ثابت قدم رہنا !!!

جمعہ 23 اگست 2019

Ayesha Noor

عائشہ نور

جب سے اسلام کے"تصورِجہاد" کوہم نے بھلایا  ۔ شاعرمشرق علامہ محمد اقبالؒ کے" فلسفہ  خودی " کو پس پشت ڈالا۔  قائداعظم محمد علی جناح کے سلوگن " اتحاد , تنظیم , ایمان " سے انحراف کرنا شروع کیا ۔ ہمیں مصائب نےگھیرلیاہے , امتحان اورآزمائشیں بڑھ گئی ہیں ۔    
ہم ایک مرتبہ پھرمسئلہ کشمیراقوامِ متحدہ کےپاس لےگئے۔ وہاں سےہمیں جوپیغام ملا , وہ غیرمتوقع نہیں تھا ۔

اس بات کولےکرحدسےزیادہ خوش ہونےکی کوئی ضرورت نہیں ہےکہ سلامتی کونسل نے ریاست جموں وکشمیرکی متنازعہ حثیت تسلیم کرلی ہے ۔ کیونکہ سلامتی کونسل تو 7 دہائیاں قبل ہی ہمارا یہ مئوقف تسلیم کرچکی ہے۔ لہذٰا 16 اگست 2019 کو  صرف اس کا اعادہ کیاگیاہے۔ مگرسوال یہ   پیداہوتاہےکہ سلامتی کونسل اس تنازع کےحل کےلیےکوئی ٹھوس اقدامات کرنےکی زحمت نہ ماضی میں گوارا کی نہ ہی اب کرنی تھی۔

(جاری ہے)

یہ سب کچھ جانتےہوئے بھی پتہ   نہیں ہماری حکومت کیا امیدلےکر پھروہاں چلی گئ ۔ یہ یادرکھ لیجئےکہ سوائےچین کےکسی دوسری ویٹوپاورکوہم سےدلی ہمدردی نہیں تھی بلکہ وہ سب بس رسم تشویش ومذمت نبھانےکےلیےسلامتی کونسل     کا اجلاس بلانےپرآمادہ ہوئےتھے ۔آج  جبکہ    مقبوضہ جموں وکشمیرکے عوام کی جان ومال اورعزت وآبرو خطرےمیں ہے۔ 9 لاکھ    بھارتی فوج نےکرفیو لگاکرپوری وادی کوقیدخانےمیں تبدیل کردیاہے۔

اور وہاں خوراک , پانی اورادویات کی کمی کا بحران جنم لےچکاہے ۔ "RSS" کےغنڈے ہزاروں کی تعداد میں کشمیری عوام کی نسل کشی کےلیےکشمیر میں داخل کیےجارہےہیں ۔ ایسےمیں سلامتی کونسل کا رسمی اجلاس , روایتی جملے اوراظہارِتشویش کا کیا فائدہ ہوا؟؟؟ اس اجلاس سےکشمیری عوام کوکیا    ریلیف ملا ؟؟؟ نہ کرفیوہٹا نہ مواصلاتی روابط بحال ہوئےاور نہ کشمیریوں کی نسل کشی کےگھناؤنےبھارتی منصوبے پرکوئی     اثرپڑا ۔

مجھے افسوس ہےکہ اتنی تشویشناک  صورتحال کے باوجود سلامتی کونسل نے اجلاس جاری رکھنے اور بھارت کےخلاف کوئی قرارداد تک پاس کرنےکی زحمت گوارا نہیں کی ہے۔ کیا یہ ہیں سلامتی کےوہ   ضامن ؟؟؟ جن سےہم 7 دہائیوں سےاپیلیں کررہےہیں کہ کشمیری عوام کو" حق خودارادیت " دلایا جائے؟؟؟ ہم کس امیدپران   طرف دیکھتےہیں جبکہ وہ ہمیشہ ہمیں مایوس لوٹادیتے ہیں ۔

لہذاٰ سمجھ جائیےکہ  "تلوں میں تیل نہیں ہے "۔ اب ہمارےپاس سوائے اپنےقوت بازو پربھروسہ کرنےکےکوئی چارہ نہیں ہے ۔ ورنہ یومِ سیاہ منانے    , قراردادیں پاس کرنےیا مذمتیں کرنے سے   کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ میری وزیراعظم پاکستان عمران خان سےاپیل ہےکہ اللہ پر   بھروسہ رکھیں اوردشمن کےسامنےچٹان  کی طرح ڈٹ جائیں ۔ اب ہمیں طارق بن زیاد     کی طرح سب کشتیاں جلانی ہوں گی کیونکہ       اب واپسی ممکن ہی نہیں ہے ۔

اور حالات یہ   ہیں کہ بھارت نہ صرف مقبوضہ جموں وکشمیرمیں مسلمانوں کی نسل کشی کا ارادہ      رکھتاہےبلکہ وہ آزاد کشمیرکوبھی میلی آنکھ     سے دیکھ رہاہے۔ اب ہمیں دفاعی نہیں بلکہ    جارحانہ جنگی حکمت عملی اپنانا ہوگی ۔ ایسےمواقع پرنفسیاتی جنگ بھی اہمیت کی   حامل ہوتی ہے ۔ قوم کا اعتماد بحال رکھنا      بھی ضروری ہوتا ہے تاکہ کسی مرحلے پر   رائےعامہ میں مایوسی اور بددلی نہ پھیلے۔

    ہمیں اپنی کا مورال بلندکرنےکےلیے" جذبۂ      جہاد" کوایک مرتبہ پھربیدارکرناہوگا۔ ہمیں    اقبال کا " فلسفۂ خودی " پھرسےیاد کرناہوگا        ۔ ہمیں قائداعظم کے  سلوگن " اتحاد , تنظیم      اورایمان کوتحریک پاکستان کےدورجیسا     اپنانا ہوگا ۔ کیونکہ یہ دوقومی نظریےکے احیاء کا وقت ہے ۔ اب ہمیں تحریک آزادی کشمیرکو کامیابی سے ہمکنارکرنے کےلیےاتحاد, جرات و ہمت , خوداری , خوداعتمادی اوربلند حوصلے اورپختہ عزم کی ضرورت ہے۔

دشمن اس تحریک کو کچلنے کےلیے ہماری علاقائی خودمختاری اورسالمیت کوبھی چیلنج کرچکا ہے ۔ بھارت      نےواضح طورپر" نیوکلیئر " بلیک میل کرنا     بھی شروع کردیاہے  ۔ ہمیں جنگی بنیادوں پر سخت فیصلے کرنےہیں کیونکہ ہمارےپاس وقت بہت کم بچاہے۔ اوراب ہماری مددکےلیےنہ امت مسلمہ آئےگی اور    بین الاقوامی برادری کا ضمیرجاگےگا۔ سعودی عرب کی جانب سےبھارت میں 75بلین ڈالرکی حالیہ سرمایہ کاری کودیکھ لیں , ہمارے پیارےدوست اورسعودی عرب میں    پاکستان کے سفیرشہزادہ سلمان نے بھارت    کےساتھ معاشی مفادات وابستہ کرلیےہیں ۔

  متحدہ عرب امارات کےکشمیرپرمئوقف کودیکھ لیں کہ اسے بھارت کااندرونی معاملہ   قراردےدیا ۔ مزیدیہ کہ فروری 2019 کےواقعات سےلےکراگست  2019 میں کشمیرکی آئینی حثیت تبدیل کرنے تک عالمی      طاقتوں کی درپردہ بھارت کوآشیرباد حاصل ہے ۔ ہمارےلیے سفارتی محاذ خاصا پیچیدہ ہوچکا ہے , سابقہ ادوارحکومت میں سفارتی       محاذپراندرسے غداری ہوتی رہی ہے۔

سابقہ   
حکمرانوں نے مسئلہ کشمیرکوسردخانےمیں    ڈالےرکھا ۔ دنیا کومسئلہ کشمیرپراعتمادمیں    لینےکی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی ۔  بھارت سفارتی محاذخالی پاکراپنا کام دکھا گیا       بہرحال ہم موت سے نہیں ڈرتے , معیشت کمزورھےتوکیا ہوا جذبۂ ایمانی اورشوق    شہادت توہے نا !!! قوموں کی زندگی میں ایسے امتحانات آتےہیں۔

یہ ہماری بقاء کی   جنگ ہے اور ہمیں ثابت قدم رہناہے۔ فوری طورپر ائیرسپیس بند کی جائے اوربھارتی سفارت خانے پر تالے لگائےجائیں۔ آخرکب تک ہم ایل اوسی پر   بھارتی اشتعال انگیزیوں میں ہم اپنےفوجی جوان کھوتے رہیں گے۔ مقبوضہ کشمیرصورتحال ابترہوچکی ہےاورہمارےحکمران امریکہ اور مغرب کی   طرف دیکھ رہےہیں , کیوں ؟؟؟

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :