دیتے ہیں دھوکہ یہ بازی گر کھلا

اتوار 28 جون 2020

Dr Shahid Siddique

ڈاکٹر شاہد صدیق

وفاقی وزیر عمر ایوب صاحب کی پٹرول مصنوعات میں گرانی پہ کی گئی کانفرنس  کے بعد بہت سے سوالات ہیں جو جواب طلب ہیں – انہوں نے مختلف ایشیائی اور خطے میں باقی ممالک کی پٹرول مصنوعات کا جو موازنہ کیا تو یہی محسوس ہوا کہ بات اتنی سادہ نہیں جتنی سمجھائی جارہی ہے – بات پٹرول کی قیمت کی ہوتی تو جواب  یہی بنتا تھا لیکن قوم جس صدمے سے دو چار ہے وہ کچھ اور ہے صاحب- اس قوم نے تو 120 روپے لیٹر میں بھی پٹرول خریدا ہے – سو روپے میں بھی خرید لے گی لیکن صدمے کی وجہ وہ مافیا ہے جس کے سامنے حکومت کمزور اور بے بس نظر آئی ہے- سوال یہ اٹھتا ہے کہ یہ مافیا ہی تو حکومت کا حصہ  ہےجب چاہتی ہے جس طرح چاہتی ہے عوام کو نچوڑتی ہے یا یوں کہوں کہ خوب دل بھر تیل نکالتی ہے- پٹرول سستا تھا تو انہیں پٹرول پمپس نے قطار در قطار اس قوم کو قطرہ قطرہ پٹرول کے لئے ترسایا – حکومت پھر یوں جھکی کہ رات و رات پٹرول کی قیمت بڑھائی اور یکم جولائی کا بھی انتظار نہ کیا – احتساب کے نام پہ آنے والی حکومت ابھی تو عوام کی غربت کا احتساب کرتے اسے ہی نشانہ عبرت بنا رہی ہے اور قصور اس عوام کا یہ ہے کہ اس کو آپ نے  وہ سبز باغ دکھائے ہیں کہ اسے  اسی گلابوں  بھرے چمن کا انتظار ہے لیکن صحن گلستان کی ویرانی اس کے لئے تکلیف دہ ہے اور اب جب  لندن یا آپ کی کابینہ کو  دیکھتی ہے تو  اور دکھی ہوتی جاتی ہے- وہ یہ فیصلہ ہی نہیں کر پا رہی کہ طاقتور کون- آپ کے ماتحت فوج ، رینجرز ، پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے ہیں اور آپ ہی گو مگو کا شکار ہیں- آپ یو ٹرن کو سیاست کا حصہ سمجھتے ہیں لیکن کبھی ایسا یو ٹرن بھی لیجئے کہ عوام کو کچھ ریلیف حاصل ہو – چینی پچپن سے نوے روپے تک پہنچی – آپ نے ہی رپورٹ شائع کی اور آپ نے ہی چینی کے مافیا کو اپنے پر فراہم کئے – کچھ اڑ گئے اور جو بچ گئے ان سے آپ کی چشم پوشی  کیا بھید چھپائے ہوئے ہے عوام جاننا چاہتی ہے – اس رپورٹ پہ عدالتِ عالیہ نے فیصلہ بھی سنا یا اور چینی کی قیمت ستر روپے کلو مقرر کی لیکن آپ اس قیمت پہ چینی کی فروخت  پہ بھی بے بس نظر آئے- آپ  جب بے بسی کی تصویر بنے تو آٹا مافیا کو بھی سمجھ آ گیا کہ ان تلوں میں تیل نہیں انہوں نے بھی نو سو روپے کلو آٹا من مانی قیمت پہ بیچا – آپ نے آٹا کے بعد سوچا کہ شاید پٹرول کے تاجر تجوریاں بھرنے میں ناکام رہے ہیں تو آپ نے پٹرول سستا کیا – پٹرول کی دستیابی آٹا اور چینی جیسے بحران  پھر لے آئی – گاڑیوں، موٹر سائیکلوں کی قطاریں اور ان کو لگاتے دھکا عوام خود اس کے حصول میں دھکے کھانے لگے – ہر جگہ ایک بینر منہ چڑا رہا تھا " پٹرول ختم ہے" پٹرول گدھے کے سر سے سینگ کی مانند یوں غائب ہوا کہ کوئی سراغ نہ لگا سکا –  کچھ پٹرول پمپس   کو جرمانے کئے گئے لیکن حکومت کی رٹ برقرار نہ ہوئی اور اس پہ فردوس نقوی صاحب کے فرمان نے تو سینے پہ اور بھی مونگ دلے  کہ  قیمت بڑھنے کے بعد اب پٹرول آسانی سے دستیاب ہونا شروع ہو جائے گا – ان کا کہا تو یوں سچ ثابت ہوا کہ قیمت بڑھنے سے تیل یوں امڈ آیا کہ جیسے ملک میں ہی تیل کے ذخائر دریافت ہو گئے ہیں- ہر پٹرول پمپ کی چاندی ہوئی اور کھلی باچھوں سے تیل کی ٹینکیاں بھرنے لگیں- شاید وقت کی نماز اور قضا کی ٹکریں  ہی اس حکومت کی کارکردگی اور  کیفیت  پہ  مناسب عنوان نظر آتا ہے – اونٹ رے اونٹ تیری کون سی کل سیدھی  جس پہ بھی حکومت ہاتھ ڈالتی ہے وہیں سے مسائل کا شکار اپنی بقا  سے دوچار دکھتی ہے لیکن اس کی یہ بقا اس کے اپنے ہی اندر کی کہانی ہے جس پہ وزیر سائنس و ٹیکنالوجی کھل کے بولے تھے  لیکن اس اندرونی چپقلش اور زور آزامائی کے کھیل میں پس عوام رہی ہے – قومی اداروں کی صفائی کا عمل جہاں شروع ہوتا ہے وہیں سے حکومتی لاغر پن عیاں ہونے لگتا ہے- پی آئی اے میں 40٪ پائلٹس کے لائسنسزز پہ شکوک و شبہات نے بین الاقوامی  میدانوں میں اس کی ساکھ کو وہ نقصان پہنچایا ہے کہ ہر جگہ کی چہ میگوئیاں  اور اڑتے میزائیلوں کے طعنے اس کے مسافر کے اعتماد کو متزلزل کر رہے ہیں- اس حکومت کو دو سال ہورہے ہیں – پی آئی اے کے چئیر مین بدلے عدالت کے فیصلے نے ان کو قوت بخشی  - پھر ایک  حادثے نے اس کی قلعی ہی کھول دی کہ یہ ادارہ کس  الٹی سمت  کو پرواز بھر رہا ہے – کیا عام شہریوں کی اموات ہی  اب احتساب کے عمل کو شروع کرنے کی وجہ بنے گی یا کچھ اور بھی ہو گا – اگر یہ حادثہ اور جانی نقصان نہ ہوتا تو یہ سب کچھ بھی جوں کا توں  ہی چلتا رہتا – پائلٹس بات نہیں مانتے اور کنٹرول ٹاور پہ بیٹھے جہاز کے کھلے لینڈنگ گئیرز نہیں دیکھ پاتے  کیا لکھوں کیا کہوں- جس طرح کووڈ 19 پہ وزراء کے بیانات  پہ ان کی قابلیت نے شہرت کی بلندیوں کو چھوا  ہے وہ بھی  کسی سے ڈھکے چھپے  نہیں ہیں- وزراء اور مشیران کی ایک فوج ہے لیکن دست و گریباں – کبھی ان کی شہریت پہ سوال اٹھتے ہیں تو کبھی ان کے اثاثوں پہ انگلیاں اٹھتی ہیں – سب مانگا تانگا کب تک چلے گا صاحب اور یہ سب کس کو جوابدہ ہیں کبھی اس پہ بھی روشنی ڈالی جائے – سب سے بڑے صوبے کی کہانیاں اور اس کی شفاف گورنس کس  کی مرہونِ منت ہے اس پہ  بھی کچھ کہا جائے- جس طرح ملک چل رہا ہے اس سے بہتری کی امید نکلے ممکن نہیں – بہت سے مدبرین کا خیال ہے کہ مافیا زدہ اس کابینہ سے ملک کو نجات دلائی جائے اور چند لوگوں پہ مشتمل ایک ایسی کابینہ بنائی جائے جو ووٹوں سے آئی ہو اور عوام کو  جوابدہ ہو – ملکی پیش کیا گیا بجٹ تو منظور ہو ہی جائے گا کیونکہ اس میں بہت سے ایسے عوامل کار فرما ہیں  کہ جن کی طاقت سر چڑھ کے بولتی ہے – ہمیں نرخوں میں الجھانے کی بجائے ان بازی گروں کا پتہ لگایا جائے جو اعداد و شمار کا ایسا دھوکہ دیتے ہیں کہ عقل چکرا سی جاتی ہے- حکومت مقبولیت کھو رہی ہے اس وقت اسے کچھ کر دکھانے کی ضرورت ہے ایسا نہ ہو کہ ملک میں کچھ ایسا ہو گزرے کہ پھر لکیر پیٹنے کے سوا اور کچھ حاصل ہی نہ ہو۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :