سائیں سرکار کا نیا قانون

پیر 19 اپریل 2021

Furqan Ahmad Sair

فرقان احمد سائر

بلاشبہ کووڈ ایک ایسی عالمی وباء ہے جس کی حقیقت سے  انکار نہیں کیا جاسکتا 2019 کے آخری  ماہ  میں چائنا کے شہر ووہان سے اٹھنے والی اس وباء نے  قلیل عرصے میں پوری دنیا کو اپنی عفریت میں جکڑلیا۔۔
جس کے باعث عالمی ادارہ صحت کی جانب سے ایسے قوانین رائج کئے جو ترقی یافتہ و ترقی پذیر ممالک دونوں کے لئے یکساں تھے۔ سن2000 میں پوری دنیا نے لاک ڈاوّن دیکھا۔


ایسے ایسے اقدامات اٹھائے گئے جو شائد غریب ممالک کے لئے قابل قبول نا تھا۔
دنیا کے بیشتر ممالک نے عالمی ادارہ صحت کے وضع کردا قوانین نا صرف اپنایا بلکہ عملی جامع پہنانے کے لئے ہر ممکن اقدامات کئے۔
اسی تناظر میں اگر پاکستان  کا جائزہ لیں تو ایک مقروض ملک کو چار و ناچار ان تمام پابندیوں کو قبول کر کے ایک طویل لاک ڈاوّن کی جانب سفر کرنا پڑا
جب ہم پاکستان  خصوصآ کراچی کی صورتحال کا جائزہ لیں تو مملکت خداداد کی معیشت کا پہیہ چلانے کے لئے کراچی کا جو کردارہمیشہ سے نمایاں  رہا اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا۔

(جاری ہے)

گذشتہ سال  تجارت جو کے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے اس کی کمر توڑنے میں کوئی ایسا اقدام نہیں اٹھایا گیا جو رہ گیا ہو۔ ملک کا معاشی حب کے معیشت کا پہیہ بیٹھ گیا۔۔ یہاں بھی دنیا کے ترقی یافتہ  ممالک کی طرح سخت ترین لاوّن داوّن لگایا گیا،،
جس میں جرمانے کے ساتھ ساتھ سزائیں بھی دی گئی۔۔ کسی  خاتون کا اپنے شوہر یا بھائی کے ساتھ سفر کرنا بھی جرم ٹھہرا،،  تقریبآ 3 کروڑ کی آبادی والے اس شہر جس میں چاروں صوبوں کا عکس پایا جاتا ہے جس شہر میں تمام مذاہب، رنگ و نسل ذات پات، بلا شرکت غیرے پاکستان کی ترقی و ترویج کے لئے اہم کرار ادا کر رہے ہیں۔

یہاں یومیہ اجرت کمانے والوں کی ایسی تعداد ہے جسے اس شہر کی آدھی سے ذیادہ آبادی سے ذائد قرار دیا جائے تو بےجا نہیں ہوگا۔۔لاک ڈاوّن کے نام پر کی روزی روزگار کے روازے بند کر دیئے گئے۔
شہر کے آمد و درفت کے تمام داخلی و خارجی راستے اس طرح بند کئے گئے جیسے سرد جنگ کا آغاز ہوچکا ہو۔۔ ایسے میں متوسط طبقہ بھِی غربت کی لکیر سے نیچے کی زندگی گزارنے لگا،، سفید پوش خاندان بھی راشن کی لمبی قطاروں میں اسی لئے کھڑا رہا تاکہ ان چند کلو سامان سے ہفتوں کی بھوک مٹا سکے۔

۔ اگر بات یہاں تک رہتی تو کسی حد تک قابل قبول تھا، تاہم ایسے واقعات بھی دیکھنے کو ملے جہاں خاندان کے افراد نے قرضہ، بیروزگاری، غربت اور مکان کا کرایہ نا ادا ہونے کے باعث خود سوزی پر مجبور ہوا۔۔
لاکھوں کی تعداد میں شہریوں کو نوکریوں سے بے دخل کیا گیا۔
لاک ڈاوّن کے نام پر تجارت بالکل ٹھپ ہر کر رہ گئی۔ کووڈ کے نام پر بیرون و اندرون ملک سے  نقل و حمل بند کی گئی جس سے شہر کے تاجروں کو ایسا جھٹکا لگا جس سے تاجروں کو بھی خود سوزی کرنی پڑی،،، گذشتہ سال کی طرح سائیں سرکارنے  نقصانات کا تخمینہ لگائے بغیر امسال بھی لاوّک ڈاوّن کا نیا فرمان جاری کر دیا۔

۔۔
آیا یہ فرمان کراچی کی عوام اور تاجروں کے لئے قابل قبول تھا یا نہیں اس نئے فرمان کے بابت کراچی کے تاجروں کو اعتماد میں لیا گیا۔۔ واضح رہے کہ  شہر کی بیشتر مارکیٹس دن 12 بجے کے بعد کھولی جاتی ہیں۔ اس نئے قانون یہ ظاہر ہوگیا کے کاروبار کرنے کی صرف 6 گھنٹے اجازت ہے۔۔ اگر سائیں سرکار سے سوال کیا جائے کہ نئے نوٹیفکیشن کے اجراء سے قبل شہریوں کے مشکلات کا جائزہ لیا گیا؟ تو جواب نفی میں ہی ملے گا۔

۔ جیسا کے بیان کیا جاچکا ہے کہ کراچی میں اکثریت ان افراد کی ہے جو چاہے کسی فیکٹری یا  کمپنی پر کام کرتا وہ دیہاڑی دار طبقہ ہے جن کی یومیہ حاضری کی بنیاد پر تنخوائیں مرتب ہوتی ہیں کیا ایک بار پھر ان کمر توڑنے کی تیاری نہیں کی جارہی۔ سندھ جہاں سگ گزیدگی اور چھوٹے چھوٹے امراض سے امواتِیں ہو جاتی ہیں، جہاں عوام اپنے حصے پانی ٹینکرز مافیاز سے خریدنے پر مجبور ہوجائے۔۔۔ جہاں بجلی  ساتھ ساتھ قدرتی گیس کی دستیابی ناپید ہوچکی ہو وہاں ایسے اقدامات کسی بالغ العقل شخص کے فہم سے کوسوں دور ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :