سانحہ ساہیوال ، عدالت کا فیصلہ اور مگرمچھ کے آنسو!!

پیر 28 اکتوبر 2019

Gul Bakhshalvi

گل بخشالوی

بنگلہ دیش کی ایک عدالت نے سکول میں ہیڈماسٹر کی نازیبا حرکات کی شکایت پر گرفتار ہیڈماسٹر کے اشارے پرطالبہ کو سکول کی چھت پر زندہ جلانے والے ملزمان،سہولت کاروں اور حکمران جماعت کے دو رہنماؤں سمیت سولہ افراد کو سزائے موت سنا کر مقتولہ کے خاندان کے زخموں پر مرحم رکھ دیا لیکن اسلامی جمہوریہ پاکستان اور پاکستان کو ریاستِ مدینہ بنانے والے حکمراں کی حکمرانی میں لاہور کی انسدادِ دہشت گردی کی عدالت نے سانحہ ساہیوال میں دو خواتین سمیت چار افراد کے قتل اور دو معصوم بچوں کو زخمی کر والے چھ سفاک پولیس ملازمین کو یہ کہتے ہوئے بری کر دیا کہ استغاثہ ملزمان کے خلاف ثبوت پیش نہیں کر سکا ،انسدادِ دہشت کی عدالت نے قانون اندھا ہونے کی تار یخی الفاظ کو چار معصوم وبے گناہ جانوں کے خون سے سیراب کر کے ظلم و بربریت کی حوصلہ افزائی کی تاریخ رقم کر دی۔

(جاری ہے)


انیس جنوری دو ہزار انیس کو ساہیوال ٹول پلازہ کے قریب لاہور کے رہائشی محمد خلیل،ان کی اہلیہ، جوانسال بیٹی اریبہ اور ڈرا ئیور ذیشان کو موبائیل پولیس کے چھ اہلکاروں نے سرِ عام شاہراہِ اعظم پر فائرنگ کرکے قتل کو دیا،یہ منظر لوگوں نے بچشمِ خود دیکھا اور کار پر پولیس کی اندھا دھند فائر نگ کا دلخراش منظر قانون کے لئے ثبوت کے طور پر کیمروں کی آنکھ میں محفوظ کر لیا لیکن وہ سب راہگیر تھے انسان اور مسلمان تھے لیکن مقتولین کے رشتہ دار نہیں تھے۔

ابتدائی رپورٹ میں بے رحم پولیس اہلکاروں نے تسلیم کیا کہ ہم نے دہشت گرد ہونے کی شبہ میں گاڑی پر فائرنگ کی ، عینی شاہدین کے مطابق پولیس نے کار پر فائرنگ کی کار رک گئی تو پولیس نے کا کے اندرمحمد خلیل اور اس کے بیوی بچوں پر دو سے دس فٹ کے فاصلے سے گولیاں برسائیں اس دلخراش سانحہ میں خوش قسمتی سے زندہ بچ جانے والے دو بچوں کے معصومانہ بیان کے مطابق پاپا،مما،باجی ہاتھ جوڑ جوڑ کر پولیس والوں سے زندگی کی بھیک مانگ رہے تھے لیکن پولیس گولیاں مارتی رہی۔


میڈیکل رپورٹ کے مطابق مقتول محمدخلیل کو پانچ،ان کی اہلیہ کو تین جوانسال اریبہ اور ڈرائیور ذیشان کو چھ چھ گولیاں لگیں۔پولیس کی گولی سے ایک بچہ زخمی اور شیشہ لگنے سے ایک بچہ ذخمہ ہوئی۔ دونوں بچے موقع کے چشمِ دید گواہ تھے وڈیو میں سرِعام قتل کا منظر میڈیا پر دنیا نے دیکھا لیکن انسدادِ دہشت گردی کی عدالت کو نہ تو دو معصوم بچوں کے بیان میں سچائی نظر آئی اور نہ وڈ یو میں ظلم و جبر کی داستان رقم ہوتی نظر آئی،تسلیم کرتے ہیں پولیس نے شبہ میں گاڑی روکنے کے لئے فائرنگ کی لیکن جب گاڑی رک گئی تو گاڑی میں موجود خاندان پرگولیں کیوں برسائیں اگر وہ ان کی نظر میں دہشت گرد تھے تو زندہ بھی گرفتار کیا جاسکیا تھا اتنی بے رحمی سے ان پر فائرنگ کی آخر کیا وجہ تھی کیا وہ پنجاب پولیس تھی یا کرائے کے قاتل ؟
پولیس مقابلوں میں مارے جانیوا لے خطرناک ملزمان کو اس لئے بھی گولی مار دی جاتی ہے کہ گرفتاری کے بعد عدالت میں وہ ان سہولت کاروں کے چہروں سے نقاب اتار دیں گے جن کیلئے وہ دام لیکرانسانوں کا خون کرتے رہے ہیں ۔

لگتا ہے معاشرے کے کچھ درندہ صفت نقاب پوشوں نے اپنے مخالفین کو مارنے کے لئے پولیس کو وردی میں خرید لیا ہے ،
 سانحہ ساہیوال میں پولیس نے ظلم وبربریت کی اور انسدادِ دہشت گردی کی عدالت کے جج نے انصاف کے خون کی داستان رقم کر دی،قوم حیرا ن و پریشان ہے اسلامی جمہوریہ پاکستان کی انہی عدالتوں میں کچھ جج آنکھوں پر پٹی باندھ کر حلف سے غداری اور جانبداری میں معاشرتی مجرموں کی مجرمانہ زندگی اور انسانیت سوز جرائم کو انصاف کا خون کر کے سیراب کرتے ہیں وطن عزیز کی معاشرتی زندگی میں قانون والے اور قانون دان نہ صرف انسان بلکہ مسلمان بھی ہیں جانے یہ لوگ کیوں اپنے ضمیر کو مار دیا کرتے ہیں سانحہ ساہیوال کے مقتولین کے ورثاء نے عدالتی فیصلے کے خلاف اپیل نہ کرنے کا فیصلہ کر کے اچھا فیصلہ کیا ہے کیونکہ اپیل میں وقت کی بربادی کے سوا ان کو کچھ نہیں ملے گا، اس لئے کہ ظلم وبربریت کی داستان کے مرتکب پولیس ہے اور ان کت خلاف مقدمہ درج کرنے والے ان کے پیٹی بھائی ہیں ان پیٹی بھا ئیوں کے اوپر بھی کچھ نقاب پوش فرشتے ہیں ۔


وزیرِ اعظم پاکستان عمران خان نے عوامی دباؤ فیصلے کے خلاف نوٹس لیکر پنجاب حکومت کو اپیل دائر کر کے لئے کہا ہے لیکن ریاست کے پاس وہ کون سا ثبوت ہے جس کی روشنی میں ریاست مقتولین کو انصاف دلا سکے گی وزیرِ اعظم کا نوٹس در اصل عدالت کے فیصلے پر سراپا احتجاج عوام کے جذبات پر وقت کا پانی ڈالنا ہے ،وزیرِ اعظم کا افسوس مگر مچھ کے آنسو ہیں ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :