شہ پیادوں کو ہے نشانے کی

منگل 29 جون 2021

Dr Shahid Siddique

ڈاکٹر شاہد صدیق

ماضی کی یادیں اور  ملی چھوٹیں بھی  مزاج پہ کافی اثر انداز ہوتی ہیں کہ جن کے نشے حالات اور وقت کے دائرے سے مبراء  اس چکر سے ہی نکلنے نہیں دیتے جن کے آپ عادی ہو چکے ہوتے ہیں۔ یہی حال امریکی صدر جو بائیڈن صاحب کا ہے کہ جب وہ نائب صدر تھے تو پاکستان کو کیا ان کے ابرو کا اشارہ  ہی وہ حکم ہوتا تھا  کہ جس کے بل بوتے پہ ڈرون حملے اور مرتے پاکستانی خون سے ان کی مرادیں بھرا کرتے تھے ۔

زرداری صاحب کے زمانے میں لگ بھگ ساڑھے تین سو ڈرون حملے اور میاں صاحب کے دور میں ستر ایسی کاروائیاں   ہوئیں مگر  اب مکمل لاتعلقی اس کی برداشت سے باہر ہے – وہ اس سوچ میں غلطاں ہے کہ  یہ کڑوی گولی کیسے حلق سے نیچے اتارے ۔ ایک فون کال پہ   بلا مشروط  تعاون کے  وہ سنہرے دن  اور ان کے بعد اب  جب کہ وہ صدر  ہیں   تو سی آئی اے اور چیف سیکریٹری اسٹیٹ سے پاکستانی وزیر اعظم کا نا ملنا ہی ان  کوکھل رہا  ہے۔

(جاری ہے)

اوپر سے  "ابسولوٹلی ناٹ" کی باز گشت نے ان کو ناقبل حد تک بے قرار  بھی کیا  ہواہے۔ ہنری کسنجر سے جناب ذوالفقار علی بھٹو  کے کشیدہ مراسم اور اب جو بائیڈن  صاحب کو  عمران خان کا بے ٹوک نفی میں جواب سب اس کے سامنے ہے کیونکہ موجودہ خطے کے حالات میں اس نے کب  یہ سوچا تھا کہ اس سے اس کا سبزہ ہی روٹھ جائے گا ۔ اس سے اس کے خدام منہ موڑ جائیں گے ۔

یہ رو گردانی  کل خان صاحب کے لئے کیا کیا تکالیف پیدا کرتی ہے یہ تو شاید وقت ہی بتائے گا لیکن بظاہر خان صاحب نے اپنی راہوں میں کچھ اور کانٹے بو لئے ہیں۔ان خطرات  کا اظہار ایجنسیاں بھی کر چکی ہیں۔ ایف اے ٹی ایف میں گرے لسٹ میں پاکستان کا  اب بھی مو جود ہونا جب کہ وہ ستائیس سے چھبیس نکات پہ عمل درآمد کر چکا ہے اور ستائیویں پہ کام جاری ہے۔

سمجھ سے بالا تر ہے کہ یہ ایک سیاسی مسئلہ ہے یا کچھ اور ہے۔ بھارت جس  میں یورینیم  کی غیر قانونی فروخت کے دو واقعات  ہو چکے ہیں اور ان سے چشم پوشی  ایف اے ٹی ایف کی اس جانبداری کو ظاہر کرتی ہے کہ اسے صرف پاکستان پہ دباؤ بڑھانا ہے اور علاقے میں بھارت کو ماسٹر جی بنانا ہے- اب جب اسمبلیوں میں ہوتی وزیر اعظم صاحب کے بیان پہ بحث دیکھتا ہوں تو پھر سوچتا ہوں کہ  ان کے مقاصد بھی کسی کی خوشنودی کے حصول کے علاوہ کچھ  اور نہیں  ہیں۔


وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو اور جنرل ضیاء الحق صاحب کا بڑا قصور ایٹمی پروگرام کو بلا کسی رکاوٹ کے شد و مد سے آگے بڑھانا ہی تو تھا۔ جنرل ضیاء الحق کے طیارے کو پیش حادثہ  کی انکوائری کے کھرے جب امریکہ تک پہنچنا شروع ہوئے تو میاں نواز شریف صاحب  کے دستخط  سے رکی انکوائری  نے میاں صاحب کو بھی امریکی حکام کے دل کے قریب کر دیا تھا۔

اور میاں صاحب پھر ضیاء الحق صاحب کا نام اس طرح بھولے کہ منہ بولے بیٹے بھی نہیں رہے۔ ایک سوال جس کا جواب کبھی تاریخ دے گی کہ وہ کیا وجوہات تھیں کہ پاکستانی نیوکلئیر پروگرام کو تکمیل تک پہچانے والے تو موت کے گھاٹ اتار دیےگئے لیکن صدر کلنٹن کے سامنے ڈٹ جانے والے میاں صاحب ان کے نہ صرف دوست کہلائے بلکہ جنرل مشرف کی قید سے سرور پیلس بھی پہنچا دیے گئے اور کونڈا لیزا رائس کے مطابق پھر جلا وطنی کے بعد وہ  ملک واپس لائے اور اقتدار کے ایوانوں تک پہنچائے گئے  - خطے کے حالات اب اس طرح کے ہیں کہ ایک غلطی کہاں سے کہاں لے جائے اس کا ادراک ہر کسی کو  نہیں ہے۔

امن کے نام پہ بکا چورن جس نے کئی قبرستان بنائے ہیں اب ہر کسی کے بس کا نہیں کہ اسے پھانک کے سویا رہے۔ جاگنے کی اس گھڑی میں نیند کی خماری اس پل صراط کی مانند ہے کہ بچنا مشکل ہے- امریکہ  جس نے ہر جنگ اپنی سرحدوں سے دور بہت دور لڑی ہے اور عراق، شام ، لیبیا ، مشرق وسطیٰ کے تپتے صحراؤں میں موت لکھی ہے ۔ افغانستان کو بھی ایسی تباہی سے  دوبارہ روشناس کر کے خود نکلنا چاہتا ہے لیکن چین پہ نظر رکھنے کے لئے مستقل ٹھکانے بھی چاہتا ہے جو کل اسے ایک فون کال پہ دستیاب تھے ۔

خود ساون میں خزاں بسانے والا ، ہر شجر کو ٹنڈ منڈھ کر کے راہوں میں بچھے پھول ڈھونڈنے والا یہ بھول گیا ہے کہ اب گلابوں کی سر زمینوں پر ببول کے کانٹے اگتے ہیں اور ہریالی کی جگہ اس ویرانے نے لے لی ہے جس پہ برسے بم ،اٹھی لاشیں  اور بہا خون اس کمبل کی مانند ہیں کہ جسے وہ چھوڑنا چاہتا ہے لیکن کمبل  ہے کہ وبالِ جان بنا ہوا ہے۔ ساون اور ہن  کے برسنے کا داعی پاکستان ستر ہزار سے زیادہ جانوں کے نذرانے  اور ڈیڑھ  سو ارب ڈالر سے زیادہ اس جنگ میں جھونک کے سمجھ گیا ہے کہ نہ ساون کے بادلوں کا یہ رستہ ہے اور نہ ہی اس پروائی کا کہ جس سے اسے کبھی طمانیت ملے گی۔

پاکستان بھی جان گیا ہے کہ یہ ساون نہیں وہ پت جھڑ ہے جس نے اس کے کھیت کھلیان اجاڑ دیے ہیں۔ پاکستان کو اب اپنی بقا کی جنگ لڑنی ہے وہ  اپنے پرانے آقا سے یہ سوال بھی پوچھ رہا ہے کہ بیس برس کی بمباری کے بعد بھی افغانستان کے حالات کو نہ سدھار سکنے والا اب مزید بمباری اور ڈروں حملوں سے کیا چاہتا ہے ۔ لاہور میں ہوئے بم دھماکے کی بات ہو تو میرے خیال میں یہ بھی ایک شہ ہے اس پیادے کو جو امن کا ساتھی تو بننے کو تیار ہے لیکن جنگ کا حصہ اور نہیں بننا چاہتا – صدر جو بائیڈن کی افغانی حکمراں وفد سے ملاقات میں یہ بھی دکھنے لگا ہے کہ امریکہ کسی سیاسی تصفیہ کے بغیر افغانستان سے نکلنا چاہتا ہے جو اس کا ماضی ہے۔

پہلے  ویت نام اور افغانستان میں وہ یہ کچھ کر چکا ہے اور بعد کی خانہ جنگی نے کیا کیا گل کھلائے ہیں وہ بظاہر اس سے لاتعلقی چاہتا ہے- اس کے پیش نظر ہے کہ یا اسے اڈے دیے جائیں یا پھر آنے والے دنوں کی تباہی کو بھگتا جائے۔ پاکستانی انکار اسے مجبور کر رہا ہے کہ وہ ایسے اقدامات کرے جس سے یہاں کی سیاسی اور فوجی راہ ا پھر  سےویسی ہی استوار ہو  جو اسے ماضی میں میسر تھی ۔ اب وقت کیچڑ اچھالنے کا نہیں ایک آواز ہونے کا ہے لیکن اسٹیٹس کو کی کرپشن میں پھنسی سانسیں انہیں  اپنے چھٹکارے اور  دوبارہ حکمرانی کے تخت کے علاوہ کچھ دیکھنے نہیں دے رہی ہیں۔ میری تو یہ ہی استدعا ہے کہ اس پاکستان کا سوچئے جسے آپ نے پچھلے بہتر سال میں کچھ نہیں دیا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :