ہم بنے سائیں قائم علی شاہ کے ڈاکیہ !

پیر 25 جنوری 2021

Azhar Azmi

اظہر عزمی

سائیں قائم علی شاہ پاکستان کے سب سے" قائم الحیات " سیاست دان ہیں ۔ تالپور اور کھوڑوں خاندانوں کے بعد سندھ پر سب سے زیادہ اقتدار کے سنگھاسن پر یہی بیٹھے ہیں ۔ یہ الگ بات  ہے کہ اپنے آخری دور وزارت ( اگر ہے ) میں کبھی سوتے ہوئے بھی پائے گئے ہیں ۔ آخری وزارت سے مراد کاغذوں پر ہے ۔جب تک سائیں تب تک آس ۔ سب کو چھوڑیں امید پر دنیا  قائم ہے ۔

یہاں قائم سے مراد قائم علی شاہ ہی ہیں ۔
 قائم میں میم سب سے آخر میں آتا ہے لیکن یہ پاکستان کے واحد سیاستدان ہیں کہ جن کے Memes اول نمبر پر ہیں ۔ کسی میں ائیرپورٹ پر محمد بن قاسم کے استقبال کے لئے کھڑے ہیں تو کسی تصویر میں لکھا ہے " بھارت اور ہندوستان مل کر بھی پاکستان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے تو یہ انڈیا کیا چیز ہے " ۔

(جاری ہے)

سائیں بڑے دل کے آدمی ہیں ۔

میرا خیال بلکہ گمان غالب ہے کہ خود بھی یہ سب پڑھ کر ہنستے ہوں گے ۔ اگر انہوں نے یہ آرٹیکل پڑھا تو ممکن ہے کہیں " سائیں غالب سے تو ایک بار اس کی بے روزگاری کے دنوں میں ملا پر یہ گمان صاحب دھیان میں نہیں پڑ رہا "۔
سائیں قائم علی شاہ کو یہ بات کبھی ڈس کریڈٹ نہیں ہونے دیتی کہ پیپلز پارٹی نے ابتلاء کے ہر دور میں قائم علی شاہ کو ثابت قدم پایا ۔

اسی لئے ہر دور میں وزارت اعلی کے لئے سب سے زیادہ منظور نظر قرار پائے ۔ کہتے ہیں کہ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ قیادت نے جو کہا اسے بہ یک جنبش حکم " منظور " کر لیا ۔
یہ جنرل ضیا الحق کا زمانہ تھا ۔ پیپلز پارٹی "مصلوب نظر' تھی ۔ ہر طرف سے زندگی تنگ ہے ۔ پھانسی ، کوڑے ، جیل سب کچھ پیپلز پارٹی پر روا تھا ۔ پیپلز پارٹی اپنے قائد ذوالفقار علی بھٹو کے تختہ دار پر لٹکانے جانے کے بعد پابند سلاسل و سیاہ پوش تھی ۔

پارٹی کے زمانہ شناس اور گھاٹ گھاٹ کا پانی پیئے سیاستدان سرکار سے جا ملے تھے اور جو لیڈر اور کارکن سرکار سے نہ ملے تھے ، سرکار ان سے ملنے کو بے تاب تھی اور جگہ جگہ چھاپے مار رہی تھی  ۔ اس فہرست میں قائم علی شاہ بھی تھے ۔
ہمارے خیرپور میرس میں رہنے والے ایک ماموں کے قائم علی شاہ کے خاندان سے بڑے قریبی روابط تھے اس لئے ان کی پیپلز پارٹی سے دلبستگی اور وابستگی ہونا ایک لازمی امر تھا ۔

انہی دنوں وہ ایک دن اپنے اہل خانہ کے ہمراہ کراچی آئے تو ہمارے گھر بھی آئے ۔ دسمبر کا مہینہ تھا ۔ مغرب کے بعد بولے :
ہمیں ایک جگہ جانا ہے ۔ تھوڑی دیر میں آجائیں گے ۔
چلتے چلتے مجھے بھی اپنے ساتھ چلنے کو کہا ۔ کالج کا زمانہ تھا ، شام کو بالکل فارع ہوا کرتے تھے  ۔ اب ہم ماموں اور ان کے اہل خانہ کے ساتھ نکلے اور گلشن اقبال روانہ ہوئے ۔

راستے میں ماموں نے سوالیہ انداز میں کہا :
 تمھیں معلوم ہے ہم کہاں جا رہے ہیں ؟
 میں نے نفی میں سر ہلا دیا ۔ مجھے بس اتنا پتہ تھا کہ جہاں یہ جا رہے ہیں وہاں خاطر و مدارات ضرور ہوں گی ۔ کہنے لگے :
آج کل سائیں قائم علی شاہ گلشن اقبال کے ایک فلیٹ میں روپوش ہیں ۔ ان سے ملنے جا رہے ہیں ۔ بس تم میرے والد صاحب کا نام لے کر کہا کہ انہیں نہ بتانا ۔


وہ جانتے تھے کہ والد صاحب کتنی احتیاط پسند طبیعت کے مالک ہیں ۔ اگر انہیں معلوم ہوتا کہ ماموں کہاں جا رہے ہیں تو کم از کم مجھے نہ جانے دیتے بلکہ ماموں  کے جانے اور آنے سے ایک گھنٹے پہلے اور بعد تک باہر نہ نکلنے دیتے ۔ خیر ہم ایک فلیٹ ہر پہنچے ۔ دروازہ کھٹکھٹایا ۔ تصدیق کے بعد ہمیں اندر آنے دیا گیا ۔ فلیٹ میں قائم علی شاہ موجود تھے ۔

بڑے خوش ہوئے ۔ حال احوال لیا ۔ خاطر و مدارات کیں ۔ ہم خاموشی سے ایک جگہ دبکے بیٹھے رہے ۔
چلتے وقت سائیں ماموں سے کہنے لگے کہ یہ ایک خط ہے جو ایک صاحب کو پہنچانا ہے ۔ ماموں نے خط لے لیا اور پوچھا کہ کس کو کہاں دینا ہے ؟ قائم علی شاہ نے کہا کہ شاہد کاظمی کو دینا ہے اور ساتھ ہی مکان نمبر بھی بتا دیا ۔ ماموں نے ایک نظر مجھے دیکھا جیسے پوچھ رہے ہوں کہ تمھیں معلوم ہے ۔

میں نے ہاں میں سر ہلا دیا ۔ ماموں نے قائم علی شاہ سے کہا کہ میں تو کراچی سے اتنا واقف نہیں ۔ یہ میرا بھانجا ہے ۔ یہ خط پہنچا دے گا ۔ قائم علی شاہ نے سوالیہ نظروں سے پہلے ماموں کو دیکھا اور پھر میری طرف متوجہ ہوئے ۔ ماموں نے کہا کہ سائیں آپ فکر نہ کریں ۔ خط پہنچ جائے گا ۔ قائم علی شاہ نے مجھے ایسا دیکھا جیسے کہہ رہے ہوں کہ دیکھ لو اگر تم پولیس کے ہتھے چڑھ گئے تو یہ خط تمھاری خطا اور میری گرفتاری کا پروانہ بن جائے گا ۔

ہمیں اسد اللہ خاں غالب یاد آگئے ۔
غیر پھرتا ہے لئے یوں تیرے خط کوکہ اگر
کوئی پوچھے کہ یہ کیا کے تو چھپائے نہ چھپے
اب ہم باہر نکلے تو ماموں نے خط مجھے تھماتے ہوئے کہا کہ کل دے آنا اور کسی کو نہ بتانا ۔ اب سنیئے ۔ شاہد کاظمی کون تھے ؟ اس وقت کے مشہور ٹی وی ڈرامہ رائٹر جو کہ کراچی آنے سے قبل خیرپور میرس میں رہا کرتے تھے ۔


ڈر تو ہم بھی گئے تھے کہ اگر پکڑے گئے تو کوئی چھڑانے بھی نہ آئے گا ۔ والد صاحب رب العزت کے حضور سر بسجود تو ہوں گے مگر تھانے کے میلوں میل بھی موجود نہ یوں گے ۔ دوسرے دن بر بنائے احتیاط ہم مغرب سے ذرا پہلے گھر سے نکلے اور بتائے گئے مکان نمبر کی بیل بجا دی ۔ سردیوں کے دن تھے ۔ مغرب کی وجہ سے گلی میں مکمل سناٹا تھا ۔ پہلی بیل پر آواز نہ دارد ۔

دوسری بیل پر آواز آئی : کون ؟
 میں نے کہا : شاہد کاظمی صاحب ہیں ۔ کچھ لمحوں کے بعد ایک صاحب آئے اور گیٹ کے چھوٹے پٹ والے دروازے پر کھڑے کھڑے ہاتھ ملایا اور بولے : جی فرمایئے۔ ہم نے کیا فرمانا تھا ، خط دینا تھا اور الٹے پاوں گھر کی راہ لینی تھی ۔ میں نے کہا : آپ کو ایک خط دینا ہے ۔ شاہد کاظمی صاحب نہایت نستعلیق قسم کے آدمی تھے ، کسی قدر حیرت سے بولے : خط ؟ میرے لئے ؟ کس کا ؟ ۔

میں نے خط جیب سے نکالتے ہوئے کہا : جی وہ قائم علی شاہ صاحب نے دیا ہے آپ کو ۔ اتنا کہنا تھا کہ شاہد کاظمی نے ایک لمحے مجھے حیرت زدہ نظروں سے دیکھا اور پھر ایک نظر گلی میں دوڑائی کہ کہیں کوئی دیکھ یا سن تو نہیں رہا ۔ جھلا کر بولے : کون قائم علی شاہ ؟ میں نہیں جانتا ۔ یہ کہہ کر وہ جانے لگے ۔ پھر نہ جانے کیا خیال آیا ، رکے اور پوچھنے لگے کہ کیا لکھا ہے ۔

میں کیا بتاتا خط سربمہر تھا اور میں مہر بر لب  ۔ لگا جیسے قائم علی شاہ کہہ رہے ہوں ۔
نامہ بران سے میرا حال زبانی کہنا
خط نہ دینا کہ وہ اوروں کو دکھا دیتے ہیں
خیال تھا کہ اگر میں نے جواب دینے میں ذرا بھی تاخیر کی تو وہ گیٹ بند کر کے اندر کمرے کے دروازہ تک کی کنڈی چڑھا لیں گے ۔ اس سے پہلے کہ وہ جاتے ۔ میں نے انہیں اپنے ماموں کا نام بتا دیا ۔

ماموں کا نام سنکر انہیں کسی قدر اطمینان ہوا ۔ کہنے لگے خیرپور میرس میں کہاں رہتے ہیں ؟ میں نے محلے یہاں تک کہ گلی تک کا نام بتا دیا ۔  بس اتنا سنا تھا کہ خط میرے ہاتھ سے چیل کی طرح جھپٹ لیا ۔ بغیر ہاتھ ملائے ۔ گیٹ بند کرنے سے پہلے ایک بار اور گلی میں دیکھا اور کھٹ سے کنڈی بند ۔ ہم بھی کون سا وہاں چائے پینے کے ارادے سے گئے تھے ۔ ہماری خود جان پر بنی ہوئی تھی ۔

گلی سے تیز تیز قدم چلتے ایسے باہر نکلے کہ پلٹ کر بھی نہ دیکھا ۔ ایک مرتبہ میں نے ماموں سے خط کے متن کے بارے میں پوچھا تو کہنے لگے کہ سائیں قائم علی شاہ کے شاہد کاظمی سے ذاتی مراسم ہیں اور اس خط کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں تھا ۔ تب میری بھئ جان میں جان آئی ۔
کچھ سالوں بعد 1988 میں ، ایک مرتبہ ایک صاحب کے ساتھ ایک دفتر جانے کا اتفاق ہوا ۔ وہاں شاہد کاظمی صاحب سے ملاقات ہوئی ، ہاتھ ملایا ۔ میں تو انہیں پہچان گیا لیکن وہ مجھے پہچان نہ پائے ۔ اگر پہچان بھی جاتے تو کیا بتاتے ۔۔۔ سائیں قائم علی شاہ کا ڈاکیہ !

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :