مسئلہ کشمیر کا حل۔۔۔ جہاد یا مذاکرات؟

منگل 30 مارچ 2021

Azeem Sultan

عظیم سلطان

پاک آرمی کے شعبہ تعلقات عامہ کی جانب سے  یوم استحصال کشمیر کے موقع پر کشمیری عوام سے ہمدردی اور بھارت کی بربریت کے خلاف ایک نغمہ جاری کیا گیا ’’ جا چھوڑ دے میری وادی‘‘  اس پر کئی  حلقوں کی جانب سے اس پر شدید ردعمل سامنے آیا۔ کئی لوگوں نے فوج کو جہاد کی تلقین کی تو کچھ نے پاک فوج کے خلاف میمز بنا کر سوشل میڈیا پر شور مچایا رہا۔

لیکن اصل مسئلہ کوئی نغمہ جاری کرنا نہیں ہے، ایک پوسٹ نظروں سے گزری جس میں لکھا تھا کہ  آئی ایس پی آر کا کام جنگ لڑنا نہیں ہے بلکہ وہ اسی طرح اپنا پیغام دنیا تک پہنچائیں گے اور جن کا کام جنگ کرنا ہے انہوں نے گذشتہ برس فروری میں دکھا دیا تھا۔۔۔ بات تو بالکل ٹھیک ہے شعبہ تعلقات عامہ  کاتو کام ہی یہی ہے، میڈیا کی سطح پر پاکستان آرمی کا نظریہ دنیا تک پہنچانا۔

(جاری ہے)

اور وہ یہ ففتھ جنریشن وار اچھی طرح لڑ رہے ہیں۔
ایک جنونی طبقہ جو بات بات پر قتل و غارت گری کی خواہش رکھتا ہے وہ پاک فوج سے مانگ کررہا ہے کہ جہاد شروع کیا جائے اور بس فوراََ کشمیر آزاد کروا  لیا جائے۔ وہ  شاید یہ نہیں سمجھ رہے کہ اب یہ اتنا آسان نہیں جتنا 72 سال پہلے تھا۔۔ اب یہ دو ایٹمی طاقتیں ہیں۔۔۔  گزشتہ دنوں  لبنان کے دارالحکومت بیروت میں ہونے والے دھماکے نے تمام دنیا کو ہِلا کر رکھ دیا، یہ دھماکہ یقیناََ کسی حادثے کے نتیجے میں ہوا ہوگا لیکن کیا آپ سوچ سکتے ہیں کہ پاک بھارت جنگ شروع ہو گئی تو ایسے دھماکے لاہور یا اسلام آباد میں بھی ہوں اور دلی اور ممبئی میں بھی۔

۔۔ اور اگر یہاں نہ بھی ہوں تو کشمیر اجڑ جائے گا۔۔۔ کیونکہ اب  جنگیں تلواروں اور گھوڑوں پر بیٹھ کر نہیں ہوتی ہیں۔۔۔ مسئلہ  کشمیر کا حل مذاکرات سے ہی ممکن ہے، بڑے بڑے سکالرز نے مسئلہ کشمیر کا حل پیش کیا ہے، اقوام متحدہ کا چارٹر بھی موجود ہے، بے شک بھارت نے اس خطے پر ظالمانہ قبضہ کیا ہوا ہے لیکن کیا  آپ یہ یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ جنگ کے نتیجے میں کشمیری محفوظ رہ سکتے ہیں ؟؟
ہر بات کا حل جنگ  پیش کرنے والے، بدر و حنین کی کہانیاں سنانے والے شاید میثاق مدینہ اور صلح حدیبیہ کو بھول گئے،،، وہ صلح حدیبیہ جس کے بارے قراآن نے کہا کہ یہ فتح مبین ہے۔

۔ بغیر جنگ کے ایک معاہدے کو  قرآن کا فتح مبین یعنی کھلی فتح کہنا  اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ  فتح کے لیے جنگ کی ضرورت نہیں ہوتی، یہ مذاکرات کی میز پر بھی ہو سکتی ہے۔رسول اللہ ص کے بعد خلفاء راشدین کے زمانے میں دیگر  اقوام سے امن معاہدے ہوتے رہے اور دنیا کی تمام بڑی جنگوں کا حل  بھی مذاکرات کی میز پر ہو ا ہے۔  تو یہ سمجھنے والے کہ جہاد سے یا جنگ سے کشمیر آزاد کروا لیا جائے گا، ذرا فیکٹس پر بھی نظر دوڑائیں۔

۔۔ کیا آج کے اس دور میں جب  عالمی طور پر تمام بڑے تنازعے اقوام متحدہ میں حل ہوتے ہیں ایسے میں کوئی ملک کسی دوسرے  ملک کے ایک حصے پر قبضہ کر سکتا ہے  ؟  اس بات کا جواب نہ میں ہی آئے گا۔   وقت اور حالات بدل چکے ہیں، ہمیں بھی اب نئے دور کے تقاضوں کے مطابق چلنا ہوگا۔ دنیا کی بڑی طاقتوں کے بھارت اور پاکستان سے مفادات جڑے ہیں، یہ ممالک کسی طور ان کے درمیان جنگ کے متحمل نہیں ہو سکتے۔

ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم بس اپنی حد تک سوچتے ہیں، عالمی منظر نامے پر کوئی غور نہیں کرنا چاہتا۔ ایک سو  تیس کروڑ کی بڑی مارکیٹ، بھارت۔ کیا آپ یہ سمجھتے ہیں کوئی بھی بڑی طاقت اتنی بڑی مارکیٹ کو ہاتھ سے جانے دے گی، اسی لیے اہم اسلامی ممالک کو بھارت کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم کرنے پڑے ہیں۔ اور بھارت چین تنازعہ کے باوجود چین نے بھارت سے تجارت بند نہیں کی بلکہ "بین چائنہ" کے نعروں والی شرٹس اور ٹوپیاں بھی چائنہ سے بن کر بھارت گئیں۔

سندھ طاس معاہدے کی وجہ سے پاکستان کے بھی بھارت سے اچھے تعلقات ہونا ضروری ہیں اور کسی بھی قسم کی جنگ کی صورت میں بھارت اگر معاہدے سے ہٹ جاتا ہے تو پاکستان کا سارا نہری نظام جام ہو سکتا ہے۔ اس لیے بجائے فوج کو جنگ  نہ کرنے اور بزدل ہونے کے طعنے دینے کے، اپنے منتخب نمائندوں سے سوال کیا جانا چاہیے کہ وہ کوئی حل تلاش کریں۔ کیونکہ سڑک کا نام بدلنے سے یا نقشہ تبدیل کرنے  آپ اپنی عوام کا دل جیت کر اپنا ووٹ بینک بڑھا سکتے ہیں ، کشمیر آزاد نہیں کروا سکتے۔۔۔ذرا نہیں پورا سوچیئے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :