جمہوریت کیاہے ؟؟؟

بدھ 30 دسمبر 2020

Ayesha Noor

عائشہ نور

جمہوریت کو دورِ جدید کا ایک مقبول تصور سمجھا جاتاہے ۔ پارلیمانی  نظام اور صدارتی نظام دونوں کو جمہوری طرزِ حکومت قرار دیاجاتاہے ۔چونکہ پارلیمانی نظام جمہوریت کا برطانوی ماڈل جبکہ صدارتی نظام امریکی ماڈل ہے۔ اس لیے بالعموم جمہوریت کو مغرب کی عنایت سمجھاجاتاہے ۔ جب ریاستی نظام کی یہ بحث پاکستان کےتناظرمیں ہوتی ہے تو لبرل اور مذہبی عناصر میں شدید ترین نظریاتی تقسیم دیکھنے میں آتی ہے۔

مذہبی طبقہ جمہوریت کو مغربی نظام سمجھتاہے جبکہ لبرل طبقہ اسلامی نظام کو جمہوریت سے متصادم قرار دیتا ہے۔ درحقیقت نہ تو جمہوریت  کلیتاً ایک مغربی نظام ہے اور نہ اسلام کا جمہوریت سے کوئی تصادم ہے۔ اگر ریاست مدینہ اورخلافتِ راشدہ کامطالعہ کیاجائےتویہ بات سامنےآتی  ہےکہ اسلام میں نہ تو " موروثیت " کا کوئی تصور ہے نا بادشاہت کا کوئی حوالہ ہے ۔

(جاری ہے)

بعدازاں جتنی بھی مسلم حکومتیں گزری ہیں , ان میں موروثیت کا وجود رہا ہے۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ مغربی جمہوریت اور اسلامی خلافت میں  یہ فرق ہےکہ مغربی جمہوریت میں لوگوں کو گنا جاتا ہے مگر اسلامی خلافت میں تولا جاتاہے۔ دوسرے یہ کہ مغربی جمہوریت میں نااہل لوگ بھی منتخب ہوکر حکمران بن جاتےہیں جبکہ خلافت اسلامیہ میں صرف مومنین ہی اقتدار کے اہل ہوتے ہیں اور تیسرے یہ کہ مغربی جمہوریت میں عوام کی حاکمیت کوماناجاتاہےجبکہ خلافت اسلامیہ میں اللہ تعالیٰ کی حاکمیت ہی تسلیم شدہ ہے۔

اگر دیکھا جائے تو اس وقت مسلم ممالک کی اکثریت ایسی ہے جہاں انتخابات کا سرے ہی انعقاد ہی نہیں ہوتا کیونکہ وہاں شخصی آمر یا بادشاہ اقتدار پر قابض ہیں  ۔ البتہ  اگر پاکستان کی بات کی جائے تو پاکستان میں عوام کو تعلیم و تربیت اور سیاسی شعور دینے کی ضرورت ہے تاکہ وہ صحیح فیصلے کرنے کے قابل ہوسکیں ۔ مغربی ممالک میں بھی شرح خواندگی اوسطاً  85% سے زیادہ ہی ہوتی ہے , چنانچہ پاکستان میں بھی  جب تک لوگوں کو تعلیم نہیں دی جائےگی وہ نہ جمہوریت میں اپنا حصہ ڈال سکتے ہیں نہ خلافت میں ۔

جہاں تک دوسرا اعتراض ہے کہ تو یہ بھی   ہمارے طرزِ انتخاب ہی کی کمزوری ہے۔ چنانچہ ضروری ہے کہ انتخابی امیدواروں کی آئین کے آرٹیکل 62/63 کے مطابق اسکروٹنی کی جائے تاکہ صرف اہل لوگ ہی انتخابات میں حصہ لے سکیں ۔ تیسری بات یہ کہ پاکستان کے آئین میں پہلے ہی قرار دادِ مقاصد کو شامل کیا گیا ہے جس کی روسے حاکمیت اعلیٰ کی حقیقی مالک اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔

اور یہ اصول خلافت اسلامیہ ہی سے لیاگیاہے۔ خلافت اسلامیہ میں بھی خلیفہ کا انتخاب عوام نے ہی کرنا ہوتا ہے جوکہ اللہ تعالیٰ اور عوام کو جواب دہ قرار پاتاہے۔ چنانچہ پس ثابت ہوا کہ جمہوریت اور خلافت کے بنیادی اصولوں میں کوئی تصادم موجود نہیں ہے۔ دراصل حکمران کے بذریعہ رائے دہی انتخاب کا تصورسب سےپہلے   اسلام ہی نےدیا ہے۔ یہ الگ بات ہےکہ جب مسلمانوں نے اسلام  تعلیمات کو پس پشت ڈال دیا  تو سائنس و تکنیک  کے شعبے میں بھی جمود کا شکار ہوگئے اور اہلِ مغرب ہم سے بازی لے گئے۔

بالکل اسی طرح ہمارے سیاسی نظام یعنی  خلافت اسلامیہ میں موروثیت داخل ہوجانے سے بھی امت مسلمہ کو کئ الجھنوں سےواسطہ پڑا۔ اس کے برعکس اہلِ مغرب  میں بتدریج جمہوری اقدار فرغ پاتی رہیں۔ اوریوں سیاسی اورسائنسی دونوں شعبوں میں ہمارے راہنما اصول اغیار اپناکرہم سےآگےنکل گئے۔ خلافت عثمانیہ کےساتھ بھی یہ ہی المیہ پیش آیاتھا کہ سائنسی ترقی  میں جمود آچکاتھا اور خلافت بھی موروثیت میں تبدیل ہوچکی تھی۔

ان ہی دو کمزوریوں نے " تحریک نوجوانان  ترک " کو  پذیرائی بخشی اور بالآخرنتائج  خلافتِ اسلامیہ کےخاتمےکی صورت    میں نکلے-دورِ جدید میں عرب دنیا میں جو بادشاہتیں یا شخصی آمریتیں مسلط ہیں وہ عالمی طاقتوں کے ہاتھوں صرف استعمال ہورہے ہیں ۔ سائنس و ٹیکنالوجی کے شعبے میں بھی امت مسلمہ اقوام مغرب کی محتاج بنی ہوئی ہے۔ عالمِ اسلام کی واحد جوہری طاقت پاکستان میں بھی انگریز کا بنایا ہوا فرسودہ نظام تمام مسائل کی جڑ بنا ہوا ہے۔

یہ نظام نہ تو جمہوری ہےاور نہ اسلامی ہے ۔ چنانچہ اسے  بدلنے کےسوا اور کوئی چارہ نہیں ہے۔ اس فرسودہ نظام میں نہ تو جمہوریت پروان چڑھ سکتی ہے اور نہ آئین و قانون کی بالادستی ممکن ہے۔ بانیِ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح ؒ نے فرمایا تھا " ہمیں جمہوریت کا سبق اسلام اور اس کی روح نے دیاہے۔انہی اصولوں نے ہمیں انسانی مساوات , انصاف اور غیرجانبداری سکھائی ہے۔

پاکستان کےلیے آئین کی تشکیل کرتے ہوئےہمارے اپنے ماضی کی شاندار روایات ہیں , جن کے ہم وارث ہیں۔( ریڈیو خطاب فروری 1948) ۔ مسئلہ تب بنا جب پاکستان کے عوام کو ہمیشہ جمہوریت اور اسلام کے نام پر دھوکہ دیا گیا۔ جمہوریت کی اصل روح کے مطابق صاف و شفاف انتخابات , احتساب اور جوابدہی , عوام کی سیاسی تربیت اور بیداریِ شعور سے پہلو تہی کی گئ ۔پاکستان کی جمہوریت پر سرمایہ دار اور جاگیردار قابض ہوگئے , عام شہریوں کا سیاست میں کردار برائے نام ہے ۔

حکمرانوں نے  خود کو عوام کا نمائندہ اورخادم سمجھنےکی بجائے خود کو آقا سمجھناشروع کردیا۔ عوام پر چند مخصوص خاندان مسلط ہیں۔ ہر مرتبہ انتخابات میں وہی لوگ سیاسی جماعتیں بدل کر واپس اقتدار کے ایوانوں میں پہنچنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں ۔ چنانچہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان میں جمہوریت کے نام پر " اشرافیہ " مسلط ہے۔ موجودہ انتخابی نظام عام آدمی کو اقتدار کے ایوانوں میں پہنچانے سے قاصر ہے ۔

موجودہ پی ٹی آئی حکومت میں بھی " الیکٹیبلز " کی بالادستی کے سوا کچھ نیا نہیں ہے۔وزیراعظم عمران خان " تبدیلی اور نئے پاکستان " کا وعدہ کرکے برسراقتدار آئے تھےتاہم اب واضح ہو چکا ہےکہ فرسودہ نظام کو بتدریج اصلاحات کے ذریعے بدلناہوگا , اس کے علاوہ تبدیلی لانےکاکوئی اورراستہ نہیں ہے  -

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :