نیب ،سپریم کورٹ اور اپوزیشن

ہفتہ 25 جولائی 2020

Gul Bakhshalvi

گل بخشالوی

جسٹس فائز عیسیٰ کو دھمکی دینے والے ملزم پر فردِ جرم عائد کرتے ہوئے چیف جسٹس کہتے ہیں کہ کوئی فردِ واحد اپنے طور پر عدلیہ اور ججزکے خلاف ایسا توہین آمیز بیان نہیں دے سکتا جسٹس فائز عیسیٰ کو قتل کی دھمکی سے متعلق کیس میں مولوی آغا افتخارالد ین پر فرد جرم عائد کرتے ہوئے چیف جسٹس نے مزید کہا کہ عدلیہ سے مذاق عدلیہ اور ججز کی توہین ہے اگر ایسے بیانات پر نوٹس نہ لیا تو پاکستان کا سارا نظام تبدیل ہو جائے گا ممبر پر جاہلوں سے بھی بدتر گفتگو کی گئی ہے
 تسلیم کرتے ہیں کہ مولوی کے توہین آمیز بیان پر سپریم کورٹ نے نوٹس لیا چیف جسٹس کے ریمارک سے عد لیہ اور ججز کا وقار بڑھے گا لیکن بد قسمتی سے توہین عدلیہ کے توہین کے مرتکب ایسے ملزمان کو اول تو مجرم قرار دینے سے قبل اس کی زبانی یا تحریری معافی پر بری کر دیا جاتا ہے یا فردِ جرم کے بعد بھی اسے قرار واقعی سزا نہیں دی جاتی جس سے عدلیہ اور ججز کا وقار مجروح ہوتا ہے اگر توہینِ عدالت کے مجرم کو قرار واقعی سزا دی جاتی تو کسی کو عدالت کے خلاف بولنے کی جرا ¾ت نہ ہوتی لیکن اقربا ¾ءپروری اور مصلحت کے تقاضوں پر عدالت اور جج کے وقار کو قربان کر دیا جاتا ہے اس لئے قوم ایسے لوگوں کے ساتھ رعایت پر عدلیہ کو قصور وارٹہراتی ہے یہ حقیقت ہے کہ جسٹس عیسیٰ کو دھمکی د ینے والے مجرم کو مثالی سزا عدلیہ کا امتحان ہے قوم منتظر ہے کہ عدلیہ اور ججز کے وقار کی توہین کرنے والے مجرم کو عدالت کیا سزا دیتی ہے
   سپریم کورٹ وطن عزیز میں حکمران اور اپوزیشن کے درمیان ذاتیات پر مبنی محاذ آرائی کو محسو س کر رہی ہے سپریم کو رٹ اور ماتحت عدالوں کے جج صاحبان سیاستدان نہیں لیکن قوم اور قومیت کی بہتری کے لئے وہ فیصلے کر رہے ہیں جو فیصلے پارلیمنٹ میں ہونا چاہیے تھے کابینہ میں غیر منتخب معاونِ خصوصی اور مشیروں سے متعلق دبی آوازوں کو سامنے لانے کے لئے عدالتکے سوال اور حکومت کی ہدایت ہر مشیروں اور معاونینِ خاص نے اپنے اثاثے ظاہر کر دئے اب حکومت عدالت کو بتائے گی کی غیر منتخب نمائندوں کی خدمات کے حصول کی ضرورت کیوں محسوس کی گئی لیکن پاکستان کی اپوزیشن نے پاکستان کی قابل ترین ماہرینِ معاشیات اور ٹیکنوکریٹ کو غیر ملکی ٹولہ کہہ کر بیرون پاکستان محنت کشوں کی توہین کی ہے اس لئے کی وہ غیر ملکی نہیں پاکستان کا خون ہے وہ غیر ملکی نہیں ان کے پاس غیر ملکی شہریت ہے اگر قومی معیشت کی بہتری کے لئے تجربہ کار پاکستانیوں کو پاکستان بلایا گیا ہے تو گوئی آئینی جرم نہیں کیا اپوزیشن اپنا گریبان بھی دیکھے مسلم لیگ ن کا پورا خاندان عرب امارات اور سعودی عرب کا اقامہ ہولڈر ہونے کے باوجود حکمران تھا مریم نواز کا اقامہ جو سوشل میڈیا پر گزشتہ دو سال سے وائرل ہے اس میں وہ غیر مسلم خادمہ ہے مسلم لیگ ن نے اس کا کوئی نوٹس نہیں لیا اور نہ ہی سابق وزیرِ اعظم شاید خاقان عباسی، مریم اورنگ زیب اور احسن اقبال نے اس سے متعلق کچھ کہا نہ نوٹس لیا
پاکستان کے عوام بخوبی جانتے ہیں حکومت وقت کے آج کے معاون اور مشیر خاص اگر عوامی نمائندگی کے لئے انتخاب میں حصہ لیں تو کھبی کامیاب نہیں ہوں گے اس لئے کہ چند خاندان قومی سیاست پر قابض ہیں اور پاکستان کے عوام ان کے سیاسی مزدور ہیں ہم پاکستانی قوم انگھوٹھا چھاپ موروثی خاندانوں کے ذہنی غلام ہیں اگر قومی تعمیرِ نو کے لئے پاکستانی نژاد تعلیم یافتہ تجربہ کا لوگوں کو حکمران جماعت نے مشیر خاص بنایا ہے تو کوئی جرم نہیں کیا !!
سپریم کورٹ نے نیب کی سست رفتاری کا نوٹس لیا ہے سپریم کورٹ نے جو کہا غلط نہیں کہالیکن قوم یہ بھی سوچ رہی ہے کہ اگر نیب قومی لٹیروں کے خلاف ایکشن لیکر ان کے چہروں کو بے نقاب نہ کرتی تو تبدیلی کو تقویت کیسے ملتی پاکستان میں تو اپوزیشن کی سیاست چور مچائے شور کی پالیسی ہے نیب نوٹس لیتی ہے لیکن جو تحقیقات میں تعاون کی بجائے میڈیا میں شور مچاتے ہیں تو ایسوں کو توپکڑ کر ہی کچھ اگلوایا جا سکتا ہے
پولیس بھی تو ایسا ہی کچھ کرتی ہے پولیس کے پاس اگر کسی ادارے یا شخصیت کے خلاف کوئی درخواست آتی ہے تو تفتیشی اس کے گھر پہنچ جاتا ہے اگرملزم تعاون نہیں کرتا تو تھانے لے آتی ہے اور بہت کچھ اگلوا کر اسے عدالت کے حضور لا کھڑا کر دیتی ہے تب عدالت پر منحصر ہے کہ و ہ مجرم کو سزا دیتی ہے ضمانت پر رہا کرتی ہے یا معصوم قرار دیکر بری کرتی ہے پولیس صرف اپنی کارکردگی کا تماشہ دیکھتی ہے یہ ہی وجہ ہے کہ نیب کا ہاتھ جب کسی کے گریبان تک پہنچتا ہے تو وہ ہائی کورٹ کا رخ کرتے ہیں اور کیس لٹک جاتا ہے قوم یہ بھی جانتی ہے کہ عدالتوں میں تشریف فرما جج صاحبان بھی خدائی مخلوق نہیںان کی بھی کچھ مجبوریاں ہوتی ہیں ان کے اعتماد کا بھی دھوکہ دیا جاتا ہے
 مقامی عید گا ہ میں پولیس کے ایک اعلیٰ افسر نے ایک نجی نشست میں کہا کہ میں تھانے دار تھا ایک خطر ناک مجرم کو عدالت میں پیش کیا تو جج نے سوال کیا تمہارے خلاف قتل کے کتنے مقدمات ہیں تو مجرم نے کہا اٹھارہ جج نے کہا میرے سامنے تو سترہ ہیں جواب میں مجرم نے کہا اٹھاروان قتل آپ کو قتل کرنے کے بعد درج ہو گا اور وہ کیس دوسرا جج دیکھے گا ایسے حالات میں جج ہر فیصلہ دینے سے پہلے سو بار سوچتا ہے جو کہ ہم پاکستانی بخوبی جانتے ہیں!!!

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :