کورونا وائرس - غلط معلومات پر توجہ مت دیجیے

اتوار 10 مئی 2020

Dr. Zulfiqar Ali Danish

ڈاکٹر ذوالفقار علی دانش

جب سے کورونا وائرس دنیا بھر میں پھیلنا شروع ہوا ہے بالخصوص 26 فروری کو پاکستان میں اس کے پہلے مریض کی تصدیق کے بعد افواہوں اور جھوٹی سچی معلومات کا ایک سیلاب ہے جو ہمہ وقت سوشل میڈیا پر دستیاب ہے۔ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہر شخص اس وقت کورونا وائرس سپیشلسٹ ہے۔ کوئی اس کے قرآنی حل بتا رہا ہے تو کوئی مختلف جڑی بوٹیوں پر مشتمل چیزوں سے اس کا مکمل علاج کر رہا ہے۔

کوئی کسی سبزی کے استعمال کا مشورہ دے رہا ہے تو کوئی کسی پھل کو کورونا وائرس کے مریضوں کے لیے مفید قرار دے رہا ہے اور لطف کی بات یہ ہے کہ ہر کوئی اپنی بات کو سو فیصد درست سمجھتا ہے۔موبائل فون اور سوشل میڈیا کی ہمہ وقت رسائی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے جس کا جو دل چاہتا ہے یا کسی سے بات سنتا ہے، موبائل اٹھاتا ہے اسے ریکارڈ کر کے بنا تصدیق کیے آگے بڑھا دیتا ہے۔

(جاری ہے)

یہی وجہ ہے کہ اس وقت سوشل میڈیا پر میسرمعلومات و اطلاعات میں سے تقریباً 99 فی صدغیر مستند ، جھوٹی اورسنی سنائی باتوں پر مشتمل ہیں جن کا کوئی سائنسی جواز ہے نہ ثبوت۔اور ان کی وجہ سے عوام الناس میں اس حوالے سے شدید بے چینی اور کنفیوڑن پائی جارہی ہے اور کئی مغالطے ان میں راہ پا چکے ہیں جن کا سدّباب ضروری ہے تاکہ لوگ مایوسی کا شکار نہ ہوں۔

ان غیر مصدقہ معلومات کے پھیلاؤکا سب سے بڑا نقصان ہمارے ذاتی خیال میں یہ ہوتاہے کہ جو مستند اور سائنسی جواز کے ساتھ معلومات ہوتی ہیں ، وہ پسِمنظر میں رہ جاتی ہیں۔ عوام الناس کا ایک بہت بڑا طبقہ چونکہ بنیادی باتوں سے لاعلم ہے اور جیسا کہ توہم اور بداعتقادی ہمارے معاشرے کا ایک جزو بن چکے ہیں، اس لیے لوگ ہر بات پر من و عن یقین کر لیتے ہیں۔

اس پر ستم یہ کہ ان معلومات کا بڑا حصہ خدا ورسول کے ناموں کے ساتھ آگے بڑھایا جاتا ہے جوحسنِ گمان رکھتے ہوئے اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگ بھی قبول کر لیتے ہیں۔
اسی طرح ڈاکٹرز بھی چونکہ اسی معاشرے کا حصہ ہوتے ہیں اور ان غیر مستند معلومات کا ان پر بھی اسی طرح اثرہونا عین فطری ہے خصوصاًایسی صورتحال میں جبکہ پوری دنیا کا منظر نامہ ہی بدل گیا ہو اور اس ایک لفظ "کورونا" کے سوا کرنے کو کوئی بات ہی نہ ہو۔

ایسے میں غیر مستند معلومات کا اس طرح کھلے عام پھیلنا اور اس پر سوشل میڈیا ایکٹ کے موجود ہوتے ہوئے بھی حکومت کا کوئی ایکشن نہ لینا معاشرے پر تباہ کن اثرات مرتب کر رہا ہے۔کیونکہ دوسرے لوگوں کی طرح مسلسل منفی باتیں اور پراپیگنڈا سن سن کر ڈاکٹرز بھی دل چھوڑ بیٹھتے ہیں، بالخصوص جبکہ وہ نامساعد حالات اور وائرس سے بچاؤ کے سب لوازمات نہ ہوتے ہوئے بھی اپنے فرائض ادا کرنے کی اپنی سی کوشش کر رہے ہیں اور اکثر مقامات پر ڈاکٹر ز خودبھی اس وائرس کا شکار ہوچکے ہیں۔

جرمنی میں اسی قسم کے منفی پراپیگنڈے سے متاثر ہو کر ڈیپریشن میں ایک وزیر نے گزشتہ ماہ خودکشی کر لی تھی۔
ایسے حالات میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ کیسے یقینی بنایا جائے کہ کونسی معلومات غلط اور غیرمستند اور غیر مصدقہ ہیں اور کون سی مصدقہ۔سب سے پہلی چیز جو دیکھنے کی ہوتی ہے وہ یہ کہ آپ کو یہ معلومات کہاں سے دستیاب ہو رہی ہیں۔ اگر تو یہ فارورڈ ہوا پیغام ہے جو آپ تک پہنچا ہے تو اس کی صحت یقیناً مشکوک ہے جب تک کہ آپ اس کی خود سے تصدیق نہ کر لیں۔

اگر آپ کو معلومات کا ذریعہ معلوم ہے اور وہ قابلِ اعتماد ہے ، یعنی کوئی رجسٹرڈ ادارہ، یا حکومت کے کسی ادارے کے جاری کردہ اعداد و شمار ، یاپھر آپ کے قریبی عزیز و اقارب جو ثقہ ہوں ، یا اپنے شعبے کے کسی ماہر کا پیغام جس کو آپ بخوبی جانتے ہوں، تب تو اس پر اعتماد کیا جاسکتا ہے۔ لیکن صرف ایسا پیغام جو بہت سے ہاتھوں سے ہوتا ہوا آپ تک پہنچا ہو اور اس کا ذریعہ بھی معلوم نہ ہو نہ ہی پیغام کی تصدیق کا کوئی ذریعہ ہو تو بہتر ہے اس پر توجہ نہ دیجیے اور اس کو رد کر دیجیے۔


اس حوالے سے ہمارا اپنا تجربہ بڑا تلخ اور مایوس کن ہے۔ ہم شروع سے ہی معلوم وجوہات کی بنا پر ایسے پیغامات کے مخالف چلے آرہے ہیں۔ ایک بار ہمیں ایک جاننے والے کی جانب سے فارورڈ کیا ہوا پیغام ملا جس میں بہت خوبصورت انداز میں قرآنِ پاک کی ایک آیت کا ترجمہ تھا اور اس کا اطلاق غالباً اس وقت کے حالات کے مطابق کسی بات پر کیا گیا تھا۔عربی کے کچھ اسباق اساتذہ سے ہم نے بھی اچھے وقتوں میں پڑھ رکھے ہیں۔

ہمیں اس ترجمے کی بابت کچھ شک گزراسو ہم نے اسے جب غور سے پڑھا اور اس کا موازنہ قرآنِپاک میں موجود ا?یت اور اس کے اصل ترجمے سے کیا تو دونوں میں بعدِمشرقین تھا۔ہم نے ان صاحب سے استفسار کیا جنھوں نے ہمیں وہ پیغام بھیجا تھا تو جواب ملا کہ میں نے تو نیک نیتی کی بنا پر آپ کو بھیج دیا تھا ،مجھے کیا خبر تھی کہ یہ ترجمہ غلط ہے۔ مجھے بھی کسی اور نے بھیجا تھا۔

آپ خود سوچیے جب لوگ قرآنِپاک کو اس حوالے سے اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کرنے میں کوئی جھجک محسوس نہیں کرتے تو باقی تو کسی چیز کی کوئی حیثیت ہی نہیں۔اور ہماری سادہ لوح عوام بغیر سوچے سمجھے ان پیغامات کو آگے بھیج کر ان کے مقاصد کو اپنی لاعلمی میں پورا کر رہی ہوتی ہے۔
بعینہ یہی صورتحال آج کل کورونا وائرس کی وبا کو دوران بھی درپیش ہے۔

بنا تصدیق کے پھیلنے والے پیغامات سے دو قسم کے نقصان بیک وقت ہو رہے ہیں۔ ایک توغیر مستند چیزوں کا بطورِ دوا استعمال بڑھ رہا ہے اور انھیں استعمال کر کے لوگ اپنے آپ کو محفوظ سمجھ رہے ہیں جو انتہائی خطرناک روش ہے ،اور دوسرا ان غیر مصدقہ معلومات کے ہنگام مستند طبی ماہرین کی آرا کو لوگ یا تو اہمیت ہی نہیں دے رہے یا اسے پسِپشت ڈال رہے ہیں جو دہرے نقصان کا باعث ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ کورونا وائرس کے حوالے سے غیر مصدقہ معلومات معاشرے میں خوف کو پھیلانے اور بڑھانے میں بھرپور کردار ادا کر رہی ہیں۔ اور معاشرے پر اس کے تباہ کن اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ لوگ کورونا وائرس سے زیادہ گھر بیٹھے اس کے ڈر اور خوف میں مبتلا ہو رہے ہیں۔ اور یہ بات کورونا وائرس سے کہیں زیادہ خطرناک ہے کیونکہ ابھی اس بات پر کوئی توجہ نہیں دے رہا کہ کورونا وائرس کی وبا کا پھیلاو ابھی بڑھ رہا ہے اور گرمی سر پر کھڑی ہے اورایسی صورتحال میں اگر کورونا کے ساتھ ساتھ ڈینگی وائرس بھی حملہ آور ہو گیا تو ڈر اور خوف کی اس فضا میں کیسے حالات پیدا ہو سکتے ہیں یہ اظہر من الشمس ہے۔

اس لیے عوام الناس سے ہماری مودبانہ التماس ہے کہ ازراہِ کرم موجودہ صورتحال میں کورونا وائرس کے حوالے سے صرف مستند معالجین کی بات پر توجہ دیجیے ، اور اگر معلوماتِ عامہ کا شوق رکھتے ہیں اور تازہ ترین صورتحال سے باخبر رہنا چاہتے ہیں توورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن یعنی عالمی ادارہ صحت اور صحتِعامہ سے وابستہ اداروں کی ویب سائٹس سے براہِراست معلومات لیجیے جو آج کل انٹرنیٹ پر ہر کسی کی پہنچ میں ہیں، اور لمحہ بہ لمحہ اپ ڈیٹ کی جاتی ہیں تاکہ پوری دنیا اس حوالے سے ہونے والی تمام پیش رفت سے آگاہ رہ سکے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :