تقرر اور تبادلے سیاسی بنیادوں پرکیوں ؟؟؟

پیر 9 دسمبر 2019

Ayesha Noor

عائشہ نور

تقرراورتبادلے سیاسی بنیادوں پرکیوں؟؟؟ گزشتہ دنوں وفاق اور پنجاب میں کافی بڑے پیمانے پر تقرریاں اورتبادلے ہوئے ہیں۔ تو یہ بات ایک مرتبہ پھرواضح ہوگئی کہ ہمارے ملک میں اعلیٰ حکام کی تقرریاں اورتبادلے نہ توانتظامی بنیاد پرہوتے ہیں اورنہ ہی میرٹ کی پرہوتے ہیں بلکہ سیاسی بنیادوں اورحکمران جماعت کی ضروریات کی وجہ پرہوتے ہیں۔ نئے چیف الیکشن کمیشنراوراراکین الیکشن کمیشن کی تقرری کامعاملہ بڑی اہمیت کی حامل ہے۔

حکومت اور حزبِ اختلاف میں دونوں کی بھرپور کوشش ہے کہ نئیلوگ ان کے منظورِ نظر ہوں۔
 چیف الیکشن کمیشنرجسٹس ریٹائرڈ سرداررضا مورخہ 5 دسمبر کو ریٹائرڈ ہوگئے ہیں اور اس وقت عملی طورپر الیکشن کمیشن آف پاکستان قائم مقام چیف الیکشن کمیشنر جسٹس ریٹائرڈ الطاف ابراھیم قریشی کے تقرر کے باوجودغیرفعال ہوچکاہے لیونکہ اس وقت پانچ رکنی کمیشن میں سیدواراکین ہی موجود ہیں۔

(جاری ہے)

تین نئے اراکین کی تقرری کیلیے سیاسی جماعتوں میں تاحال اتفاق نہ ہوسکا,جس کی ذمہ داری سیاسی جماعتیں ایک دوسرے پر ڈالنے کیلیے بیان بازی میں مصروف ہیں۔
 حزبِ اختلاف کی جماعت مسلم لیگ ن چاہتی ہے کہ نیاالیکشن کمیشن ایسا بنے کہ تحریک انصاف کے خلاف فارن فنڈنگ کیس کا فیصلہ ن لیگ کی توقعات کے عین مطابق آئے۔ اسی طرح تحریک انصاف چاہتی ہے کہ نیا الیکشن کمیشن ان کے حسبِ منشاء بنے تاکہ فارن فنڈنگ کیس سے بچنے میں مدد مل سکے۔

الغرض فریقین میرٹ پر فیصلہ نہیں ہونے دیناچاہتے ہیں۔ حزبِ اختلاف کی رہبرکمیٹی نے چیف الیکشن کمیشن اوراراکین کی تعیناتی کا معاملہ سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا ہے کہ چیف الیکشن کمیشنراوراراکین کی تعیناتی کے متعلق قائم پارلیمانی کمیٹی میں عدم اتفاقِ رائے کے بعد آئین کا آرٹیکل 213خاموش ہے, لہٰذا عدالت عظمیٰ رہنمائی کرے۔ جبکہ پارلیمانی کمیٹی کی چیئرپرسن اوروفاقی وزیرشیریں مزاری کا مئوقف ہے کہ پارلیمانی کمیٹی مشاورت کاعمل جاری رکھے ہوئے ہے توسپریم کورٹ کیسے مداخلت کرسکتی ہے؟؟؟ اس سے کئی سوالات نے جنم لیا ہے کہ کیا بلدیاتی انتخابات وقت پر ہوسکیں گے؟؟؟ کیاسیاسی جماعتیں الیکشن کمیشن میں سیاسی مفادات کے تحفظ کیلیے تقرریاں چاہتی ہیں؟؟؟اور یہ کہ مروجہ طریقہ کار کے تحت قائم ہونے والا الیکشن کمیشن کیا واقعی آزادانہ کردار کا حامل ہوتا ہے؟؟؟ کیا وہ انتخابی عمل میں واقعی غیرجانبدارانہ کردار ادا کرسکتاہے؟؟؟ بہتریہ ہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے تمام ممبران بشمول چیف الیکشن کمیشن کا تقررحکومت اور حزبِ اختلاف کی باہمی مشاورت کی بجائے سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے کیا جائے۔

