یوں تو بہت سی جیلیں ہیں جہاں مجرم اپنی سزا کاٹتا ہے۔ خواہ وہ مجرم چوری کاہو یا قتل و دیگر سنگین جرائم اسے اپنی سزا بگھتنی ہی ہوتی ہے۔ اسی طرح 2020 میں ایک انسانی جیل ایسی بھی ہے جسے آزادی مانگنے کے جرم میں بظاہر جیل میں بند کررکھا ہے۔ 190 روز ہونے کو ہیں نا کسی عدالت میں ان لوگوں کی شوائی ہوئی نا کسی بین الاقوامی عدالت نے اسکا مقدمہ دیکھا۔
ان لوگوں کا بھی وہی مقدمہ ہے جو قائد اعظم محمد علی جناح و علامہ اقبال رح کا مقدمہ تھا۔ان کشمیریوں کا وہی مقدمہ ہے جو قائدین و کارکنان تحریک آزادی پاکستان کا مقدمہ تھا۔
نریندر مودی کے 5 اگست کے قانونی ترمیم کے اقدام کے بعد جس طرح کشمیروں کو نظر بند کیا گیا اسکی مثال نہیں ملتی۔وہ انٹرنیٹ و ذرائع مواصلات کو مکمل طور پر بند کر دیا۔
(جاری ہے)
ترمیم سے اب مقبوضہ جموں کشمیر اب بھارت کا حصہ ہوگا اور بھارتی شہری مقبوضہ جموں کشمیر میں زمین خرید سکیں گے۔یہ ایک سوچی سمجھی گیم کے تحت کشمیر کی جغرافیائی و آبادی حالت کو بدلنے کی کاوش ہے۔ پاکستان نے اس قانون کو ماننے سے انکار بھی کیا اور اقوام عالم کو بھارتی رویہ و عمل سے آگاہ بھی کیا۔جہاں قومی میڈیا نے مسئلہ کشمیر کو اٹھایا وہیں بین الاقوامی میڈیا نی بھی مسئلہ کشمیر لو فوقیت دی۔
اب تک 5 مرتبہ امریکی صدر ڈونلڈٹرمپ نے مسئلہ کشمیر پر ثالثی کا کہا ہے جبکہ وزیراعظم عمران خان اب تک 3 مرتبہ صدر۔ٹرمپ کے ہمراہ مسلہ کشمیر کو اجاگر کرچکے۔ ادھر یو۔این۔اؤ اجلاس میں وزیراعظم عمران خان دوھادھار خطاب بھی کر کہ آے اور دنیا کو کشمیر مسئلہ اور اسکے خطے پر پرھنے والے اثرات سے متعلق آگاہ بھی کر کہ آے مگر اس کے بعد ملک اندرونی معاملات اور انتشار کا شکار ہوا اور مولانا مارچ نے اسلام آباد کا رخ کیا۔
پھر مسئلہ کشمیر کی بجاے مولانا ٹاپ ٹرینڈ بن گئے۔ پھر اہم مسئلہ ملین مارچ بنا ناکہ کشمیر۔ ابھی یہ آفت نہیں گزری تھی کہ آرمی چیف کی مدت ملازمت کیس آجاتا ہے تو ساتھ ہی میاں نواز شریف کی طبیعت خراب ھوجاتی ہے۔ادھر مشرف سنگین غداری کیس کا فیصلہ آجاتا ہے جس سے ملک میں کھبلی مچ جاتی ہے۔ اس دوران کشمیر اور کشمیر کاز منظر سے غائب ھو جاتا ہے۔
پھر ہم دیکھتے ہیں کہ 5 فروری کو ملک بھر میں یوم یکجہتی کشمیر منایا جاتا ہے اور ریلیاں نکالی جاتی ہیں۔ ادھر وزیراعظم عمران خان آزاد کشمیر کی قانون ساز اسمبلی سے اور پھر مظفر آباد جلسہ عام سے خطاب کرکہ بھارت و بی۔جی۔پی کو متنبہ کرتے ہیں تو ادھر پھر سے ایک پینڈورا باکس کھل جاتا ہے خواہ وہ مسلم لیگ (ق) یا ایم۔کیو۔ایم پاکستان یا سردار اختر مینگل سب ہی اتحادی ناراض آتے ہیں اور اپنے اپنے مسائل حکومت سے سامنے رکھے ہیں۔
پھر کمیٹی کمیٹی کھیلا جاتا ہے مگر کشمیر پھر پیچھے رہ جاتا ہے۔
اب 190 دنوں سے قید مقبوضہ جموں کشمیر کی عوام امت مسلمہ کو چیخ چیخ پر بلارہی ہے مگر امت ہے کہ اپنے کاروبار و دیگر ضروریات کی نظر دشمن سے دررہی ہے۔مسلم ممالک کا حال یہ کہ سب آپس میں ہی دست و گریبان ہیں۔ سعودی عرب و ایران کے حالات ہیں یا سعودی عرب و ترکی کے حالات ہیں سب سامنے ہیں۔
شام، عراق، فلسطین و یمن کے حالات سامنے ہیں۔ مکمل طور پر امت مفلوج ہوکر رہ گئی ہے۔
امریکی صدر کی 100 سالہ بیت المقدس پالیسی کے بعد فلسطین مکمل طور پر معاہدہ سے لاتعلق ھو چکا جبکہ ترکی ہی واحد ملک جس نے کھل کر کہا کہ بیت المقدس ہمارا ہے مگر مجال ہے کسی اسلامی ملک نی کہا ھو کہ بیت المقدس ہمارا ہے جبکہ قائد اعظم محمد علی جناح رح خود فرما چکے کہ پاکستان کبھی اسرائیل کو تسلیم نہیں کرے گا جسکا مطلب ہی یہ تھا کہ بیت المقدس فلسطین کا ہے یعنی امت مسلمہ کا ہے۔
آج کشمیر ہو یا فلسطین دونوں کو ایک ارطغرل کی ضرورت ہے وہ ارطغرل جو کائی قبیلے سے اٹھا اور صلیبیوں اور دشمنوں کی چالوں کو ناکام بناتے ہوئے ایک ایسی سلطنت کے قیام کی بنیاد رکھتا ہے جو بعد میں سلطنت عثمانیہ کہلاتی ہے۔یہ وہی سلطنت ہے جسکے رعب سے دشمن لرز جاتا تھا۔ انکی تلواریں ہمیشہ اللہ کی راہ میں اٹھا کرتی تھیں۔ اس وقت حضرت محی الدین ابن العربی رح کا بھی اہم کردار تھا مگر آج کوئی تو ارطغرل ہو جسکی تلوار حق کی خاطر اٹھے اور ظالم و جابر کو نیست و نابود کردے۔
جس کے دل میں فقط خوف خدا ھو اور امت مسلمہ کا درد و اتحاد اسکا نصب العین ھو۔
جہاں کشمیر محاذ پر خارجی جنگ لڑنی ہے وبیں وقت کی ضرورت ہے کہ سرحدی محاذ پر بھی تیار ہوا جائے۔یو۔این۔او اور اقوام عالم کو یونہی متوجہ کیا جاسکتا ہے۔ پاکستان کو امت مسلمہ کو ایک پلیٹ فارم پر یکجا کرنا ہوگا تاکہ امت ملکر اپنی بقا و بحالی کی جنگ لڑسکے۔اگر امت یونہی بکھری رہی تو ایک ایک کر کہ دشمن سب کو اندرونی لحاظ سے کمزور کر کہ ختم کرتا چلا جاے گا۔
اٹھ شیر مجاہد ہوش میں آ تعمیرِخلافت پیدا کر
کیوں فرقے فرقے ہوتا اب ایک جماعت تو پیدا کر
کر تو بھی ترقی دنیا میں اسبابِ تجارت پیدا کر
قارون کی دولت ٹھکرادے عثمان کی دولت پیداکر
اسلام کا دم بھرتا ہے کفار سے پھر کیوں ڈرتا ہے؟
یا! تو اسلام کا نام نا لے یا شوقِ شہادت پیدا کر
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