جہالت ،کورونا اور عوامی رویے

منگل 9 جون 2020

Dr Affan Qaiser

ڈاکٹر عفان قیصر

کورونا وائرس کا جن بوتل سے پوری طرح باہر آگیا ہے اور جن کے ساتھ عوام بھی پوری طرح باہر آگئی ہے ۔ اب وہ وقت ہے کہ شاید دما دم مست قلندر ہوگا۔ یہ ایک ان دیکھے دشمن سے گھمسان کی جنگ ہے۔ ایک نہتی نڈر لاپرواہ فوج اور دوسری طرف تاتاریوں کی تباہی مچاتی طوفانی فوج ،جو اپنے راستے میں سب ختم کرتی آرہی ہے۔ یہ کورونا وائرس کے موضوع پر میرا چھٹا کالم ہے۔

میں نے بھی پہلے اس مرض کو پڑھنے کی سعی کی،اس کے علاج کا پڑھا،عوامی رویے پڑھے ،اس کی انٹرنیشنل پالیسی کو سمجھا اور پھر اس کو اپنے ملک میں دیکھا۔ آج بطورکالم نگا ر نہیں،بطور ڈاکٹر یہ جملہ لکھنے پر مجبور ہوں کہ موجودہ حالات میں اس ملک کے باسیوں کو ہونے والا ہر بخار، ہر نزلہ،ہر انجانی تھکاوٹ کورونا وائرس ہوسکتی ہے، جن تک اس کو ثابت نہیں کرلیا جاتا کہ یہ کورونا نہیں ہے۔

(جاری ہے)

اس لیے جو مریض پہلے ٹھیک تھا اور اب اچانک بیمار ہوگیا،ہمیں اس کا پہلا ٹیسٹ کورونا وائرس ہی کرانا ہے۔ کورونا وائرس کے خلاف ہماری عوامی رویہ بالکل سمجھ سے بالاتر ہے۔ ایک وقت تھا کہ جب ہمارے ملک میں پچاس کیسز تھے، تو دو دو گھنٹے کی آذانیں دی جاتی ہیں، خوف کا عالم اس قدر شدید تھا کہ لوگ ایک دوسرے کے وجود سے گھبرا رہے تھے اور اب جب کیسز ایک لاکھ ہونے کو ہیں، عوام میں خوف بالکل ختم ہوچکا ہے۔

سینما تک کھل رہے ہیں، اور ہم نے کورونا وائرس جیسے موضی مرض کو بالکل عام نزلہ کھانسی بخار کی طرح لے لیا ہے۔ اس سارے امر میں ایک انتہائی افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ عوام فرسٹیشن کا شکار ہوکر ،جہالت کا رخ کرنے لگی ہے۔ یہ وہی سب کچھ ہے جس سے اس ملک میں بطور ڈاکٹر میں ساری عمر لڑتا آیا ہوں۔ علاج سے زیادہ جادو ٹونا، حکیموں اور معاشرے میں موجود وہ لوگ جن کا کورونا وائرس کے بارے میں کسی قسم کی رائے دینا شاید جرم ہونا چاہیے،انہوں نے اس عرصے میں وائرس کی احتیاط کی شکل بگاڑ دی ہے۔

یہاں ہر طبقہ فکر سے تعلق رکھنے والے شخص نے گھروں میں سکون سے رہ کر اپنے بیوی بچوں،والدین کے ساتھ وقت گزارنے کی بجائے کورونا کے ساتھ وقت گزارا،اس میں معاشرتی جہالت اور روایات کو شامل کیا اور آج اس کا نتیجہ یہ ہے کہ عوام اپنی پرانی روش پر اتر آئی ہے۔ وہ ڈاکٹروں کی بات سننا تو دور،قصائیوں کی صدائیں بلند کرنے لگی ہے۔ ان کے نزدیک یہ وائرس یہودیوں کی سازش ہے اور اس کی ویکسین بھی ان کے جسموں کے لیے انتہائی خطرناک ثابت ہوگی۔

کورونا وائرس کے مریضوں کو جان بوجھ کر ڈاکٹر وینٹیلیٹرز پر ڈال رہے ہیں ،اس کام کے ان کو بے پناہ ڈالرز مل رہے ہیں۔ ہر وہ مریض جو ہسپتال جاتا ہے اس کو کورونا بنا کر مار دیا جاتا ہے اور اس کے ڈاکٹر پیسے لیتے ہیں۔ کورونا وائرس سے سرکار کو اربوں ڈالر مل رہے ہیں اور یہ سب عوام سے چھپایا جارہا ہے۔اصل حقیقت یہ ہے کہ کورونا وائرس نام کی کوئی چیز ہے ہی نہیں ،یہ صرف جھوٹ ہے۔

اس جیسی ہزاروں کہانیاں ہیں،جو میں روز سن رہا ہوں اور اس قسم کا عوامی رویہ شدید خطرناک ہے۔ اگر آپ مسلمانو ں کے زوال کی تاریخ پر نظر ڈالیں،تو ارطغرل ڈرامہ ٹاپ ٹرینڈنگ پر دیکھنے والی اس قوم کو اندازہ ہوگا کہ ارطغرل کی ذہانت سے جسم خلافت عثمانیہ کی بنیاد ڈالی تھی،اس کو وہ جہالت کھاگئی، جو اس کے زوال کے دنوں میں بانٹی گئی۔ یورپ جب پرنٹنگ پریس آنے کے بعد ترقی کرنے لگا،اس کا خلافت ِ عثمانیہ میں بائیکاٹ کیا گیا،اس کو حرام قراردیا گیا اور اسی قسم کے جہالت پر مبنی رویے پوری امت کے زوال کا سبب بنے۔

کورونا وائرس کے خلاف ہماری جنگ اصل بیماری سے زیادہ اس جہالت سے ہے جس نے ایسے عوامی رویوں کو جنم دے دیا ہے جو اب گھر گھر موت بانٹنے چلے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے کیسز جو یکم مئی کو چار پانچ ہزا ر تھے،یکم جون کو ستر اسی ہزارہوگئے اور جولائی کے آخر تک ممکنہ یہ سات آٹھ لاکھ ہو سکتے ہیں۔ بائیس کڑوڑ آبادی والے ملک میں اس قدر تیزی سے یہ وائرس پھیلتا گیا تو اس کی ہلاکت خیزی کا مقابلہ ناممکن ہوجائے گا۔

اس بیماری نے اٹلی ،امریکہ جیسے ملک کے صحت کے نظام کی بنیادیں ہلا کر رکھ دی تھیں، مگر وہاں کے ڈاکٹر صرف اس بیماری کے خلاف لڑے تھے۔یہاں کے ڈاکٹروں کو ،اس پڑھی لکھی جاہل سوچ سے بھی لڑنا ہے، جو بالکل جاہل سوچ کو اپنا یرغمال بنالیتی ہے اور پھر زوال اس قدر بدتر ہوتا ہے کہ تاریخ یاد رکھتی ہے۔ کورونا وائرس ایک عالمی وباء ہے۔ یہ سپینش فلو نہیں ہے،جو ایک دو سال میں لاکھوں کی جان لے کر ختم ہوجائے گا۔

یہ خطرناک وائرس کئی سال رہ سکتا ہے اور اس سے لڑنے کے لیے سب سے پہلے جہالت کو ختم کرنا ہوگا۔ آپ میں سے بہت سے قارئین کے لیے شاید یہ بات نئی ہو، مگر حقیقت یہ ہے کہ افغانستان اور پاکستان پوری دنیا میں وہ واحد دو ممالک ہیں کہ جن سے آج تک پولیو ختم نہیں کیا جاسکتا۔اس کی وجہ بھی وہ جھوٹ ہے جو پولیو کے نام پر پھیلایا گیا۔ کبھی پولیو کے قطروں کے بارے میں یہ کہا گیا کہ اس میں آبادی کو کم کرنے کے لیے ایسے اجزاء شامل ہیں جو بچے پیدا نہیں ہونے دیتے،کبھی یہ کہا گیا کہ اس میں زہر ملایا جاتا ہے۔

یہ وہ جھوٹ تھے کہ جنہوں نے اس بیماری کو آج تک اس ملک میں زندہ رکھا ہے،جبکہ پوری دنیا سے یہ تین دہائیوں پہلے ختم ہوچکی ہے۔ کورونا وائرس میں ہم نے قومی جہالت میں پی ایچ ڈی کرلی ہے اور اب ہر طرح کا جھوٹ بیچا جا رہا ہے۔اس لیے قومی رویہ اس قدر غیر سنجیدہ اور غیر ذمہ دارانہ ہے۔ ہم شاید دنیا کی واحد قوم ہوں گی کہ جب ان کو بچانے والے،ان کے اس رویے کے باعث جانوں کے نظرانے پیش کررہے ہیں، یہ انہی پر ڈالرز لینے جیسے الزامات لگا کر ان کی جانیں لے رہی ہے۔

حقیقت میں عوام کی غفلت سے آج کئی ڈاکٹروں،نرسوں اور دیگر ہیلتھ پروفیشنلز مر رہے ہیں،ان کے والدین بچے مر رہے ہیں۔آج اس ملک میں ایک ایک دن میں پانچ پانچ ڈاکٹر تک مر رہے ہیں، مگر ہم نے اب جہالت کا ایسا حصار بنا لیا ہے کہ ہم سدھرنے کو تیار نہیں ہیں۔ ایسے میں اب وہ وقت آگیا کہ جب آپ کا صحت کا نظام جواب دینے لگا ہے، مصنوعی سانس کی مشینیں ختم ہورہی ہیں، لوگ بند کمروں میں مر رہے ہیں۔

ان کی اپنی اولادیں کورونا کے خوف سے ان کی لاشیں بند کمروں میں چھوڑ کر بھاگ رہی ہیں ۔ہر طرف جہالت، خوف اور افراتفری کا تعفن ہے اور ہم اس تعفن میں بھی بے خوف محو رقص ہیں۔ ہم نے دھوم دھام سے عید منائی ہے اور ہم کورونا وائرس کی حقیقت کو جھٹلا کر ،اندھیری قبر کے انتظار میں ہیں کہ کب سانس کی ایک ایک بوند کو سسکتی موت ہمیں آگھیرے اور ہم آخری لمحے اس یقین کے ساتھ رخصت ہوجائیں کہ کورونا وائرس حقیقت تھی، جہالت ہماری موت بن گئی ، کاش ہم ڈاکٹروں اور سرکار کی ہدایات پر عمل کرلیتے، چند سال زندگی کی اور بہاریں دیکھ لیتے تو ایک ایک دن عید ہوتا، اب ایک ایسی موت مقدر ہے ،جہاں ایسی ہی جہالت پر یقین کرنے والے ہماری موت کے بعد بھی ہمیں نہیں چھوڑیں گے۔

تب بھی یہ ان ڈالرز کا تعاقب کریں گے جو ہمارے مرنے کے بعد ڈاکٹروں کو مل گئے،جہالت کو جنم دیں گے،جہالت بانٹیں گے اور اسی جہالت میں مرجائیں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :