
شیطانی مجسمہ
جمعہ 25 جنوری 2019

حُسین جان
سوشل میڈیا پر لاہور میوزیم میں حال ہی میں نصب کیے گئے شیطانی مجسمے کی کافی دھوم مچی ہوئی ہے۔ کچھ لوگ ہمیشہ کی طرح عادست سے مجبور ہوکر حکومت وقت کے لتے لے رہے ہیں۔ کچھ اس کی کڑیاں امریکہ ، اسرائیل اور انڈیا سے ملا رہے ہیں۔ لبرلز کے نزدیک اس سے کیا قیامت آگئی ہے ایک مجسمہ ہی تو ہے۔ اس سے کسی کے ایمان پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ جبکہ مذہبی لوگوں کے نزدیک یہ ہود نصارکی سازش ہے۔ اور ہمیشہ کی طرح انتظامیہ ، انتظامی غلطی قرار دے رہی ہے۔
ہمارے علاقے میں ایک چاچا لت پھسائی(ٹانگ آڑانا) رہتے ہیں۔ لت پھسائی پنجابی کا لفظ ہے جس کا مطلب ٹانگ آرانا ہے۔ ہمارے ان چچا کی عادت ہے کہ ہر کام میں ٹانگ آرانا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ دوسری ان کی اچھی عادت یہ ہے کہ ہمیشہ دوسروں پر کیچڑ اُچھالتے نظر آتے ہیں۔
کبھی اپنی مجی میں ڈانگ نہیں پھیرتے۔ ایک دفعہ کچھ یوں ہوا کہ چاچا کے بڑئے بیٹے کے چھوٹے بیٹے کو پولیس منشیات فروشی کے الزام پر گرفتار کر کے لے گئی۔ اب بجائے چاچا اپنے پوتے کو برا بھلا کہتے اُلٹا محلے والوں کو گالیاں دینا شروع کر دیں کہ اُنہی کی وجہ سے میرا پوتا بگڑا ہو گا۔ ورنہ وہ تو بہت معصوم بچہ ہے۔ یہی حال ہمارے معاشرئے کا ہے۔ اپنی غلطیوں کو سات سمند پار بیٹھے لوگوں پر تھوپنے میں ایک منٹ نہیں لگاتے۔
ہمارے زیرک لوگوں میں دماغ اتنا ہی ہے جتنا واپڈا کے پاس بجلی۔ بلکہ کچھ لوگوں کا تو یہاں تک کہنا ہے کہ بڑئے بڑئے عہدوں پر براجمان لوگوں کے دماغ ملکی خزانے کی طرح خالی ہیں۔ لیکن اس کے باوجود یہ لوگ ارسطو کی قبر پر لات مرتے رہتے ہیں۔ ایسی ایسی تاویلیں نکالیں گے کہ شیطان بھی دھنگ راہ جاتا ہے۔ اب ایک اور قصہ سن لیں۔ ایک دیہاتی منٹو کے افسانے کے کرداروں کو زندہ کرتے ہوئے ایک موٹی تازی بھینس کی چومیاں لے رہا تھا۔ اتنے میں گاؤں کے کچھ لوگ اُدھر آنکلے جب اُنہوں نے یہ حرکت دیکھی تو فورا اُسے لعن طعن کرنا شروع کردیا۔ موصوف نے جھٹ سب سے معافی مانگی اور کہا کے مجھے شیطان نے گمرہ کر دیا تھا۔ سیانے کہتے ہیں اُسی وقت شیطان کا ظہور ہوا اور وہ کہنے لگا پتر جو کام تم کر رہے تھے نا یہ تو میرے دماغ میں بھی نہیں تھا۔
غالبا ابن انشاء صاحب کا ایک مضمون شیطان صاحب بھی کہیں چھپ چکا ہے۔ جس میں اُنہوں نے اپنے انداز بیان کے مطابق کچھ باتیں بیان کریں ہیں۔ یہ تو ہم سب جانتے ہیں کہ شیطان ہمارے ہاں کیا بلکہ پوری دُنیا میں قابل نفرت سمجھا جاتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اس کے چیلے پوری دُنیا میں آب و تاب کے ساتھ پھیلے ہوئے ہیں۔ اور پاکستان میں تو ان کی تعداد کچھ زیادہ ہی ہو گی۔ یقین نہیں آتا تو ملک کے کچھ اداروں کا چکر لگا لیں۔ بہت سے لوگ مجسم شیطان بنے نظر آیں گے۔ بلکہ کچھ دفاتر میں تو شیطان خود لائن میں لگ کر افسران سے ہدایات لیتا ہے کہ اب سائلین کو مزید کس طرح زلیل کرنا ہے۔ ہماری رشتے میں ایک پھوپھو لگتی ہیں اُن کے بارے میں ایک قصہ مشہور ہے کہ ایک دفعہ کہیں سے گزر رہی تھیں کہ کیا دیکھتی ہیں ایک بڑا سا سانپ جو تقریبا ً دنیا کا زہریلا ترین سانپ تھا اُن کے راستے میں آگیا وہ بہت پریشان ہوئیں کہ اب کیا کریں۔ لیکن بتانے والے بتاتے ہیں کہ سانپ نے فوراً اپنا سر جھکا لیا اور پھوپھو کو بولے کہ بی اماں میں آپ کو ڈسنے نہیں بلکہ آپ سے تھوڑا سازہر لینے آیاہوں کیونکہ آجکل قبض کی وجہ سے مجھ میں زہر کم ہوتا جارہا ہے۔
سنا انتظامیہ نے عوام کے شدید ردعمل کے خوف سے فورا شیطانی مجسمہ ہٹانے میں ہی عافیت سمجھی۔ اس کے ساتھ ساتھ کچھ ایسی خبریں بھی آرہی ہیں کہ اس مجسمے ہو ہٹانے پر کچھ مخصوص حلقوں میں ہڑتال کی باتیں بھی چل رہی ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ ہمارے گرو کے ساتھ سراسر زیادتی ہے۔ کچھ لوگوں کے خیال میں ہمارئے ہاں اخلاقی اقدار ایسے مر رہی ہیں جیسے غریب کا بچہ ہسپتال میں تڑپ تڑپ کر مرجاتا ہے۔ اور مسائل ایسے پیدا ہورہے ہیں جیسے خواتین رکشوں میں بچوں کو جنم د ے رہی ہیں۔ ایسے میں شیطانی چیلوں کی تعداد میں اضافہ ہونا کون سی بری بات ہے۔ ویسے عوام ہر الیکشن میں اتنی لمبی اُمید لگا لیتے ہیں جتنی لمبی شیطان کی آنت۔
چلو شکر ہے کہ شیطانی مجسمہ ہٹا دیا گیا ورنہ بہت سے لوگ اُس سے Motivateہوتے۔ کیونکہ ہم اچھی عادت اپنائیں نا اپنائیں بری عادتوں کو فورا اپنے اندر جذب کرلیتے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس مجسمے کو ہٹانے سے عوامی مسائل کتنے حل ہوتے ہیں۔ اب بار بار وہی دال روٹی کا ذکر کرتے شرم آتی ہے۔ یار دوست کہتے پائے جاتے ہیں کہ ملک میں بڑئے بڑئے پراجیکٹ لگ رہے ہیں ۔ ان کے مکمل ہوتے ہی ملکی حالات بہتر ہوجائیں گے۔ جبکہ اُن لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ اپوزیشن شیطانی پیروکاروں کا سا رویہ اپنائے ہوئے ہے اور پوری کوشش کر رہی ہے کہ حکومت کو زیادہ دیر نا چلنے دیا جائے۔
سنا ہے بہت سے لوگ شیطانی مجسمے کو لے کر اتنا ڈھول بجا رہے ہیں جتنا پنجاب پولیس غریب کے بال کو بے گناہ ہونے کے باوجود بجاتی ہے۔
ہوسکتا ہے کہ اس مجسمے کو ہٹائے جانے سے ہم میں کچھ تبدیلی پیدا ہوجائے۔ اب کوئی یہ نہ کہ دے کی سی ٹی ڈی والوں کو بھی اسی شیطانی مجسمے نے بھڑکایا تھا۔ اور اس کے نتیجے میں ایک بھلی چنگی فیملی جان سے گئی۔ ویسے یہ مجسمہ برائی کی علامت تھا تو کیوں نا اسے کچھ سرکاری محکموں کے آگے نصب کر دیا جائے تاکہ سائلین وہاں جانے سے گریز کریں۔ کیونکہ یہ ادارے لوگوں کو ایسے تنگ کرتے ہیں جیسے بن بارش کے بادل برستے ہیں۔ بس جی پاکستانیوں اور خاص کر لاہوریوں کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ اب شیطانی دھندے مزید نہیں ہوں گے۔ ظاہر ہے علامت جو ہٹوا دی گئی ہے۔
ہمارے علاقے میں ایک چاچا لت پھسائی(ٹانگ آڑانا) رہتے ہیں۔ لت پھسائی پنجابی کا لفظ ہے جس کا مطلب ٹانگ آرانا ہے۔ ہمارے ان چچا کی عادت ہے کہ ہر کام میں ٹانگ آرانا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ دوسری ان کی اچھی عادت یہ ہے کہ ہمیشہ دوسروں پر کیچڑ اُچھالتے نظر آتے ہیں۔
(جاری ہے)
ہمارے زیرک لوگوں میں دماغ اتنا ہی ہے جتنا واپڈا کے پاس بجلی۔ بلکہ کچھ لوگوں کا تو یہاں تک کہنا ہے کہ بڑئے بڑئے عہدوں پر براجمان لوگوں کے دماغ ملکی خزانے کی طرح خالی ہیں۔ لیکن اس کے باوجود یہ لوگ ارسطو کی قبر پر لات مرتے رہتے ہیں۔ ایسی ایسی تاویلیں نکالیں گے کہ شیطان بھی دھنگ راہ جاتا ہے۔ اب ایک اور قصہ سن لیں۔ ایک دیہاتی منٹو کے افسانے کے کرداروں کو زندہ کرتے ہوئے ایک موٹی تازی بھینس کی چومیاں لے رہا تھا۔ اتنے میں گاؤں کے کچھ لوگ اُدھر آنکلے جب اُنہوں نے یہ حرکت دیکھی تو فورا اُسے لعن طعن کرنا شروع کردیا۔ موصوف نے جھٹ سب سے معافی مانگی اور کہا کے مجھے شیطان نے گمرہ کر دیا تھا۔ سیانے کہتے ہیں اُسی وقت شیطان کا ظہور ہوا اور وہ کہنے لگا پتر جو کام تم کر رہے تھے نا یہ تو میرے دماغ میں بھی نہیں تھا۔
غالبا ابن انشاء صاحب کا ایک مضمون شیطان صاحب بھی کہیں چھپ چکا ہے۔ جس میں اُنہوں نے اپنے انداز بیان کے مطابق کچھ باتیں بیان کریں ہیں۔ یہ تو ہم سب جانتے ہیں کہ شیطان ہمارے ہاں کیا بلکہ پوری دُنیا میں قابل نفرت سمجھا جاتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اس کے چیلے پوری دُنیا میں آب و تاب کے ساتھ پھیلے ہوئے ہیں۔ اور پاکستان میں تو ان کی تعداد کچھ زیادہ ہی ہو گی۔ یقین نہیں آتا تو ملک کے کچھ اداروں کا چکر لگا لیں۔ بہت سے لوگ مجسم شیطان بنے نظر آیں گے۔ بلکہ کچھ دفاتر میں تو شیطان خود لائن میں لگ کر افسران سے ہدایات لیتا ہے کہ اب سائلین کو مزید کس طرح زلیل کرنا ہے۔ ہماری رشتے میں ایک پھوپھو لگتی ہیں اُن کے بارے میں ایک قصہ مشہور ہے کہ ایک دفعہ کہیں سے گزر رہی تھیں کہ کیا دیکھتی ہیں ایک بڑا سا سانپ جو تقریبا ً دنیا کا زہریلا ترین سانپ تھا اُن کے راستے میں آگیا وہ بہت پریشان ہوئیں کہ اب کیا کریں۔ لیکن بتانے والے بتاتے ہیں کہ سانپ نے فوراً اپنا سر جھکا لیا اور پھوپھو کو بولے کہ بی اماں میں آپ کو ڈسنے نہیں بلکہ آپ سے تھوڑا سازہر لینے آیاہوں کیونکہ آجکل قبض کی وجہ سے مجھ میں زہر کم ہوتا جارہا ہے۔
سنا انتظامیہ نے عوام کے شدید ردعمل کے خوف سے فورا شیطانی مجسمہ ہٹانے میں ہی عافیت سمجھی۔ اس کے ساتھ ساتھ کچھ ایسی خبریں بھی آرہی ہیں کہ اس مجسمے ہو ہٹانے پر کچھ مخصوص حلقوں میں ہڑتال کی باتیں بھی چل رہی ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ ہمارے گرو کے ساتھ سراسر زیادتی ہے۔ کچھ لوگوں کے خیال میں ہمارئے ہاں اخلاقی اقدار ایسے مر رہی ہیں جیسے غریب کا بچہ ہسپتال میں تڑپ تڑپ کر مرجاتا ہے۔ اور مسائل ایسے پیدا ہورہے ہیں جیسے خواتین رکشوں میں بچوں کو جنم د ے رہی ہیں۔ ایسے میں شیطانی چیلوں کی تعداد میں اضافہ ہونا کون سی بری بات ہے۔ ویسے عوام ہر الیکشن میں اتنی لمبی اُمید لگا لیتے ہیں جتنی لمبی شیطان کی آنت۔
چلو شکر ہے کہ شیطانی مجسمہ ہٹا دیا گیا ورنہ بہت سے لوگ اُس سے Motivateہوتے۔ کیونکہ ہم اچھی عادت اپنائیں نا اپنائیں بری عادتوں کو فورا اپنے اندر جذب کرلیتے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس مجسمے کو ہٹانے سے عوامی مسائل کتنے حل ہوتے ہیں۔ اب بار بار وہی دال روٹی کا ذکر کرتے شرم آتی ہے۔ یار دوست کہتے پائے جاتے ہیں کہ ملک میں بڑئے بڑئے پراجیکٹ لگ رہے ہیں ۔ ان کے مکمل ہوتے ہی ملکی حالات بہتر ہوجائیں گے۔ جبکہ اُن لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ اپوزیشن شیطانی پیروکاروں کا سا رویہ اپنائے ہوئے ہے اور پوری کوشش کر رہی ہے کہ حکومت کو زیادہ دیر نا چلنے دیا جائے۔
سنا ہے بہت سے لوگ شیطانی مجسمے کو لے کر اتنا ڈھول بجا رہے ہیں جتنا پنجاب پولیس غریب کے بال کو بے گناہ ہونے کے باوجود بجاتی ہے۔
ہوسکتا ہے کہ اس مجسمے کو ہٹائے جانے سے ہم میں کچھ تبدیلی پیدا ہوجائے۔ اب کوئی یہ نہ کہ دے کی سی ٹی ڈی والوں کو بھی اسی شیطانی مجسمے نے بھڑکایا تھا۔ اور اس کے نتیجے میں ایک بھلی چنگی فیملی جان سے گئی۔ ویسے یہ مجسمہ برائی کی علامت تھا تو کیوں نا اسے کچھ سرکاری محکموں کے آگے نصب کر دیا جائے تاکہ سائلین وہاں جانے سے گریز کریں۔ کیونکہ یہ ادارے لوگوں کو ایسے تنگ کرتے ہیں جیسے بن بارش کے بادل برستے ہیں۔ بس جی پاکستانیوں اور خاص کر لاہوریوں کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ اب شیطانی دھندے مزید نہیں ہوں گے۔ ظاہر ہے علامت جو ہٹوا دی گئی ہے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
ABOUT US
Our Network
Who We Are
Site Links: Ramadan 2025 - Education - Urdu News - Breaking News - English News - PSL 2024 - Live Tv Channels - Urdu Horoscope - Horoscope in Urdu - Muslim Names in Urdu - Urdu Poetry - Love Poetry - Sad Poetry - Prize Bond - Mobile Prices in Pakistan - Train Timings - English to Urdu - Big Ticket - Translate English to Urdu - Ramadan Calendar - Prayer Times - DDF Raffle - SMS messages - Islamic Calendar - Events - Today Islamic Date - Travel - UAE Raffles - Flight Timings - Travel Guide - Prize Bond Schedule - Arabic News - Urdu Cooking Recipes - Directory - Pakistan Results - Past Papers - BISE - Schools in Pakistan - Academies & Tuition Centers - Car Prices - Bikes Prices
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.