
شہ پیادوں کو ہے نشانے کی
منگل 29 جون 2021

ڈاکٹر شاہد صدیق
(جاری ہے)
وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو اور جنرل ضیاء الحق صاحب کا بڑا قصور ایٹمی پروگرام کو بلا کسی رکاوٹ کے شد و مد سے آگے بڑھانا ہی تو تھا۔ جنرل ضیاء الحق کے طیارے کو پیش حادثہ کی انکوائری کے کھرے جب امریکہ تک پہنچنا شروع ہوئے تو میاں نواز شریف صاحب کے دستخط سے رکی انکوائری نے میاں صاحب کو بھی امریکی حکام کے دل کے قریب کر دیا تھا۔ اور میاں صاحب پھر ضیاء الحق صاحب کا نام اس طرح بھولے کہ منہ بولے بیٹے بھی نہیں رہے۔ ایک سوال جس کا جواب کبھی تاریخ دے گی کہ وہ کیا وجوہات تھیں کہ پاکستانی نیوکلئیر پروگرام کو تکمیل تک پہچانے والے تو موت کے گھاٹ اتار دیےگئے لیکن صدر کلنٹن کے سامنے ڈٹ جانے والے میاں صاحب ان کے نہ صرف دوست کہلائے بلکہ جنرل مشرف کی قید سے سرور پیلس بھی پہنچا دیے گئے اور کونڈا لیزا رائس کے مطابق پھر جلا وطنی کے بعد وہ ملک واپس لائے اور اقتدار کے ایوانوں تک پہنچائے گئے - خطے کے حالات اب اس طرح کے ہیں کہ ایک غلطی کہاں سے کہاں لے جائے اس کا ادراک ہر کسی کو نہیں ہے۔ امن کے نام پہ بکا چورن جس نے کئی قبرستان بنائے ہیں اب ہر کسی کے بس کا نہیں کہ اسے پھانک کے سویا رہے۔ جاگنے کی اس گھڑی میں نیند کی خماری اس پل صراط کی مانند ہے کہ بچنا مشکل ہے- امریکہ جس نے ہر جنگ اپنی سرحدوں سے دور بہت دور لڑی ہے اور عراق، شام ، لیبیا ، مشرق وسطیٰ کے تپتے صحراؤں میں موت لکھی ہے ۔ افغانستان کو بھی ایسی تباہی سے دوبارہ روشناس کر کے خود نکلنا چاہتا ہے لیکن چین پہ نظر رکھنے کے لئے مستقل ٹھکانے بھی چاہتا ہے جو کل اسے ایک فون کال پہ دستیاب تھے ۔خود ساون میں خزاں بسانے والا ، ہر شجر کو ٹنڈ منڈھ کر کے راہوں میں بچھے پھول ڈھونڈنے والا یہ بھول گیا ہے کہ اب گلابوں کی سر زمینوں پر ببول کے کانٹے اگتے ہیں اور ہریالی کی جگہ اس ویرانے نے لے لی ہے جس پہ برسے بم ،اٹھی لاشیں اور بہا خون اس کمبل کی مانند ہیں کہ جسے وہ چھوڑنا چاہتا ہے لیکن کمبل ہے کہ وبالِ جان بنا ہوا ہے۔ ساون اور ہن کے برسنے کا داعی پاکستان ستر ہزار سے زیادہ جانوں کے نذرانے اور ڈیڑھ سو ارب ڈالر سے زیادہ اس جنگ میں جھونک کے سمجھ گیا ہے کہ نہ ساون کے بادلوں کا یہ رستہ ہے اور نہ ہی اس پروائی کا کہ جس سے اسے کبھی طمانیت ملے گی۔ پاکستان بھی جان گیا ہے کہ یہ ساون نہیں وہ پت جھڑ ہے جس نے اس کے کھیت کھلیان اجاڑ دیے ہیں۔ پاکستان کو اب اپنی بقا کی جنگ لڑنی ہے وہ اپنے پرانے آقا سے یہ سوال بھی پوچھ رہا ہے کہ بیس برس کی بمباری کے بعد بھی افغانستان کے حالات کو نہ سدھار سکنے والا اب مزید بمباری اور ڈروں حملوں سے کیا چاہتا ہے ۔ لاہور میں ہوئے بم دھماکے کی بات ہو تو میرے خیال میں یہ بھی ایک شہ ہے اس پیادے کو جو امن کا ساتھی تو بننے کو تیار ہے لیکن جنگ کا حصہ اور نہیں بننا چاہتا – صدر جو بائیڈن کی افغانی حکمراں وفد سے ملاقات میں یہ بھی دکھنے لگا ہے کہ امریکہ کسی سیاسی تصفیہ کے بغیر افغانستان سے نکلنا چاہتا ہے جو اس کا ماضی ہے۔ پہلے ویت نام اور افغانستان میں وہ یہ کچھ کر چکا ہے اور بعد کی خانہ جنگی نے کیا کیا گل کھلائے ہیں وہ بظاہر اس سے لاتعلقی چاہتا ہے- اس کے پیش نظر ہے کہ یا اسے اڈے دیے جائیں یا پھر آنے والے دنوں کی تباہی کو بھگتا جائے۔ پاکستانی انکار اسے مجبور کر رہا ہے کہ وہ ایسے اقدامات کرے جس سے یہاں کی سیاسی اور فوجی راہ ا پھر سےویسی ہی استوار ہو جو اسے ماضی میں میسر تھی ۔ اب وقت کیچڑ اچھالنے کا نہیں ایک آواز ہونے کا ہے لیکن اسٹیٹس کو کی کرپشن میں پھنسی سانسیں انہیں اپنے چھٹکارے اور دوبارہ حکمرانی کے تخت کے علاوہ کچھ دیکھنے نہیں دے رہی ہیں۔ میری تو یہ ہی استدعا ہے کہ اس پاکستان کا سوچئے جسے آپ نے پچھلے بہتر سال میں کچھ نہیں دیا۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
ڈاکٹر شاہد صدیق کے کالمز
-
چرخ کا سنگ فساں روتا ہے
پیر 10 جنوری 2022
-
جان کی امان پاؤں تو کچھ عرض کروں
ہفتہ 8 جنوری 2022
-
سوتے،جاگتے ضمیر
جمعرات 18 نومبر 2021
-
آ جا ، تے بہہ جا سائیکل تے
ہفتہ 13 نومبر 2021
-
بائیڈن کی بھیانک منصوبہ بندی
پیر 23 اگست 2021
-
اخلاقیات کا مدفن
پیر 9 اگست 2021
-
ارتقائے معکوس
بدھ 28 جولائی 2021
-
اونٹ رے اونٹ تیری کون سے کل سیدھی
جمعرات 1 جولائی 2021
ڈاکٹر شاہد صدیق کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.