دوسرا سب سے اہم معاملہ نئے ڈی جی آئی ایف اے کی تقرری کے حوالے سے رہاہے۔سابق ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن اپنی ریٹائرمنٹ سے چند روز قبل محض اپنے عہدے سے مستعفی ہوگئے کہ وہ مستقبل کے ڈی جی ایف آئی اے واجد ضیاء کے حوالے سے تحفظات رکھتے تھے۔ انہیں لگتاتھاکہ حکومت حزبِ اختلاف کو انتقامی کارروائی کا نشانہ بنانے کیلیے ایک جانبدارانہ تقرری کررہی ہے۔

بشیر میمن صاحب کے مئوقف سے بالکل اتفاق نہیں کیاجاسکتا ہے۔ موصوف خود بھی تو حزبِ اختلاف کے رہنما خواجہ آصف کی حمایت میں مستعفی ہوئے ہیں۔ کیونکہ وہ نہیں چاہتے تھیکہ خواجہ آصف کے خلاف آرٹیکل 6 کے تحت مقدمہ درج ہو۔ اگرایساہے توبشیرمیمن صاحب خود بھی جاتے جاتے جانبداری ہی کا ثبوت دیکرگئے ہیں۔ہمارے ملک میں اعلیٰ سول حکام آخرکیوں سیاسی طورپرغیرجانبدارانہ نہیں رہ سکتے۔

ہرآنے والی حکومت اپنے منظورِنظرافراد کو نوازتی ہے۔
اس کے بعد ایک اور سیاسی ہلچل پنجاب کی سول سروس میں اکھاڑ بچھاڑ نے بھی پیدا کی ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار وزیراعظم پاکستان عمران خان کی رہنمائی میں تقرریاں اور تبادلے کرتے نظر آئے۔ سوال تو پیدا ہوتا ہے نا کہ کیا وزیراعلیٰ پنجاب تختِ لاہور کو سنبھالنے اورفیصلے کرنے سے قاصر ہیں؟؟؟ جو وزیراعظم پاکستان کی پنجاب کے صوبائی معاملات میں مداخلت ضروری پڑتی ہے؟؟؟
یا پھروزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزبزداربااختیارنہیں ہیں؟؟؟ پنجاب میں سب سے زیادہ متنازعہ نامزدگی چیف سیکرٹری پنجاب کے عہدے کیلیے میجرریٹائرڈاعظم سلیمان کا نام ہے۔

ان کا ماضی کیسا رہا ہے؟؟؟ کیا وزیراعظم پاکستان عمران خان اوروزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدارکو یہ علم نہیں کہ میجرریٹائرڈاعظم سلیمان سانحہ ماڈل ٹاون کیس میں بطورملزم نامزد ہیں۔ کیونکہ وہ سانحہ ماڈل ٹاون کے وقت ہوم سیکرٹری پنجاب تھے اورشہبازشریف کے دست راست سمجھے جاتے تھے۔ اگر اس سب کچھ کے باوجود یہ تعیناتی ہوجاتی ہے تو پھر شہبازشریف کی ان ہاوس تبدیلی والی بات کون سی غلط ثابت ہوتی ہے؟؟؟
 سچ تو یہ ہے کہ پنجاب میں آج بھی شہبازشریف کے منظور نظراعلیٰ سول حکام موجود ہیں۔

فی الحقیقت عثمان بزدارکی ٹیم میں کام کرنے والے لوگ وہی ہیں جوکہ شہبازشریف کی ٹیم میں تھے۔ تو پھر پوچھنا تو بنتا ہے کہ تبدیلی کا کیا بنا پھر؟؟؟وزیراعظم عمران خان صاحب آپ جس طرح شہدائے ماڈل ٹاون کے لواحقین کو انصاف دلانے کے وعدے بھولے ہیں, اس پر دلی رنج ہوا۔ آپ نے پورا پنجاب سانحہ ماڈل ٹاون کیس کے نامزد ملزم کوکس جوازکے تحت سونپ دیا؟؟؟ آپ کے اس عمل سے شہدائے ماڈل ٹاون کے لواحقین کو کتنا دکھ ہوا ہوگا؟؟؟ کبھی فرصت ملے تو سوچیے گا ضرور!!!

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :