جدھر سے آئے دشمن ہم اُدھر کو موڑ دیتے ہیں

اتوار 6 ستمبر 2020

Hayat Abdullah

حیات عبداللہ

وہ 8 ستمبر 2012 کا دن تھا۔ بھارت کے دو معروف ٹی وی چینلز سہارا ون اور کلرز نے”سُر کشیتر“ کے نام سے پاکستانی اور بھارتی گلوکاروں کے مابین ایک موسیقی کے مقابلے کا اعلان کیا تھا۔”سُر کشیتر“ کے ججز کے طور پر بھارت کی معروف گلوکارہ آشا بھوسلے، پاکستان سے عابدہ پروین اور بنگلہ دیش سے رونا لیلہ کو نامزد کیا گیا تھا۔مگر تعصّب کی چِتا میں سُلگتے ہندو سیخ پا ہو گئے۔

وہ کسی طور پر بھی بھارتی گلوکاروں کے ساتھ پاکستانی گلوکاروں کا یہ پروگرام نہیں ہونے دینا چاہتے تھے۔ریاست مہاراشٹر کی علاقائی جماعت”مہاراشٹر نونرمان سینا“یعنی ایم این ایس کے راہنما راج ٹھاکرے نے آشا بھوسلے کو دھمکی دی کہ وہ ایسے کسی پروگرام کا حصّہ نہ بنے جس میں پاکستانی فن کار شامل ہو رہے ہوں۔

(جاری ہے)

آشا بھوسلے کا جواب تھا کہ مہمان دیوتا ہوتے ہیں سو ان کی پذیرائی کی جانی چاہیے مگر متشدّد ہندوؤں کی مسلمانوں کے ساتھ عداوت ملاحظہ کیجیے کہ راج ٹھاکرے نے جَل بُھن کر کہا کہ آشا بھوسلے ان مہمانوں کو اپنا دیوتا سمجھتی ہے تو پھر وہ اجمل قصاب کو بھی مہمان دیوتا کے طور پر تسلیم کیوں نہیں کر لیتی؟ اسی ہندو تنظیم نے یہ مقابلہ نشر کرنے والے ٹی وی چینلز کو بھی دھمکی دی کہ وہ اس پروگرام میں پاکستانی فن کاروں کو شامل نہ کریں۔

انھوں نے واشگاف الفاظ میں تڑی لگائی کہ اگر پاکستانی فن کاروں کو شامل کیا گیا تو اس شو کو نشر نہیں ہونے دیا جائے گا۔
جنگِ ستمبر کا وہ منظر کس قدر عظیم الشّان اور عظیم المرتبت تھا جب پاک فوج اور پاک عوام کی جراَت اور حمیت کے ٹھاٹھیں مارتے بحرِ بے کراں کو ساری دنیا دیکھ کر دنگ اور انگشت بہ دنداں رہ گئی تھی۔تاریخ کے اوراق پر جب جنگِ ستمبر کے واقعات کا مطالعہ کیا جائے تو رگ وپے میں ایمان وایقان کی تمازت و حرارت اور شجاعت وبسالت کی بجلی سی کوند جاتی ہے۔

پاک فوج کے معرکے، لہو میں ایک عجب جوش اور ولولہ بھر دیتے ہیں۔بھارتی فضائیہ کے لڑاکا طیارے گرانے والے فلائٹ لیفٹیننٹ یوسف علی کی بہادری قلب ونظر میں وطن کے ساتھ محبت اور عقیدت کے نئے اور اچھوتے در وا کر دیتی ہے۔
دشمن نے رات کی تاریکی میں حملہ کیا تھا۔بھارتی کمانڈر جے این چودھری بڑھک لگاتا تھا کہ بھارتی فوج آٹھ گھنٹوں میں لاہور پر قبضہ کر لے گی اور 92 گھنٹوں میں سارے پاکستان پر اپنا تسلّط جما کر اس کا نام نشان تک مٹا ڈالے گی۔

وہ سات ستمبر کی شام کو شالیمار گارڈن میں فتح کا جشن منانے آئے تھے۔بی آر بی کینال کے کناروں پر متعیّن پاکستانی جاں باز فوجیوں نے بھارتی گیدڑوں کا منہ توڑ کر رکھ دیا۔پاکستان کی فضا”اے مردِ مجاہد جاگ ذرا، اب وقتِ شہادت ہے آیا“ جیسے ملّی نغموں سے گونج اٹھی تھی۔وہ منظر کس قدر ایمانی حرارت سے مزیّن اور مرتّب تھا کہ لوگ پیدل اور سائیکلوں پردیوانہ وار محاذِ جنگ کی طرف دوڑے چلے آئے تھے۔


اے وطن تُو نے پکارا تو لہو کَھول اٹھا
 تیرے بیٹے، تیرے جاں باز چلے آتے ہیں
دشمن دوپہر کی چائے لاہور جم خانہ کلب میں پینے آ رہے تھے مگر ایمانی لذّت سے سرشار اور جاں بازی اور جاں سپاری کے سانچوں میں ڈھلی پاکستانی فوج نے انھیں بی آر بی نہر بھی عبور نہ کرنے دی۔ہماری نیوی نے اپنے سے دس گنا بڑی نیوی کو بحرِ ہند میں غرق کر ڈالا۔

دوارکا کے درودیوار آج بھی ہماری قوت اور سطوت کے سامنے سَر نِگوں دکھائی دیتے ہیں۔
میجر راجا عزیز بھٹّی نے اپنی یونٹ کے ہمراہ ڈٹ کر مقابلہ کیا۔پاک انفنٹری 10 ڈویژن نے لاہور اور قصور کے دفاع میں اہم کارنامہ سرانجام دیا۔لاہور پر حملے کے صرف دس منٹ بعد پاکستان ائر فورس، لاہور کی مشرقی فضاؤں میں برقِ تپاں کی مانند دشمن پر بم باری کر رہی تھی۔

آگے بڑھتے دشمن کے قدم رک گئے تھے۔بھارتی فوج کی فرنٹ لائن حواس باختہ ہو گئی۔پاک فضائیہ کا حملہ اس قدر منظّم تھا کہ دشمن کو پسپائی اختیار کرنا پڑی۔
 اٹھا کر دیکھ لو تاریخ کو اے مغربی لوگو
 جدھر سے آئے دشمن ہم اُدھر کو موڑ دیتے ہیں
میں جب 1965 کی جنگ کا مطالعہ کرتا ہوں تو مجھے ان سنہرے اوراق پر دشمن کی صفوں کو الٹ پلٹ کر رکھ دینے کی ناقابلِ فراموش داستانیں جگمگاتی نظر آتی ہیں۔

مجھے تاریخ کے صفحوں پر وہ تابناک کارنامہ دکھائی دیتا ہے جب پاک فضائیہ نے پشاور سے دشمن کو نشانہ بنایا۔ایف 86 اور سپر بم بار طیاروں پر مشتمل آٹھ طیاروں نے گیارہ ہزار فٹ کی بلندی پر پرواز کر کے پٹھان کوٹ کے ائر بیس پر کھڑے سات روسی مگ 21، طیارے، پانچ مسٹیر دوناٹ اور چار سی 119 طیارے تباہ کر کے بھارتی عزائم پر کلھاڑے چلا دیے تھے۔دشمن بلبلا اٹھا کہ پٹھان کوٹ کے معرکے نے اُن کی کمر توڑ کر رکھ دی تھی۔


ایم ایم عالم نے صرف ایک منٹ میں پانچ بھارتی ہنٹر جنگی طیارے مار گرائے تھے، ان میں سے چار طیارے محض 30 سیکنڈ کے اندر تباہ کر دیے تھے، اور مجموعی طور پر 9 طیارے زمین بوس کر کے دنیا میں سب سے انوکھا کارنامہ سرانجام دیا تھا۔
 ابھری ہے زمانے میں نئے دن کی کرن دیکھ
 مہکا ہے نیا جذبہ ء تعمیرِ چمن دیکھ
 کر دیں گے قلم ہاتھ جو اٹھیں گے تری سَمت
 اے ارضِ وطن، ارضِ وطن، ارضِ وطن دیکھ
جب جب میں جنگِ ستمبر میں پاکستانی بحریہ کے اعلا اور شان دار کارناموں کو دیکھتا ہوں تو رگ وریشے میں ایمان آفریں طمانیت کی لہر دوڑ جاتی ہے۔

پاکستان کی نیوی کے حملہ آور طیارے اپنے ٹارگٹ سے ایک سو میل دُور ایک خصوصی مقام پر اس طرح جمع ہوئے کہ دشمن کو خبر تک نہ ہوئی اور جب ٹارگٹ پوائنٹ بحری توپ خانے کی زد میں آ گیا تو پاکستانی سپاہ نے اندھا دھند گولہ باری شروع کر دی۔رات 12 بج کر 24 منٹ پر پاکستان نیوی کے جنگی جہازوں نے 350 گولے برسائے اور یہ اہم ٹاسک محض چار منٹوں میں حاصل کر لیا گیا۔


واللہ! جب میں سات ستمبر کو سرگودھا ہوائی اڈے پر حملہ کرنے والے بھارتی ائر فورس کے طیاروں کو نیست ونابود ہونے کے واقعات پڑھتا ہوں تو میرے دل ودماغ کو بڑا ہی نشاط انگیز سرور ملتا ہے۔
آئیے! میں آپ کو جنگِ ستمبر کے موقع پر غیر ملکی اخبارات کے تبصرے بتاؤں کہ ان اخبارات نے پاک فوج اور بھارتی فوج کو کس نظر سے دیکھا تھا۔ان اخباری تجزیوں سے بھارتی بزدلی کا ڈھول پھٹ کر مزید یہ واضح کر دے گا کہ بھارت میں کتنا دم خم ہے۔

”سنڈے ٹائمز“ نے لکھا کہ”فضا میں پوری طرح پاکستان چھایا ہوا ہے، بھارتی ہوا باز، پاکستانی ہوا بازوں کے مقابلے میں بہت گھٹیا درجے کے ہیں اور بھارت ایک ایسے ملک کے ہاتھوں پٹ رہا ہے جو آبادی میں اس سے ساڑھے چار گنا چھوٹا ہے“ نیویارک ٹائمز نے یوں تجزیہ کیا کہ”اشتراکی چین کا مقابلہ کرنا تو دُور کی بات، بھارت اکیلے پاکستان کا مقابلہ نہیں کر سکتا“ برطانوی اخبار ڈیلی مرر نے لکھا کہ”جس ملک میں پاکستان جیسی جری، بہادر اور جاں باز فوج ہو، اُسے شکست دینا آسان کام نہیں“
بھارت، پاکستان کا ازلی دشمن ہے۔

وہ کل بھی پاکستان کو صفحہ ء ہستی سے مٹانا چاہتا تھا اور آج بھی اُس کے دل میں ایسے ارادے ہی سُلگ رہتے ہیں کہ پاکستان کو نیست ونابود کر دیا جائے۔ہندو بنیے کی رگ رگ میں پاکستان کے خلاف نفرت گُھلی ہے، ایک ایسی عداوت جسے آشا بھوسلے ختم کر سکی نہ امن کی آشا کے بے سُرے راگ مٹا سکے۔دیکھ لیجیے! عنادوفساد کی آتش اپنے سینے میں دہکائے متعصّب ہندوؤں کو اتنا بھی گوارا نہیں کہ بھارت کی کوئی گلوکارہ بھی ایسے پروگرام میں شریک ہو، جہاں پاکستانی فن کار موجود ہیں۔

بھارت جب بھی ہماری نظریاتی اساس کو گدلانے یا سرحدی حدود کو رگیدنے کی کوشش کرے گا تو پھر وہ یاد رکھے کہ کشتیاں جلا ڈالنا ہمارا شعار، ٹینکوں سے ٹکرا جانا ہمارا طرّہ ء امتیاز ہے اور 1965 کی طرح دشمنوں کو ایک منفرد”ناشتا“ کروا ہمارا خاصہ ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :