اسلام کے مطابق چلیں مسلمانوں کے مطابق نہیں

منگل 26 مئی 2020

Dr Maqbool Ahmad Siddiqi

ڈاکٹر مقبول احمد صدیق

اگر مسلمانوں نے بحثیت قوم ترقی کرنی ہے تو انہیں اسلام کے پیچھے چلنا ہوگا--مسلمانوں کے پیچھے ہر گز نہیں۔اس سے مراد ہے کہ اس دور کے مسلمانوں کو دیکھ کر ہم نے اپنا راستہ طے نہیں کرنا کہ مسلمان کسطرف جا رہے ہیں کیونکہ مسلمان تو مختلف ممالک مختلف نظریات اور مختلف مسالک رکھتے ہیں ان کے پیچھے چلیں گے تو اسطرح ایک واضح راستہ نہیں ملے گا-ہاں اگر اسلام کے راستے یعنی قرآنی تعلیمات پر چلیں گے تو ضرور سیدھا راستہ ملے گا--اس ضمن میں حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کی زندگیاں ہی ہمارے لیے نمونہ ہیں۔


آجکل ترکش تاریخی ڈرامے ارطغرل غازی کا خوب چرچا ہے --یہ ڈرامہ 60 سے زائد ممالک میں دکھایا جا رہا ہے اور پاکستان میں بھی بے حد مقبول ڈرامہ کے طور پر دیکھا جا رہا ہے--یہ ڈرامہ دیکھنا چاہیئے یا نہیں اس پر کافی نظریات پیش کیے جا رہے ہیں۔

(جاری ہے)

اسکا سیدھا سیدھا جواب بھی یہی ہے کہ اسلام کی تعلیم اور مسلما نوں کا عمل اسے علیحدہ علیحدہ رکھیں۔

اگر اسلامی تعلیم میں ڈرامہ جائز ہے تو اسکا دیکھنا جائز ہوگا- لیکن اگر مسلمان اس ڈرامہ کو بہت زیادہ دیکھ رہے ہیں تو صرف مسلمانوں کا عمل دیکھ کر آپ اس ڈرامے کو جائز ہرگز قرار نہیں دے سکتے۔تعلیم کو دیکھ کر چلنا یہ طریقہ ہے کامیابی کا۔ڈرامے کے اچھے پہلو تو صرف ایک پہلو ہے اسکے دوسرے پہلو دیکھنا بھی ضروری ہے۔بہرحال جو لوگ اسے اسلامی ڈرامہ کہتے ہیں ان کے دلائل درج ذیل ہیں۔

یہ ڈرامہ اسلام کا درست تصور پیش کر رہا ہے:
بعض لوگ کہتے ہیں کہ ڈرامہ ارطغرل میں فلمی انداز سے نہایت عمدہ طریقہ سے بتایا گیا ہے کہ اسلام ایک انصاف پسند دین ہے-اسکے ماننے والے عبادت گزار اور بہادر ہیں-مشکل حالات میں بھی اللہ پر بھروسہ رکھتے ہیں--نبی پاک کا احترام کرتے ہیں علماء و بزرگان کی قربت اختیار کرتے اور بڑوں کی عزت کرتے ہیں۔

یہ کہہ کر وہ اس ڈرامہ کے بارے میں کہتے ہیں کہ اس سے مسلم دنیا میں انقلاب آرہا ہے۔مگر یہ نظریہ بالکل غلط ہے-- صرف چند اچھی باتوں کو دیکھنا اور باقی باتوں کو نظر انداز کر دینا یہ بالکل غلط طریقہ ہے۔ اسلامی تعلیمات میں ڈرامہ- اداکاری اور میوزک کو پسند نہیں کیا گیا ہے-ڈرامہ ارطغرل میں ہیرو ہیروئن کے علیحدگی کے مناظر بھی دکھائے گئے ہیں --یہ کئی بار گلے بھی لگتے ہیں۔

پس ڈرامہ کے کئی اجزاء ناپسندیدہ ہیں یا حرام ہیں۔اچھی باتوں میں گندی باتیں ملانے سے کوئی چیز حلال نہیں ہو سکتی۔اس لحاظ سے ڈرامہ دیکھنے کو اسلامی طریقہ نہیں کہا جا سکتا۔
یہ ڈرامہ مسلم دنیا میں خوب مقبول ہو رہا ہے:
بعض لوگ کہتے ہیں کہ اسلامی ممالک میں یہ ڈرامہ خوب مقبول ہو رہا ہے --اس ڈرامے نے ریکارڈ توڑ تاریخی کامیابی حاصل کی ہے یکم رمضان سے یہ پاکستان میں دکھایا جا رہا ہے اسکے یوٹیوب چینل پر صرف 15 روز میں 10 لاکھ سبسکرائبر ہوگئے ہیں -اس نے سابقہ تمام ڈراموں کے ریکارڈ توڑ دیے ہیں اسکی پہلی قسط کو یوٹیوب پر ایک کروڑ 41 لاکھ سے زائد افراد دیکھ چکے ہیں۔

یہ کہہ کر اس ڈرامے کے مداح بہت خوش ہوتے ہیں کہ دیکھو مسلمان کس قدر اسے پسند کر رہے ہیں۔مگر ان کی یہ دلیل بھی غلط ہے۔دراصل لوگوں کی پسند و ناپسند پرچلنا یہ تو اسلامی انداز نہیں- اللہ کی مرضی کے مطابق چلنا درست انداز ہے ۔اللہ تعالی نے اسلامی تعلیم پر چلنے کا حکم دیا ہے-لوگ کس راہ پر زیادہ چل رہے ہیں اس راہ پر چلنے کا حکم نہیں دیا۔
یہ ڈرامہ مسلمانوں میں خلافت کا تصور لائے گا:
ڈرامہ سے مسلمان اتحاد کا سبق سیکھیں گے یہ درست نہیں۔

ترکی کی زبان ترکش ہے اسی زبان میں ڈرامہ ارطغرل بنایا گیا ہے اب یہ زبان مسلمانوں کی نمائندہ زبان نہیں ہے۔نیز اسلام کا مرکز تو مکہ اور مدینہ ہیں اب ترکی اس لحاظ سے بھی سارے اسلامی ممالک کا نمائندہ نہیں کہلا سکتا۔غالبا انہیں وجوہات کی بناء پر ارطغرل ڈرامے کو سعودی عرب اور بعض اسلامی ممالک پسند نہیں کر رہے۔
اس ڈرامے نے ہالی وڈ اور بالی وڈ کا بھرپور مقابلہ کیا ہے:
بہت سے لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ اس ڈرامے نے امریکہ اور یورپی ممالک کی نیندیں حرام کر دیں ہیں-کہ مسلمانوں نے اسقدر شاندار فلم بنائی ہے۔

حیرت ہے ایسے نادانوں پر بجائے جائز علوم اور ٹیکنالوجی کے وہ دوسروں کا فلموں سے مقابلہ کرنا چاہتے ہیں۔اگر اداکاری جائز ہوتی تو علماء ومذہبی سکالرز وبزرگان کی اچھی خاصی تعداد اداکار ہوتی۔
اداکاروں سے متاثر نہ ہوں اصل کرداروں سے ہوں:
اس ڈرامہ میں ارطغرل اور اسکی بیوی کا کردار ادا کرنے والے ہیرو اور ہیروئن پر تنقید کی جاتی ہے کہ وہ حقیقی زندگی میں اسلامی تعلیمات کے مطابق زندگی نہیں گزار رہے بلکہ دیگر فلموں یا ڈراموں میں غیر اخلاقی مناظر بھی فلما لیتے ہیں۔

اسکے جواب میں ڈرامے کو اسلامی کہہ کر اسکا دفاع کرنے والے کہہ دیتے ہیں کہ آپ اداکاروں کو مت دیکھیں بلکہ وہ جن شخصیات کا کردار ادا کر رہے ہوتے ہیں یعنی ارطغرل اور حلیمہ سلطان انکو ذہن میں رکھیں--آپ اداکارہ کی خوبصورتی مت دیکھیں۔مگر یہ جواب بھی غلط ہے کیونکہ ڈرامہ میں لوگوں کے سامنے وہ تاریخی لوگ نہیں ہوتے بلکہ اداکار ہی ہوتے ہیں-لوگ اپنے سامنے نظر آنے والوں سے ہی متاثر ہوتے ہیں انکے ڈائیلاگ ان کے سٹائل ان کے قدوقامت سے ۔

ارطغرل ڈرامہ میں ہیرو ہیروئن کئی بار گلے لگتے ہیں علیحدگی میں رومانوی مناظر فلماتے ہیں یہ مناظر دیکھ کر لازمی اخلاقیات پر برا اثر پڑتا ہے جو لوگ کہتے ہیں کہ خرابی انسان کے دماغ میں ہوتی ہے نظر میں نہیں وہ غلط کہتے ہیں۔اسلام تو بیماری کو جڑ سے اکھاڑ پھینکتا ہے-- لڑکی ہو اور رومانوی حرکت ناممکن ہے یہ منظر اکثر پر برا اثر نہ ڈالے۔

اسی لیے اسلام نے عورت کو پردہ کا حکم دیے دیا - اور بدنظری کا خاتمہ کیا۔پھر اگر یہ ڈرامہ پوری دنیا میں خوب مقبول ہوا ہے تو اسکی وجہ یہ نہیں تھی کہ ارطغرل اور اسکے قبیلہ کے حالات بہت علمی اور دلچسپ تھے بلکہ یہ ڈرامہ مقبول ہوا ہے تو بہترین ڈرامہ رائٹنگ اور عکسبندی کی بدولت ہی۔ اب ان باتوں کا اختصار یہ ہے کہ ڈرامہ کو ڈرامہ ہی سمجھیں اسلامی نہ سمجھیں۔
ڈراموں کے فوائد ضرور ہوتے ہیں مگر ان کے نقصانات زیادہ ہوتے ہیں- تاہم اس ڈرامہ کو دوسرے بے ہودہ اور واہیات ڈراموں کی نسبت اچھا ڈرامہ ضرور کہہ سکتے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :