈک کیس کےمتعلق فیصلہ مناسب اور بہترین قومی مفاد میں تھا۔            
بیرک گولڈ کے اپنے تخمینے کے مطابق اگلے 30 برس میں اسے ریکوڈک سے 240 سے 260 ارب ڈالرز کی آمدن متوقع تھی جبکہ پاکستان کے حصے سوائے دو فیصد رائلٹی کے، اور کچھ بھی نہیں آنا تھا۔

یہ دو فیصد رائلٹی بھی خام مال پر تھی، جبکہ بیرک گولڈ کا منافع ریفائنڈ پراڈکٹ پر تھا۔ چنانچہ پاکستان کے حصے سالانہ 10 سے 20 ملین ڈالر ہی آنا تھا اور بیرک گولڈ کے ہاتھ 8 سے 10ارب ڈالرز۔
وال سٹریٹ جرنل کی چند سال قبل شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق ریکوڈک سے حاصل ہونے والی معدنیات کا تخمینہ بیرک گولڈ نے کم بتایا تھا، اصل میں یہ تخمینہ 400 سے 600 بلین ڈالرز ہے۔

ایک امریکی رپورٹ کے مطابق یہاں ایک سے تین ٹریلین ڈالرز کی معدنیات موجود ہیں۔ عالمی عدالت میں جو جرمانہ ہوا  ,  ابھی ہم اس کے خلاف  اپیل میں جائیں گے، جس میں مزید دو سے تین سال لگ سکتے ہیں۔
 لہذا ہمارے پاس اب بھی کچھ کرنے کا وقت موجود ہے ۔ پی ٹی آئی حکومت ریکوڈک معاملے کا ازسرنو  جائزہ لےکر منصوبے کےلیے نئی سرمایہ کاری تلاش کرے اور نسبتاً بہتر شرائط پرکسی دوسری کمپنی سے نیا معاہدہ کرے , جس سے بالخصوص بلوچستان اور بالعموم پاکستان کو مالیاتی فائدہ ہوسکے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :