"آنگن ٹیڑھا"!!!

منگل 29 جون 2021

Ayesha Noor

عائشہ نور

پاکستان میں مقامی سیاسی کلچر کچھ اس طرح پروان چڑھایا​گیا ہےکہ اگر ایم این اے یا ایم پی اے اپنی سیاسی مصروفیات کے باعث انتخابی مہم کے دوران کیے گئے ترقیاتی کاموں کے وعدے بھلا دے تو اسے بھی حلقے کے عوام دہائیوں تک بڑے صبروتحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے اگلی مرتبہ کام ہونے کا وعدہ پورا ہونے کی امید پر ووٹ ڈالتے رہتے ہیں ، اور کمال معصومیت سے ایک ہی سیاسی خاندان کو کئ دہائیوں تک برادری ازم کی بنیاد پر برداشت کرتے رہتےہیں خواہ وہ کتنا ہی بدعنوان کیوں نہ ہو ، یہ صورتحال کسی طورپر ملکی مفاد میں نہیں ہے ، لہذٰا اس سوچ کو بدلنے کی اشد ضرورت ہے۔

دوسری صورت یہ ہےکہ کسی بھی انتخابی حلقے کے عوام کی اپنے ایم این اے یا ایم پی اے سے خوش یا ناراض ہونے کا دارومدار علاقے میں ترقیاتی کام ہونے یا نہ ہونے پر ہوتاہے۔

(جاری ہے)

اگر کوئی ایم این اے یا ایم پی اے اپنے حلقے میں گلیاں اور سڑکیں مرمت کروائے یا اہل علاقہ کو بجلی گیس وغیرہ مہیا کروا دے تو یہ اس کا بہت بڑا احسان سمجھا جاتاہے، حالانکہ عین ممکن ہے کہ اپنے حلقے میں ووٹرز کو خوش کرنے والا بدستور بدعنوان مافیا میں بھی شامل ہو ، لہذٰا ہمیں اس بات سے لازماً سروکار ہوناچاہیے ۔

پارلیمانی جمہوریت اس وقت تک کامیاب نہیں ہوسکتی ، جب تک عوام کو سیاسی طور پر باشعور نہ بنادیا جائے۔ اس سلسلے میں ہمیں برطانیہ جیسے ملک سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے، جہاں ہر شہری ملک وقوم کے وسیع تر مفاد کو مقامی اور علاقائی امور پر ترجیح دیتاہے۔  دوسری اہم اور توجہ طلب بات یہ ہےکہ جمہوریت کو کامیاب بنانے کےلیے " مقامی حکومتوں" کے نظام کو فروغ دینا سب سے زیادہ ضروری ہے ۔

جبکہ اس کے برعکس ہمارے ہاں اکثرو بیشتر مختلف جواز تراش  کر ، نت نئے حیلے بہانوں سے بلدیاتی انتخابات کو ملتوی کردیاجاتاہے۔ اس کے پیچھے یہ ہی سب سے بڑا سبب ہے کہ اگر  بااختیار بلدیاتی ادارے قائم ہوگئے تو ایم این ایز اور ایم پی ایز اپنے حلقے میں ترقیاتی کاموں کے نام پر فنڈز حاصل نہیں کرپائیں گے، بلکہ یہ ترقیاتی فنڈز مقامی حکومتوں کو منتقل ہوجایا کریں گے ، اور پھر مقامی سطح پر ہی ووٹرز ترقیاتی کاموں کے نہ ہونے اور بدعنوانی ہونے کی صورت میں اپنے ووٹ کے ذریعے بلدیاتی حکومتوں کے مستقبل کا فیصلہ کردیاکریں گے۔

چنانچہ پاکستان کی پارلیمان صرف قانون سازی کی ذمہ دار ہوگی ۔ اور ایم این ایز اور ایم پی ایز کو صرف تنخواہ ملا کرے گی ، جس سے مرکزی اور صوبائی حکومتیں بدعنوانی سے پاک ہوجائیں گی ۔ اور ان مقدس ایوانوں تک پہنچنے کیلئے چور دروازہ ازخود بند ہو جائےگا کیونکہ اس صورت میں وفاقی اور صوبائی سیاست میں تجارت جیسا منافع مزید حاصل نہیں ہوسکےگا۔

وفاق اور صوبوں میں سیاست دان اپنے حلقوں میں واپس جاکر ترقیاتی کاموں کے سبز باغ دکھا کر ووٹ نہیں بٹور سکیں گے اور انہیں صرف اپنے جماعتی منشور پر عملدرآمد اور کارگردگی کی بنیاد پر ہی ووٹ مل سکیں گے۔ اب آپ خود سوچیے کہ موجودہ سیاسی کلچر میں رہتے ہوئے سیاسی قیادت کے کردار ، جماعتی منشور اور مجموعی کارکردگی کو  نظرانداز کرکے صرف مقامی اور برادری کی بنیاد پر کیوں ووٹ دے دیا جاتاہے۔

وڈیرہ شاہی اور جاگیردارانہ نظام کی موجودگی نے بھی معاملات کو بگاڑنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔ سرمایہ دار لوگ بھی سیاست میں سرمایہ کاری والی ذہنیت کے ساتھ آگے بڑھتےہیں ۔ یہ سب جاگیردار ، وڈیرے ، اور سرمایہ دار سیاست کو کاروبار سمجھ کر صرف منافع کمانے کی غرض سے اقتدار کی رسہ کشی میں شامل ہوتے ہیں ۔ ملک و قوم کے مفادات سے انہیں کوئی غرض نہیں ہے۔

لہذٰا جان لیجئے کہ ایسی پکی گلی ، سڑک اور بجلی و گیس کی سیاست محض کھوکھلی ترقی ہے ۔ ایسے کاروبار سیاست میں ملک و قوم کے مفادات نظرانداز کردئیے جاتے ہیں اور سیاست دان بدعنوانی کی گنگا میں ہاتھ دھونے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ ان کاروباری سیاست دانوں نے ملک کو سودی قرضوں کی دلدل میں دھکیل دیا ہےاور اس نکلنے کی کوئی سبیل فی الوقت نظر نہیں آتی ہے اور نہ بدعنوانی یعنی کرپشن کی روک تھام ہوپاتی ہے۔

اس کھوکھلی ترقی کا ہی ایک نتیجہ یہ ہے کہ میڈیا رپورٹس کے مطابق حکومت نے بعض ہوائی اڈوں اور قومی شاہراہوں کو گروی رکھ ڈومیسٹک سکوک بانڈز جاری کرکے مزید قرضے لینے کا عندیہ دیا ہے ۔ اگر ریاست مستحکم نہ ہوتو ان کھوکھلے ترقیاتی کاموں کے ایسے ہی پھل بھگتنے پڑتے ہیں ۔ سابقہ حکمرانوں نے موٹروے، بینظیر انٹرنیشل​ ائیرپورٹ، میٹرو بسں ، اورینج ٹرین جیسے کی کھوکھلے ترقیاتی کام کیے ،  ان منصوبوں میں لاتعداد نقائص سامنے آچکے ہیں ، کافی زیادہ کرپشن بھی کی گئ اور یہ منصوبے قومی خزانے پر بوجھ ثابت ہوئےہیں۔ ایسی کھوکھلی اور ناقص ترقی محض ایک فریب ہے ،جس کے فوائد کم اور نقصانات زیادہ سامنے آچکے ہیں ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :