ناروے میں توہینِ قرآن

پیر 25 نومبر 2019

Hayat Abdullah

حیات عبداللہ

”سٹوڈنٹ آف دی ایئر“بھارتی فلم کا نام ہے جو 19 اکتوبر 2012 کو ریلیز کی گئی۔یہ فلم معروف بھارتی مسلمان اداکار شاہ رخ خان نے پروڈیوس کی۔اس فلم کے ریلیز ہونے کے ایک ماہ بعد نومبر 2012 میں ضلع مظفر پور کی پولیس نے عدالت کے حکم پر شاہ رخ خان، اس کی بیوی گوری خان اور فلم ڈائریکٹر کرن جوہر کے خلاف مقدمہ درج کر لیا۔الزام یہ عائد کیا گیا کہ ایک گانے کے دوران ہندو دیوی رادھا کو”نامناسب“ انداز میں پیش کیا گیا ہے۔

ہندو اپنے مذہب کے معاملے میں اتنے حساس اور جذباتی ہو گئے کہ محض”نامناسب“ انداز کی وجہ سے ہی ان کے مذہبی جذبات مجروح ہو گئے۔ہندو سراپا احتجاج تھے کہ ان کے مذہب کی توہین کیوں کی گئی ہے؟
آئیے ایک اور منظر ملاحظہ کیجیے۔یہ 17 مارچ 2013 ہے۔

(جاری ہے)

سری لنکا میں کولمبو کے بین الاقوامی ہوائی اڈے پر ایک برطانوی سیاح اترتا ہے۔امیگریشن آفیسر جب برطانوی سیاح کے بازو پر کنندہ ٹیٹو کے متعلق سوال کرتا ہے تو وہ از راہِ تفنن توہین آمیز بات کر دیتا ہے۔

اس جرم کی پاداش میں اس سے سری لنکا میں داخل ہونے کی اجازت چھین لی جاتی ہے اور اُسے وہیں سے واپس برطانیہ لوٹا دیا جاتا ہے۔سبب مذہب کی توہین تھا۔امیگریشن آفیسر کے مطابق ایسے خیالات سری لنکا میں ان کی سلامتی کے لیے خطرہ ہیں اس لیے کہ سری لنکا میں اکثریت بدھ مذہب کی پیروکار ہے۔سری لنکا اور برطانیہ کے مابین گہرے تجارتی مراسم تھے مگر جب اُن کے مذہب پر حرف آیا تو تمام گہرے تعلقات کو بھی پسِ پشت ڈال دیا گیا۔

اس سے قبل بھی ایسے ہی ایک واقعے میں فرانس کے تین سیاحوں کو قید کی سزا تک سنا دی گئی تھی۔اُن کا جرم یہ تھا کہ اُنھوں نے بدھ مجسمے کے ساتھ کچھ اس طرح تصویر بنوائی تھی کہ جیسے اس کا بوسہ لے رہے ہوں۔مذہب کے معاملے میں اُن کی حساسیت اور نازک مزاجی ملاحظہ کیجیے کہ بوسہ لینا اگرچہ عقیدت کی علامت ہوتا ہے مگر بدھ مذہب کے پیروکار کسی غیرمذہب کے ماننے والوں کے ہونٹ بھی اپنے مجسمے پر لگنا گوارا نہیں کرتے اور وہ اس فعل کو بھی اپنے مذہب کی توہین سمجھتے ہیں۔

اُن کی شدت پسندی دیکھیے کہ اتنی خفیف سی بات پر اُن تینوں سیاحوں کو جیل میں ڈال دیا گیا۔
2010 میں سری لنکا نے”ایکون“ نامی امریکی موسیقار کو نہ صرف ویزا دینے سے انکار کر دیا بلکہ اُس کے خلاف سخت مظاہرے بھی ہوئے۔وجہ یہ تھی کہ اس کی میوزک ویڈیو میں ایک خاتون کو نیم برہنہ کپڑوں میں مہاتما بدھ کے مجسمے کے ساتھ رقص کرتے دکھایا گیا تھا۔

سری لنکا کے عوام سیخ پا ہو گئے کہ اُن کے مذہب کی توہین کیوں کی گئی؟ ایکون نامی موسیقار کو سری لنکا کی سرزمین پر اپنے قدم رکھنے کی اجازت تک نہ دی گئی۔
مذہبی معاملات کس قدر نازک ہوتے ہیں آئیے! ایک اور منظر پر غور کیجیے۔2012 میں روس کے ایک معروف میوزک بینڈ نے ماسکو کے ایک چرچ میں روسی صدر ولادی میر پوٹن کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کیا جس پر روس میں محض اس بات پر بھی احتجاجی مظاہرے شروع ہو گئے کہ چرچ میں احتجاجی مظاہرے کر کے چرچ کی توہین کی گئی ہے سو بینڈ کے تمام ارکان کو جیل جانا پڑا۔

مگر بات یہیں ختم نہیں ہوئی بلکہ روس کے ارکان پارلیمان نے ایسے قانون کی منظوری دے دی جس کے مطابق مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے والے شخص کو نو ہزار ڈالر جرمانہ اور تین سال قید کی سزا دی جا سکے گی۔اس قانون کو ایوانِ زیریں نے بھی منظور کر لیا تھا۔
آئیے! اب ایک منافقت سے آلودہ یہ منظر بھی دیکھیے کہ اقوامِ متحدہ کا ایک ایلچی ہینر بیلیفیلڈ اپریل 2013 میں واشگاف الفاظ میں یہ کہتا ہے کہ”مذہبی عقائد کی توہین روکنے یا کسی مذہب یا عقیدے کو رد کرنے والوں کو سزا دینے کے لیے بنائے جانے والے قوانین خطرناک ہیں“حقیقت یہ ہے کہ اس نوع کی تمام بے سروپا باتوں کا مقصد محض قرآن مقدّس اور نبیِ مکرّم صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین وتضحیک کے در وا کرنا ہے۔

(معاذاللہ)
سب جانتے ہیں کہ اپنا مذہب اور عقیدہ انسان کو اپنی جان سے بھی پیارا ہوتا ہے۔اگر ایسا نہیں ہے تو پھر شاہ رخ خان اور اس کے ساتھی اداکاروں کے خلاف مقدمہ کیوں درج کیا گیا؟ اگر اقوامِ متحدہ کے ایلچی کی بات درست ہے تو پھر سری لنکا کے امیگریشن آفیسر نے برطانوی سیاح کو اپنی سرزمین پر قدم رکھنے کی اجازت کیوں نہ دی؟ اگر توہین مذہب کے قوانین غلط ہیں تو پھر سری لنکن حکام نے امریکی موسیقار ایکون کو ویزا دینے سے انکار کیوں کر دیا؟ اگر توہین مذہب کا قانون واقعی اظہارِ رائے کی آزادی کو سلب کرتا ہے تو پھر روس کی پارلیمنٹ نے آئین سازی کر کے اپنے میوزک بینڈ کو سزا کیوں دلوائی؟ توہینِ مذہب کا قانون بنانے میں پہل مغربی ممالک نے کی تا کہ عیسائیت پر کوئی آنچ نہ آئے۔

بہت سے مغربی ممالک میں اب تک یہ قانون نافذالعمل ہے اور کچھ مغربی ممالک تو اس قانون کو ازسرِنو متعارف کروانے کے لیے سرگرم بھی ہیں۔آئرلینڈ میں 1937 کے آئین کے تحت توہینِ مذہب پر قدغن عائد ہے تاہم اسلام دشمنی میں آئرش حکومت اس قانون کو ختم کرنے کے درپَے ہے۔ہمیں شدت پسندی کا طعنہ دینے والے یہ عالمی گماشتے اپنے مذہب پر تو معمولی آنچ بھی گوارا نہیں کرتے مگر ہمیں پیغمبرِ اسلام اور قرآنِ ذیشان کی توہیں برداشت کرنے کا درس دیتے ہیں۔

قرآن مجید کو علانیہ نذرِ آتش کرنا اور پیغمبرِ اسلام کی شان کا استہزا کرنا ان عالمی دہشت گردوں کا مشغلہ بن کر رہ گیا ہے۔سی آئی اے کا ایجنٹ ٹیری جونز کھلم کھلا یہ شرانگیزی کر چکا ہے کہ امریکی مسلمان امریکی آئین کی بجائے شریعت پر عمل کرنے کی بات بالکل نہ کریں، اگر انھیں اس ملک میں رہنا ہے تو شریعت کی بجائے امریکی آئین کے تحت رہنا ہو گا۔

ٹیری جونز دھمکی دے چکا ہے کہ امرکی شہر ڈیربورن میں ہزاروں عرب نژاد مسلمان آباد ہیں وہ امریکا کے لیے خطرہ بننے کی بجائے امریکی آئین کی پاس داری کریں اور اسلامی طرز فکر اور شریعت کو ترک کر کے مفید امریکی شہری بن جائیں۔ٹیری جونز کے منہ نکلا ایک ایک لفظ اس حقیقت کا غماز ہے کہ یہ سب دھمکیاں منظم اور مربوط پروگرام کے تحت امریکی حکومت اور ایجنسیوں کے ایما پر دی گئی تھیں۔


اب آئیے میں آپ کو ناروے کے شہر کرسچین سینڈ لیے چلتا ہوں۔ناروے میں اسلام مخالف تنظیم کا نام (سیان) ہے۔یعنی (سٹاپ اسلامائزیشن آف ناروے) اس کے سربراہ کا نام تھارسن ہے۔اسلام کے خلاف ناروے کی مقامی انتظامیہ کا تعصّب اور عنادوکد دیکھیے کہ اس نے تھارسن کی خواہش پر گذشتہ ہفتے قرآن کو جلانے کی اجازت دے دی۔بدبخت تھارسن نے قرآن کو آگ لگا کر اچھالا ہی تھا کہ عمر الیاس نامی ایک نوجوان اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکا۔

اس نے مجمعے کو للکارا اور تھارسن پر حملہ کر دیا اور زدوکوب کرنے کی کوشش کی۔ناروے کی متعصّب پولیس پر لوگ متعجّب تھے کہ اس نے قرآن جلانے والے کا مکمل تحفظ کر کے عمر الیاس کو گرفتار کر لیا۔
مسلمانو! کچھ تو سوچو کہ دنیا میں ہندوؤں کی تعداد 90 کروڑ ہے مگر اُن کے مذہب پر کوئی دشنام طرازی نہیں کر سکتا۔بدھ متوں کی تعداد صرف 35 کروڑ ہے اور یہ دنیا کی آبادی کا صرف چھے فی صد ہیں مگر کسی یہودی یا عیسائی میں اتنی جراَت نہیں کہ بدھ متوں پر زبانِ طعن دراز کر سکیں۔

مسلمان تو ڈیڑھ ارب ہیں پھر بھی ان کے نبیِ مکرّم صلی اللہ علیہ وسلم کی آئے دن تضحیک، ان کے قرآنِ مقدّس کی ہر روز توہین کی جاتی ہے۔ اسلامی ممالک کچھ بھی نہیں کر سکتے تو کم از کم ناروے کے سفیر کو تو ملک بدر کر سکتے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :