اب دردِ دل علاج و دوا سے گزر گیا

جمعرات 14 فروری 2019

Dr Shahid Siddique

ڈاکٹر شاہد صدیق

خواجہ حارث صاحب نے جب العزیزیہ کیس میں شہادتوں کی بنیاد پہ ضمانت کے لئے درخواست واپس لی تو مجھے بہت حیرت ہوئی کہ کیا اب ان کے موکل کے پاس اپنے دفاع میں کچھ کہنے کو  نہیں بچا یا کچھ ہے نہیں  جس سے اذیتوں سے چھٹکارا ہویا اس سزا کو انہوں نے نیلسن منڈیلا کی طرح بھگتنے کا فیصلہ کر لیا ہے- لیکن پھر خیال آیا کہ نیلسن منڈیلا پہ تو کرپشن کا کیس نہیں تھا وہ تو ایک جدو جہد میں پابندِ سلاسل تھے – ہمارے بڑے میاں صاحب کا دامن تو کرپشن میں ملی سزا نے داغدار کر رکھا ہے وہ کیوں نہیں اپنی بے گناہی کی جنگ لڑیں گے- یہ حیرت اس وقت دوچند ہو گئی جب ان کی طرف سے میڈیکل گراؤنڈز پہ ضمانت کی درخواست آئی – میاں صاحب  جیل کی سختی سے موت کےمنہ میں اٹکے ہوئے ہیں  اور عارضہء قلب  کے لا علاج ہونے کو بنیاد بنا کے وکیلِ محترم کی عدالت میں پیشی شاید اس انقلابی میاں صاحب کی سیاسی موت  ہے جس سے اب وہ گزرنے اور لندن روانگی کے لئے سر پیر مار رہے ہیں- موٹر ویز اور میٹروز کی باتیں کرنے والے جب کہتے ہیں کہ میاں صاحب  کے علاج کے لئے پاکستان میں نہ معالج ہے نہ دوا تو میں سوچتا ہوں کہ اتنا کچھ بجری سریہ سے ملک میں تعمیر کر دینے کے بعد بھی وہ ایک ایسا ہسپتال نہ کھڑا کر سکے کہ جو ان کا علاج کر سکتااور دردِ دل کی دوا بنتا- کمر کی درد میں مبتلا چھوٹے میاں صاحب جیل جانے کے لئے بیمار ہیں لیکن منسٹر انکلیو ہو یا پبلک اکاؤنٹ کمیٹی اس کی صدارت میں چاک و چوبند نظر آتے ہیں تو خیال آتا ہے کہ وہ کونسا ٹانک ہے جو جسم کو تقویت دے رہا ہے اور اپنے ان فرائض کی انجام دہی میں ممدو معاون ہے- ابھی تو شاید اسلام آباد  ائرپورٹ کی برسات میں ٹپکی چھتیں بھی نہ سوکھی تھیں کہ  انہوں نے  تین افسروں کی تنزلی  سے کفارہ ادا کرتے ہوئے  کیس ہی نبٹا دیا – سینتیس ارب  لاگت سے شروع منصوبہ  105 ارب تک پہنچا – ابھی بھی دو فیصدی کام نامکمل ہے – اس ائیرپورٹ پہ بین الاقوامی  معیار کہ جس میں طے شدہ ہے کہ اگر دو رن وے بنانے مقصود ہوں تو دونوں کے درمیان فاصلہ ایک کلومیٹر کا ہونا چاہیئے ، سے روگردانی  کرتے ہوئے دو رن وے صرف  225 میٹر کے درمیانی فاصلے سے بنائے گئے  جس کی وجہ سے صرف ایک وقت میں ایک رن وے استعمال ہو سکتا ہے  اس تکنینکی غلطی سے ملکی خزانے کو سوا تین ارب کا  ہوا نقصان یوں دبا دیا گیا ہے کہ نہ رہے بانس نہ بجے بانسری- کون نہیں جانتا کہ یہ ٹھیکہ کس طرح مریم بی بی کے سمدھی کے پاس پہنچا اور اب کیسے کلین چٹ دے کر انہیں اس قومی نقصان سے بری الذمہ قرار دے دیا گیا ہے-  چھوٹے میاں صاحب اب خاندانی معالج بنے ہر اس  بیماری کا علاج تندہی سے کرنے میں مصروف ہیں کہ انہیں اس بیماری کے متعلق سوچنے کی بھی فرصت نہیں کہ جو ان کے جیل جانے پہ مانع ہے- ویسے بھی وقت کم ہے اور مقابلہ سخت ان کے دو بیٹے اور ایک داماد لندن میں بیٹھے اس علاج کے دریافت ہونے پہ امید لگائے بیٹھے ہیں کہ جس کو تلاش کرنے میں چھوٹے میاں صاحب دن رات ایک کئے ہوئے ہیں -شاید  بڑے میاں صاحب کو بھی کسی ایسے معالج ہی کی ضرورت تھی جو انہیں ملک میں ان کے برے وقتوں میسر نہ آ سکا اور اب جب یہ مرض لا علاج ہو چکا ہے تو اس کا درماں لندن کے فلیٹوں میں ڈھونڈا جا رہا ہے- میاں صاحب کو جیل میں جان کا خطرہ ہے تو میاں صاحب سروسز ہسپتال سے جیل کیوں سدھارے جب کہ ان کے پاس پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی جانے کے آپشن  بھی موجود تھی یہ گتھی سلجھانے کے لئے بھی شاید ہمیں خواجہ حارث صاحب  سے ہی مشورہ کرنا پڑے گا- کہتے ہیں کہ ایک دفعہ کوئی جہاز چھوٹے میاں صاحب کو عمرہ کروانے کے لئے شاہی خاندان کی طرف سے لاہور اترا تھا- بڑے میاں صاحب زمیںِ حجاز پہ ہی مقیم تھے- دونوں میاں صاحبان نے شاید کوئی چیک سائن کیا اور ان کا عمرہ ادا ہوا  تھا– اب میاں صاحب کے مربی پاکستان آئے  تو کیا میاں صاحب کی تیمار داری  بھی شاملِ فہرست    رہی  اس کا تو ہمیں معلوم نہیں لیکن یہ بات ضرور میڈیا کی زینت بنی ہوئی ہے کہ لبنانی رفیق حریری  کے بیٹے سعد حریری اپنی پچھلی دفعہ کی این آر آو کے لئے کی گئیں کاوشوں پہ دل گرفتہ ہیں- برے وقت میں تو سب ساتھ چھوڑ جاتے ہیں – شاید میاں صاحبان کا اب  خود بھی عمرہ کے لئے جانے کا پروگرام نہیں ہے- نہ ہی دبئی اور قطر جانے سے دردِ دل کا علاج ممکن ہے – وہ علاج جو لندن کی فضاؤں میں ہے وہی علاج میاں صاحب کو  وہ نسخہء کیمیا دے سکتا ہے  اور مرہم رکھ سکتا ہے کہ جس سے علیل میاں صاحب  کو افاقہ ہوگا اوراب  وہ طبی بنیاد پہ ضمانتوں کے خواہاں ہیں- بی بی مریم کہتی ہیں کہ اگر بڑے میاں صاحب کو کچھ ہوا تو ذمہ دار حکومت ہو گی تو میں ان سے پوچھتا ہوں کہ پچھلے دس سالوں میں کئی پاکستانی مرض  کی اسی سطح پہ پہنچے اور جان سے گئے تو ان کی جانوں کی ذمہ داری کس پہ ڈالی جائے یا صرف یہ ذمہ داران پکڑنے اور ٹھہرانے کے لئے حاکمِ وقت ہونا ضروری ہے- کہتے ہیں کہ حمزہ شہباز صاحب کے ہاں رب نے بیٹی  کی دولت دی ہے اس لئے وہ لندن ہیں اور اپنی بیرونِ ملک ای سی ایل میں   دی گئی مہلت میں اضافہ چاہتے ہیں تو ان سے بھی گزارش ہے کہ کیا ہم پاکستانیوں کے لئے بھی لندن میں زچہ بچہ  کی سہولت ہے- یا دردِ دل  کے علاج کے لئے اگر لندن سے پہلے کا سٹاپ نہیں ہے  تو اسی طرح بڑے لوگوں کے لئے ملک میں خاطر خواہ بچہ زچہ کی سہولت موجود  بھی نہیں ہے یا کچھ اور مقصود ہے کہ جس کو پوشیدہ رکھنا بے شک ان کا قانونی حق ہے-

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :