بلاول بھٹو صاحب، ہچکولے کھاتی کشتی ڈوب جائے گی

ہفتہ 9 مئی 2020

Gul Bakhshalvi

گل بخشالوی

کورونا وائرس کی جان لیوا وبا کے اس دورا نیئے میں چاہیے تو یہ تھا کہ اپوزیشن اور حکومت دونوں اپنی اپنی اناؤں کے آسمان سے اتر کر دیس اور دیس والوں کے لئے ایک جان دو قالب ہو جاتے لیکن بدقسمتی سے قومی سطح پر حالا ت کی سنگینی کے باوجوداپوزیشن اور حکومت کے درمیان فاصلے کم نہیں ہو سکے اپوزیشن اور حکومت کے ساتھ اتحادی کٹ پتلیاں بحثیت انسان قومی حالات سے رنجیدہ ہیں لیکن سنجیدہ نہیں۔

یہ سب لاشوں کی سیاست کے قائل ہیں اس لئے کورونا وائرس پر سیاست کھیل رہے ہیں جو کہ دیس اور دیس والوں کے لئے نیک شگون نہیں !
 قومی سیاست پر کچھ خاندان اور افراد قابض ہیں 2002 میں 140 ارکین اسمبلی مسلم لیگ ن چھوڑ کر مسلم لیگ ق میں آئے 2008 کے الیکشن میں 189 راکینِ اسمبلی مسلم لیگ ق سے پیپلز پارٹی میں آئے 2013 کے الیکشن میں 121پیپلز پارٹی سے مسلم لیگ ن میں آئے 2018کے الیکشن میں یہ لو گ تحریک انصاف میں آئے ہیں یہ ہی وہ لوگ اور خاندان ہیں جو قومی سیاست پر قابض ہیں اگر ان میں سے کوئی مرتا ہے تو اس کا جانشین میدانِ سیاست میں اتر آتا ہے یہ لوگ اپنی من مانیاں منواتے ہیں قیادت ملک اور عوام سے کتنی ہی مخلص کیوں نہ ہو لیکن وہ کچھ بھی نہیں کر سکتی ۔

(جاری ہے)

!
عمران خان نے ا لیکشن سے پہلے کہا تھا کہ میری کابینہ مختصر ہو گی کا بینہ مختصر اس صورت میں ہو تی اگر عمران خان تنہا حکومت بنانے کی پوزیشن میں ہوتے وزراء کی فوج ان کی مجبوری ہے بلیک میلروں کی فوج ان کے گرد ہے اپوزیشن حکومت گرانے کی پوزیشن میں ہے لیکن وہ جانتے بھی ہیں عمران خان کھلاڑی بھی ہیں یہ سودا مہنگا بھی پڑ سکتا ہے اسلئے سب پرانی تنخواہ پر دل پشاوری کر رہے ہیں!
 سابق صدرِ پاکستان آ صف علی زرداری (جو اپنے دورِ اقتدار میں دو پرسنٹ کا نام کما چکے تھے ) نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ نیب کی کیا جرا ت ہے کہ اس کے خلاف کوئی کیس بنا سکے پارٹی کے جیالے بھی نعرہ لگاتے تھے ایک زرداری سب پہ بھاری ، زرداری کے سسر ذوالفقار علی بھٹو کو بھی غلط فہمی تھی کہتے تھے یہ لوگ مجھے پھانسی کیسے دے سکتے ہیں اور اپنی اسی غلط فہمی پر ہٹ دھرمی کی حد تک قائم رہے اور ماورائے عد ا لت قتل کر دئے گئے پھانسی پر لٹکا دئے گئے ۔

 آصف علی زرداری سے محبت میں اس کے پیارے نعرہ لگاتے تھے ایک زرداری سب پہ بھاری۔لیکن نیب نے ایسا قابو کیا کہ ضمانت ہو جانے کے بعداپنی بہن کے ساتھ ایسے خاموش ہیں کہ جیسے وقت نے منہ پر ٹیپ لگا دی ہو ۔ لیکن ان کی خاموشی ان کے لئے بہتر ہے مسلم لیگ ن والے بول بول کر ہلکان ہو رہے ہیں تو حاصل کیا کر ہے ہیں سوائے آئے روز کی ذلت کے!
حیرانی ہے تو بلاول بھٹو کی سیاست پروہ اپنی پارٹی کی ڈوبتی کشتی کو کنارے لگانے کے لئے بہت کچھ کر سکتے ہیں اخباری بیانات سے قوم اکتا چکی ہے ایک جیالے کا کہنا ہے کہ میں 52 سال سے روٹی کپڑا اور مکان کے نعرے لگا تے بوڑ ھا ہو گیا ہوں سینکڑوں کنال اراضی پر بلاول ہاوس اور زرداری ہاوس تو بن گئے مگر میں اب بھی کرائے کے مکان میں رہ رہا ہوں ۔

قوم عملی طور پرکام چاہتی ہے اپنے لئے اور قوم کے لیے!
 قوم قیادت کو دل دینا جانتی ہے لیکن ووٹ کے لیے دل جیتے جاتے ہیں پارٹی اپنے پاؤں پر کھڑی ہو اختلافی بیانات سے کہیں بہتر ہے کہ صحت مند اپوزیشن کے کردار میں عوام کو رلیف دینے کے لئے پارٹی مشکل کی اس گھڑی میں حکو مت کے ساتھ کھڑی ہو جائے سیاسی اختلافات اپنی جگہ لیکن طاقت کا سر چشمہ عوام کا پیٹ باتوں سے تو نہیں بھرتا اپنے سند ھ کے لئے وفاق سے رونا چھوڑ دیں سندھ میں عوام خوشحال ہوں گے تو دوسرے صوبوں کے عوام کی آنکھ ان کے لئے کھل سکتی ہے بھوکے اور پیاسوں پر حکمرانی کرنے والوں کی طرف کون دیکھے گا بلاول صاحب سندھ کو خوشحال صوبہ بناؤ لیکن اگر موجودہ سوچ کو اپنائے رکھا تو تیز ہواؤں کی زد میں ہچکولے کھاتی پارٹی کی کشتی ڈوب جائے گی!! 

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :