کراچی کراچی کیوں ہے ۔۔۔۔۔

منگل 24 اگست 2021

Furqan Ahmad Sair

فرقان احمد سائر

کراچی واحد شہر ہے جہاں ملک کے تمام صوبوں کا عکس نمایاں نظر آتا ہے بھانت بھانت رنگ و نسل کے لوگ اس عظیم شہر جس کو ایک عرصے تک پاکستان دارلخلافہ ہونے کا شرف بھی حاصل رہا ہے عارضی یا مستقل سکونت اختیار کرنے کے ہمیشہ خواہاں رہتے ہیں لاکھوں افراد اپنے مستقبل کو تابناک بنانے کے لئے اس شہر کا رخ کرتے ہیں، ملک کی معیشیت میں ریڑھ کی ہڈی رکھنے کے ساتھ ساتھ طول  وعر٘ میں پھیلا ہوا کاروبار اسی شہر کے مرہون منت چلتا ہے اس شہر کی باگ دوڑ سنبھانلے والے بیشتر یہاں نہیں رہتے مگر اس شہرمیں اپنا بنگلہ اور کوٹھی رکھنے میں فخر ضرور محسوس کرتے ہیں۔


پاکستان کی قومی زبان بولنے والے اس شہر کی شان ہیں روشینوں کے شہرکراچی میں کم و بیش تین کروڈ کی آباد ہے اور ہر آبادی کے لحاظ سے اس شہر کے مسائل بھی کافی حد تک ہیں جس کو سیاسی یا زاتی عناد کے باعث مستقل بنیادوں پر حل کرنے کا سوچا ہی نہیں گیا تاہم اس شہر نے کئی نامی گرامی ادیب سماجی کارکن، دانشور، فنکار اور مخیر حضرات پیدا کئے ہیں گنجان شہر ہونے کے باوجود یہاں کے مستقل مقامی باشندے اپنی جان پر کھیل کر دوسرون کی جانیں بچانے کے لئے کوشاں رہتے ہیں اس شہر کی خاس بات یہ ہے کہ یہاں غریب سے غریب انسان بھوکا اٹھ تو سکتا ہے مگر بھوکا سو نہیں سکتا۔

(جاری ہے)

جے ڈی سی، سیلانی اور سینکڑوں فلاحی تنظیمیں اس شہر کی جان ہیں۔ ایدھی، چھیپا، خدمت خلق اور امن فاوّنڈیشن سمیت ہر چھوٹےبڑے ادارے کسی بھِی حادثہ یا ناگہانی آفت میں ہر اول دستہ کا کردار ادا کرنے میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کرتے ہیں۔
کراچی کے جناح  ہسپتال، سول ہسپتال، عباسی شہید ہسپتال میں قابل فخر اور مایہ ناز ڈاکٹرز سرجننز موجود ہیں۔


میرے اس شہر میں ہر چھوٹے سے چھوٹا اور ہر مذہبی تہوار جس جوش و خروش سے منای
عقیدت و جذبے سے منایا جاتا ہے اس کی چھوٹی سی جھلک قیام پاکستان کے حوالے سے منعقد ہونے والی تقریبات سے لگایا جاسکتا ہے گلی گلی محلہ محلہ سبز ہلالی پرچم سے سجا ہوتا ہے ہر سال گلی کوچوں میں بچوں بڑوں خواتین اور بزرگ ک لئے یوم آزادی کے حوالے سے نئے نئے ڈیزائن کے ملبوسات دیکھنے کو ملتے ہیں جس کی نظیر اور گہما گہمی پورے پاکستان میں نہیں ملتی۔

یوم آزاد کے ساتھ ساتھ جب دیگرمسالک اور مذاہب کےتہواروں کی جانب نظر دوڑائیں تو ہمیں نظر آتا ہے کہ یہ شہر امن تہذیب کی درسگاہ ہے یہاں ہر مسالک و مذاہب کے لوگ بلا خوف و خطر اپنے اپنے عقائد و رسومات سرانجام دیتے ہیں یہاں کے لوگ اتنے سادہ ہیں کہ ہر وقت دوست احباب کا حلقہ بنا کر رکھتے ہیں رات کے کسی بھِی پہر کسی بھی ریسٹورانٹ پر چلیں جائیں ٹولیوں کی شکل میں نا صرف ایک دوسرے سے خوش گپیوں میں نظر آئیں گے بلکہ کسی نا کسی تفریح مقامات کی سیر کی پلاننگ بھی کرتے ہوئے پائے جائیں گے۔

اس شہرکی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ یہاں خواتین اور بچوں کو سب سے ذیادہ عزت دی جاتی ہے چاہے وہ کسی بین میں بل جمع کروائے یا کسی اے ٹی ایم مشینوں میں جہاں اکثر و بیشتر لمبی لمبی قطاریں لگی ہوتی ہیں مگر اسی لمحے کوئی  کوئی خاتون آجائے تو اسے آگے کر دیا جاتا ہے بہن آپ پہلے چلی جائیں۔کسی بس میں چڑھ جائیں تو آگے والے مرد کی ہر ممکن کوشش ہوتی ہے کہ اپنی سیٹ پیش کر دے یہ تہذیب و تمدن کراچی کو وراثت میں ملی ہے کیونکہ قیام پاکستان کے سلسلے میں اس تحریک میں ہماری ماوّں بہنوں کا بہت بڑا کردار رہا ہے جن میں مسسز مولانا شوکت علی، مسز جوہر علی ، مسز لیاقت علی خان، اور مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح ایک مثالی کردار کی اہم عکاسی ہیں۔

کراچی کی سڑکوں میں موٹر سائیکل میں اپنے والد ، شوہریا بھائی کے ساتھ سفر کرتی خواتین کو اکثر یہ جملہ سننے کو ملا ہوگا کہ باجی برقعہ یا روپٹہ اوپر کرلیں اس موقع پر موٹر سائیکل سواروں اور خاتون برا ماننے کے بجائے توجہ دلانے والے شخص کا شکریہ ادا کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔راستے میں اگر پیٹرول ختم ہوجائے ، گاڑی یا موٹر سائیکل خراب ہوجائے تو کئی افراد مدد کرنے پہنچ جاتے ہیں یہ مناظر دیکھ کر نہیں لگتا کے کراچی میں لاقانویت کا راج ہے یہ شہر لڑکی اور بہنوں کو عزت دینا جانتا ہے اس شہر میں ایک جوان لڑکی اکیلے خریداری کرنے بھی جائے تو اسے کوئی ڈر و خوف نہیں ہوتا کیونکہ اس کی عزت کے رکھوالے جابجا موجود ہیں یہی وجہ ہے کہ دنیا کے کسی بھی مقام پر چلا جاوّں مجھے کراچی والا کہلانے میں فخر محسوس ہوتا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :