الف کی ڈوری اور کورونا

اتوار 5 اپریل 2020

Dr Affan Qaiser

ڈاکٹر عفان قیصر

یہ شہر کی ویران سڑکیں تھیں اور ان پر ناچتی وحشت۔ شہر آج سہما ہوا تھا۔ انسان کدھر گئے، یہ سوال یہ ویرانی، تاریک اندھیرے سے کرنے پر مجبور تھی؟ وہ شاپنگ مالز، وہ مہنگے ریستورانت، وہ کپڑوں کی بڑی بڑی شیشوں والی دکانیں ،سب آج کہیں چھپ گیا تھا۔ آدم ِ انسان کی ایک رعونت تھی، نئے ماڈل کی مہنگی ترین گاڑیاں، مہنگے جدید سیل فون، جدید ترین زیور اور میک اپ سے آراستہ حسین چہرے، سب ایک دم غائب ہوگیا۔

یہ تو میری شہر کی کہانی تھی،باہر کی دنیا کی رنگینیاں اس سے کئی گنا زیادہ وسیع تھیں، ناچتے اجسام تھے،بوتلوں سے گلاسوں تک کے سفر میں مہنگے ترین مشروب،بڑی بڑی عمارتیں، بزنس کلاس ہوٹلوں کے کمرے ،سونے کے جہاز، اربوں کھربوں کی گنتی،سب رب کی ایک پھونک نے غائب کردیا۔

(جاری ہے)

مجھے 1914ء کا وہ وقت یاد آگیا کہ جب فرانس، برطانیہ،امریکہ اور دیگر الائیڈ طاقتیں آسٹریا،جرمنی،خلافت عثمانیہ سے لڑرہی تھیں، یہ جنگ ِ عظیم اول تھی۔

آج کے جدید ترین ہتھیاروں کی بنیاد رکھی جارہی تھی اور ادھرمیرے رب کا غضب للکارا جارہا تھا۔ دنیا پر یہ فساد چار سال جاری رہا کہ پھر 1918ء میں امریکہ کی ایک سٹیٹ کینساس کے علاقے Haskell County کے ایک ڈاکٹر لورنگ مانر نے ایک عجیب و غریب بیماری کی اطلاع دی۔ یہ بیماری فلو کی طرح شروع ہوتی،نزلہ،کھانی،زکام،بخار اور پھر بدترین نمونیا ،الٹیاں اور موت۔

یہ بیماری شروع تو امریکہ سے ہوئی،مگر جنگی جنون میں امریکہ نے فوجیوں کا حونصلہ بلند رکھنے کے لیے اسے چھپا لیا۔ سپین کاپریس آزاد تھا اور سپین پہلی جنگ ِ عظیم کا حصہ نہیں تھا، جب یہ بیماری پھیلی تو سپین کے میڈیا نے اس کی سب سے پہلے خبریں دنیا کو دینی شروع کیں اور یوں یہ بیماری سپینش فلو کے نام سے مشہور ہوگئی۔سپینش فلو اس قدر خطرناک تھا کہ اس نے جنوری 1918ء سے دسمبر 1920ء تک تقریبا پچاس کروڑ افراد کو متاثر کیا اور پانچ کروڑ افراد کی جان لے لی،جن میں زیادہ تر تعداد جوان فوجیوں کی تھی۔

ابتدائی چوبیس ہفتوں میں صرف فرانس میں240,000 افراد مارے گئے۔ اس فلو کے پھیلتے ہی فوری جنگ بندی عمل میں لائی گئی ، مگر فلو کی تباہ کاریاں جاری رہیں۔ چار سال میں اتنے فوجی جنگ سے نہیں مرے تھے ،جتنے فلو سے مر گئے۔ پوری دنیا میں آج کے کورونا جیسی وارننگ جاری کی گئی،ماسک کی پابندی لازمی تھی، مگر اس وبا نے اپنا موت کا کھیل جاری رکھا۔ اڈولف ہٹلر جو اس جنگ میں ایک سپاہی تھا،دوسری جنگ ِ عظیم کا موجد بن گیا۔

1943ء میں اس وائرس کا سٹرین دریافت ہوا ،جس کا نام H1N1 یعنی انفلوینزا نامی وائرس رکھا گیا۔ یہ وبا اس قدر خطرناک تھی کہ اسے 1346ء میں کالی موت یعنی Great Bubonic Plague طاعون کے بعد دنیا پر سب سے بڑی وبا ء قرار دیا گیا۔ 1346ء سے 1353ء کے درمیان طاعون کی بیماری نے اس وقت بیس کروڑ افراد کی جان لے لی تھی، یعنی دنیا کی ایک چوتھائی آبادی ہی ختم کردی تھی۔ یہ کہنے کو چوہوں پر ایک خاص مکھی کے ذریعے پھیلی تھی، مگر اس کی شدت بہت زیادہ تھی۔

محقق کہتے ہیں یہ وہ وقت تھا کہ جب یورپ غلاموں پر ظلم کررہا تھا، دنیا میں خوراک کے مسائل تھے، آبادی خوراک کی پیداوار سے زیادہ تھی، مگر طاعون کے بعد دنیا کا توازن درست ہوگیا خوراک ملنے لگی، غلاموں کی تنخواہیں بڑھ گئیں اور جو انسان زندہ بچ گئے،ان کا طرزِ زندگی بہتر ہوگیا۔اس طاعون کے بعد بھی وبائیں آتی رہیں ،مگر شدت دنیا کو ختم کرنے جیسی نہ تھی، 1665ء میں لندن میں طاعون کی بیماری پھیلی، 1770ء میں روس میں طاعون پھیلا،1916ء میں امریکہ میں پولیو کی وباء پھوٹی اور ایسی کئی درجنوں وبائیں، مگر جو تباہی سپینش فلو لایا وہ کالی موت کے بعد سب سے زیادہ تباہ کن تھی۔

سپینش فلو کا یہی سٹرینH1N1 1957ء میں سنگاپور فلو،1968ء میں ہانگ کانگ فلو اور پھر 2009ء میں سوائن فلو لے کر آیا۔ مگر شدت سپینش فلو سے کئی گنا کم تھی،پھر ویکسین آگئی اور ہمیشہ کے لیے دنیا اس بدترین وباء سے طاعون کی طرح محفوظ ہوگئی۔ چین میں 2002ء میں گوشت کی منڈیوں سے جانوروں سے انسانوں میں ایک وائرس منتقل ہوا، وبائی صورت اختیار کی، مگر دنیا ترقی کرچکی تھی،اس کا نام SARS COV 1 رکھا گیا، زیادہ طاقتور نہیں تھا، زیادہ تباہی مچائے بغیر ہی ختم ہوگیا۔

یہ وائرس چمکادڑوں سے بلیوں اور پھر ان کے گوشت سے انسانوں میں منتقل ہوا تھا۔ سپینش فلو کی طرح یہ وائرس دوبارہ سعودی عرب میں چمکادڑوں سے اونٹ کے گوشت اور پھر انسانوں میں منتقل ہوا ،جہاں یہ مڈل ایسٹ ریسپائیریٹری سنڈروم MERS کہلایا۔ 2019ء کی دنیا فرق تھی۔ یہی وائرس چین کی گیلی گوشت کی منڈیوں میں پروان چڑھ رہا تھا ،جہاں سے چمکادڑوں سے مور خور اور پھر انسانوں میں منتقل ہوا،اب کی بار یہ بہت زیادہ طاقتور ہوچکا تھا، یہ 37 ڈگری سینٹی گریڈ پر زندہ رہ سکتا تھا۔

اس لیے یہ ووہان کی گوشت منڈی سے نکل کر دنیا میں تباہی مچانے لگا۔ یہ عمومی بخار،تھکاوٹ،نزلہ،کھانسی ،زکام سے شروع ہوتا اور پھر بدترین نمونیا کی شکل اختیار کرلیتا ۔ دیکھتے ہی دیکھتے یہ پوری دنیا میں پھیلنے لگا اور آج کی تاریخ تک یہ دنیا میں 53,190 افراد کی جان نگل چکا ہے اور بہت ہی تیزی سے پھیل رہا ہے۔آج کی دنیا طاقتور دنیا ہے، سوشل میڈیا کا دور ہے اور یہ دنیا حالتِ جنگ میں بھی کسی طور نہیں ہے تو سپینش فلو جیسی ہلاکت خیزی سے بچنا جانتی ہے،لہذا فوری طور پر لاک ڈاؤن میں جاچکی ہے۔

یہ وائرس جس کا موجودہ نام SARS COV 2 ہے ،سپینش فلو کے H1N1 سے کئی گنا زیادہ طاقتور ہے۔ یہی وائرس اگر 1918ء میں آتا تو شاید تباہی اس کالی موت جیسی ہوتی جو 1346ء میں آئی تھی، مگر آج کی دنیا میں ایسا ممکن نہیں ہے، گو دنیا کو اس سے لڑنا ہوگا اور دنیا لڑ رہی ہے۔ راقم القلم نے تاریخ کی بدترین وباؤں کا بہت تفصیل سے مطالعہ کیا،یہ تحقیق کئی راتوں پر مشتمل تھی۔

ہر وبا ء سے پہلے دنیا کسی ایسے کام میں ضرور ملوث تھی،جو کسی طور خدا کے غضب کو دعوت دیتا تھا۔ آپ قومِ لوط کی تاریخ پڑھ لیں،آپ کو میری بات سمجھ آجائے گی۔ کورونا وائرس کی وباء سے پہلے اسلامی پردے پر دنیا میں پابندیاں لگائی گئیں، یہ پردے منہ پر سے نوچے گئے،آج امریکہ کا صدر خود ایسا پردہ کرنے کی منت کررہا تھا۔ سمند ر کے ساحلوں پر اچھے کپڑوں میں تیرتی بچوں کی لاشیں، شامی بچے کی رب سے شکایت لگانے کی فریاد، شام ،یمن،عراق،ایران،کشمیر،افغانستان ہر جگہ ایک فساد برپا تھا۔

ایران اور امریکہ تیسری جنگ ِ عظیم کی طرف جارہے تھے، گستاخانے خاکے اور پھر ویب سائیٹس پر ایسا مواد، کچھ تو تھا،جو اس ڈوری کو کاٹنے کی کوشش کررہا تھا،جس سے انسان اور رب کی سیدھی لو جڑی ہے۔انسان کے سینے میں دھڑکتے دل سے سیدھی سات آسمانوں کے اس پار رب تک۔اب کی بار رب آدمِ ِ انسان سے اتنا ناراض ہوا کہ کلیساؤں،مسجدوں،مندروں سب میں ہی انٹری بین کردی ۔

انسان نے اب کی بار بہت بڑی گستاخی کی ہے اور ناراضگی بھی اتنی ہی بڑی ہے،سزا کا فیصلہ بھی رب نے ہی کرنا ہے۔ رات کے اندھیروں میں خلوت میں کبھی اس کشش کو محسوس کرنے کی کوشش کیجیے جو آپ کے دل سے نکل کر ایک پتلی ڈور کے ذریعے سیدھی رب تک جاتی ہے۔اس دعا کی طاقت کی وجدانی کیفیت کو اپنے اوپر نازل کیجیے کہ جب آپ خود کو رب کے سامنے گڑگڑاتے محسوس کرتے ہیں اور پھر اس کورونا وائرس کی اصل سمجھنے کی کوشش کیجیے۔

انسان کا اس کے رب سے رشتہ ایک سیدھی لکیر جیسا ہے ، ’ الف‘ کا رشتہ ۔ یہ رشتہ بہت ہی نازک ہے۔ اس کو مضبوط آپ کی تنہائیاں کرتی ہیں، آپ کے وہ آنسو کرتے ہیں،جو آپ کسی بارش میں کالے بادلوں کے اس پار جھانکنے کی کوشش میں بہانے کی سعی کرتے ہیں کہ صرف وہ آپ کے آنسو دیکھ لے اور آپ کے اس سکون پر اطمینان کرلے کہ اس کی مخلوق جانتی ہے کہ اس نے اپنے خالق ،اپنے معبود کو کیسے راضی کرنا ہے۔

یہاں دنیا الف جیسی سیدھی لکیر کو بھول گئی،وہ اپنے ٹیڑھے پن میں ایسی پاگل تھی،کہ نہ اس کو شام کے چند ماہ کے بچے نظر آئے،نہ کشمیر کے لاک ڈاؤن میں سہمے بزرگ۔ ہر طرف بارود تھا اور ہم اس بارود کے دھویں میں اپنے اپنے ٹیڑھ پن میں منافقانہ دھمال ڈالتے،سیدھے الف کی ’ لو ‘ لگانے کی جستجو میں رہے۔مجھے یقین ہے،یہ وبا ء ٹل جائے گی،رب کالی موت،سپینش فلو کے بعد اس کورونا وائرس سے بھی دنیا کو نجات دے دے گا،اور دنیا کا نظام پہلے سے بہتر ہوجائے گا، مگر اب کی بار پوری دنیا ،خاص کر عالم ِ اسلام کو الف کی ڈوری کی اصل طاقت سمجھ کر جینا ہوگا۔

ہماری نسلوں کی بقا ،آئندہ ایسی وباؤں کے نہ آنے میں ہے اور یہ سب تبھی ممکن ہوگا،جب الف کی ڈوری مضبوط ہوگی، او ر اس کی مضبوطی صرف ان دھمالوں میں ہے،جو تاریکی میں روتی آنکھوں کے ساتھ سجدوں میں ڈالی جائیں ،بارود کے دھویں اور سمندر پر تیرتی معصوم بچوں کی لاشوں سے بہت دور۔ آخر میں اتنا ہی،
تقدیرِ الٰہی کے نوشتے بھی وہی ہیں
 اللہ بھی وہی اور اْس کے فرشتے بھی وہی ہیں
 اْتر سکتے ہیں تیری امداد کو ملائک اب بھی
گر ذاتِ الٰہی سے تیرے رشتے وہی ہیں

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :