27اکتوبر یوم سیاہ کیوں؟

منگل 27 اکتوبر 2020

Engr.Mushtaq Mehmood

انجینئر مشتاق محمود

اظہار رائے کی آزادی کا مطلب دنیا میں بسنے والے کروڈوں مسلمانوں کی دل آزاری نہیں ہے، احقر نے ٹویٹ میں بر ملا یہ کہا کہ کیا اطہار رائے کی آزادی کی بنیاد پر فرانس کے صدر کو حرامی یا لعنتی کہہ یا لکھ سکتے ہیں، اسلام فوبیا کے شکار یہ تہذیب یافتہ بد تہذیب حکمران اور افراد بد ترین مخلوق ہیں جو انسانوں کے درمیان آپسی محبت و اتحاد کے برعکس دشمنی اور نا اتفاقی کو فروغ دے رہے ہیں، ہمارے پیارے نبی محمد ﷺ رحمت اللعامین ہیں، جو ساری مخلوق کیلئے رحمت ہیں ، کسی بھی با ہوش انسان خصوصا مسلمان کیلئے انکی شان میں کسی بھی قسم کی گستاخی ناقابل قبول اور نا قابل برداشت ہے، حرمت رسول پر ہماری جان قربان، اس حوالے سے ہم اقراری مجرم اور اقراری انتہاء پسند ہیں، لہذا دنیا کو عالمی امن کیلئے مذہبی اکابرین کے خلاف گستاخی کر نے والوں کے خلاف کوڈ آف کنڈکٹ منظور کر نا چا ہئے، اور دنیا کے پرانے حل طلب مسائل کشمیر و فلسطین کی جانب توجہ دینا عالمی امن کیلئے بہت ضروری ہے۔

(جاری ہے)

یو این یو م تاسیس پر احقر نے یو این آفس کے سامنے احتجاج کے دوران بر ملا اس تلخ حقیقت کا اظہار کیا کہ کشمیریوں کے مسائل ، مصائب ،مظالم کی زمہ دار بے حس دنیا کی خاموشی ہے، اسلئے کہ دنیا با خبر ہے کہ مقبوضہ کشمیر سمیت بھارت میں اقلیت خصوصا مسلمان، سکھ، عیسائی اور دلت بھارتی سٹیٹ نان سٹیٹ دہشت گردی کے شکار ہیں، 5 اگست کشمیر کی خصوصی حثیت ، لگاتار لاک ڈاؤن کرفیو، میڈیا نیٹ پر قدغن سے بھارتی دعویٰ کشمیریت، انسانیت اور جمہوریت کو خود ہی جھوٹا ثابت کیا۔

بھارتی متعصب حکمرانوں کا اصلی چہرہ بے نقاب ہو نے کے بعد دو قومی نظریہ کی اہمیت اور افادیت ،کشمیر میں چند بھارتی آلہ کاربا حس انسان دوستوں کو بھی سمجھنے میں اب زیادہ دشواری پیش نہیں آرہی ہے۔ دو قومی نظریہ کے بارے میں احقر نے کئی مضامین اور ٹی وی انٹریو میں بر ملا وضاحت کی ہے کہ اس نظریہ کو تعصب کی عینک اتارکر دیکھنے سے یہ حقیقت عیاں ہے کہ جیو اور جینے دو اس نظریہ کا مفہوم ہے، مگر بد قسمتی سے ہند پاک میں موجود ناعاقبت اندیش افراد اور کشمیر پر غاصبانہ قبضے سے جیو اور جینے دو کا نظریہ ۔

۔مرو اور مارو میں تبدیل ہو گیا،اس حوالے سے دونوں ممالک کے خود غرض اور متعصب افراد کے علاوہ چند نا عاقبت اندیش کشمیری ذمہ دار ہیں۔ مسلہ کشمیر کا کشمیریوں کی امنگوں کے مطابق پر امن حل نہ صرف کشمیریوں بلکہ دونوں ممالک ہندپاک کیلئے نیک شگون ثابت ہوگا،اسلئے ہند و پاک میں بسنے والی ضروریات زندگی سے محروم اکثریت مسلہ کشمیر حل کرنے کی آرزو مند ہیں۔


تاریخ کشمیر میں 27اکتوبر بھارتی کشمیر پر فوج کشی سے دنیا کی25 فیصدی آبادی خصوصا کشمیری من حیث القوم مصائب و مسائل کے گرداب میں پھنسے ہیں،کشمیر کا مسلہ کشمیریوں کی امنگوں کی بنیاد پر حل نہ ہو نے سے بر صغیرتباہی کے دہانے پر کھڑا ہے ۔بھارت کی گہری سازشوں، اور لیڈروں کی انا پرستی اور مفادِ خصوصی رکھنے والے ٹولے کی کار ستانی سے بھارت کو 27اکتوبر1947ء کے فوراْبعد اپنی افواج کشمیر بھیجنے کا موقعہ فراہم ہوا، قبائلوں کے کشمیر داخل ہونے اور انکی طرف سے قتل غارت گری کے جھوٹے پروپگنڈے کو جواز بنایا ،جبکہ حقیقت یہ ہے جو پوشیدہ رکھی گئی کہ مہاراج نے پونچھ،میر پور اور دوسرے علاقوں میں دوسرے متعصب ہندوں مہا راجوں کے تعاون سے فوج کشی کرکے تباہی پھیلادی تھی،یہی فوجی جموں کے مسلمانوں کے قتل عام میں بھی ملوث تھے،یہی وہ عوامل تھے کہ سابقہ کچھ مسلمان فوجیوں اور قبائلوں کومہا راج کو سبق سکھانے کی غرض سے کشمیری مسلمانوں کے مدد کیلئے مداخلت کر نی پڑی تھی۔

اس سے 27اکتوبر کشمیری آر پار اور دنیا میں آزادی پسند یوم سیاہ منا رہے ہیں، پاکستان نے ایل او سی پرسفارت کاروں اور میڈیا کو اصل حقائق سے روشناس کرایا کی کس طرح بھارتی حکمران، انکے فوجی کمانڈر اور میڈیا آج بھی جھوٹ مکر و فریب سے اپنے عوام اور دنیا کو گمراہ کر رہے ہیں، اور بھارتی فوجی وردی میں ملبوس ہنووتا غنڈے فوج کے شانہ بشانہ معصوم کشمیریوں کو نشانہ بنارہے ہیں ہم سب کو انفرادی طور اپنا جائزہ لینا ضروری ہے کہ ہم سے کہاں غلطیاں سر زد ہوئیں، ہندو انتہا پسندوں کی دحشت گردی کی بنا پر موجودہ عوامی تحریک میں ایسی پالیسی مرتب کرنے کی ضرورت ہے، جو کشمیری متاثرین کی خدمات کے ساتھ ساتھ اقوام عالم میں کشمیر کاز کو اجاگر کریں۔


 پاکستان مسلہ کشمیر اہم فریق ہے، مسلہ کشمیر کے حوالے سے پاکستان کے بغیر کوئی مذاکرات پائیدار ثابت نہیں ہوسکتے ، پاکستان کشمیریوں کا وکیل ہے ،مسلہ کشمیرکی بین الاقوامی حثیت کو اجا گرکر نے میں سفارتی سطح پر اور بہت کچھ کر نے کی گنجائش ہے ۔لگاتار بھارتی ظلم و بر بریت اور ہندو تا کی کھلم کھلا مسلم دشمن پالیسیوں سے بے لوث لیڈر شپ اصولوں کی بنیاد پرآ ٓر پار معاملات و حالات کو بگاڑنے کی بجائے مِل جُل کر کندھوں پر بھاری ذمہ داری کا بوجھ اٹھانے کی اہلیت پیدا کر رہے ہیں ، اب مقبوضہ کشمیر میں ڈر اور خوف کے ماحول کو زائل کر نے کی سخت ضرورت ہے، شکوہ شکائت کے برعکس مثبت تجاویز سے پاکستان کی کشمیر پالیسی کی سمت درست کر سکتے ہیں۔

یہ اللہ کا کرم ہے کہ جبری لاک ڈاؤن سے کشمیریوں کے دکھ درد کو دنیا محصوص کررہی ہے، امریکی کانگریس کے علاوہ بھارتی سول سوسائٹی و انسانی علمبرداروں اور والنٹیر بھارتی ہندو انتہا پسندسٹیٹ اور نان سٹیٹ دحشت گردوں کے خلاف آواز اٹھارہے ہیں۔خصوصی حثیت کی منسوخی، لگاتار کرفیو ،ظلم و جبر، عزتوں کی توہین،ایل اوسی پر گولہ باری،۔۔اورمیڈیا نیٹ پر قدغن ،گرفتاریوں ایسے ظلم و جبر کے حربے آزمانے سے تحریک آزادی کے جذبے کو ختم نہیں کیا جاسکتا ہے بلکہ ناجائز قابض کے خلاف نفرت میں اضافہ ہورہا ہے،اور تحریک آزادی کو تقویت مل رہی ہے اور ظالم اور رسواء ہورہا ہے۔

مسلہ کشمیر کا واحد حل بین القوامی قراردادوں پر عمل سے ممکن ہے۔لہذا بھا رت کی چا لوں کے توڑ کیلئے فرا ست و دانش کے طریقہ کار پرموجودہ تناظر میں اگر عمل کیا جائے تو مثبت نتائج سامنے آ سکتے ہیں۔کیونکہ جمہوری طرز عمل کو بھارت کے بر عکس بین الاقوامی تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے کیونکہ عالمی اپروچ،حالات واقعات اور فیصلے تحریک آزادی کو متا ثر بغیر نہیں رہ سکتے لہذا مقامی سیا ست و جد جہد کے طریقہ کار کا اقوام عالم کے لئے قابل قبول لائحہ عمل بھی ضروری ہے ، تاکہ ایسی حکمت عملی اختیار کی جائے کہ مجبو را اقوام عالم کو مداخلت کرنے کا مو قعہ فراہم کر کے اس تحریک کو منظقی انجام تک پہنچا یا جا ئے
پاکستان ،کشمیر سے مخلص حضرات ذی ہوش زعماء اور کشمیر یوں کے آرزؤں اور درد کو سمجھنے والے آزادی پسند لیڈراں و مفکر مسلہ کشمیرکے حوالے سے ہر پہلوکو سا منے رکھکر مر بوط پروگرام ترتیب دیں، میری حکمران طبقے اور اپوزشن کے علاوہ کشمیریوں سے بھی گذارش ہے، کہ ایک دوسرے کو غدار قرار دینے کے بجائے مشترکہ طور لہو لہاں کشمیر کے درد کو محصوص کریں اور کشمیریوں کو تن تنہاء ہو نے کے احساس کو زائل کریں، بہادر فوج کو اپنی سیاست سے دور ہی رکھیں بلکہ لیبیاء، شام، عراق اور دیگر مسلم ممالک کی تباہی کے بعد اپنی فوج کی افادیت کو محصوس کریں انکی حوصلہ افزائی کریں، حکمران طبقہ بھی فوج کو اپنی وراثت نہ سمجھے،حکومت پاکستان نے اس سال 27 اکتوبر کو سٹیٹ سطح پر منانے کا فیصلہ کیا ہے، ٓر پار اور بین الاقوامی سطح پر27 اکتوبریوم سیاہ منانا اسی پروگرام کی کڑی ہے کیونکہ جزباتی نعرہ بازی یا آنکھیں بند کرکے لفظوں کی بے لذت جگالی کافی نہیں ہے،بلکہ اصولوں ، وحدت و نظریا تی ہم آہنگی کی بنیاد پرایک درست لائحہ عمل اور حکمت عملی کے ذریعے بھارت کے ہر مکر و فریب کو ناکام بنایا جا سکتا ہے ۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :